عوامی فلسفہ۔۔گل نوخیز اختر

السلام علیکم پروفیسر صاحب!

Advertisements
julia rana solicitors

وعلیکم السلام!
یہ بتائیے کہ ہمارے ملک میں قانون توڑنے والوں کو سزا کیوں نہیں دی جاتی؟
تمہارا مطلب ہے کہ تم اپنی خوشی سے جیل جانا چاہتے ہو؟
کیا مطلب؟ میں قانون توڑنے والوں کی بات کر رہا ہوں۔
میں بھی قانون توڑنے والے کی ہی بات کر رہا ہوں، تم نے خود بتایا تھا کہ تم نے لائن مین کو پیسے دے کر گھر کا میٹر پیچھے کروایا ہوا ہے۔
لاحول ولا قوۃ! آپ کا کیا خیال ہے آدھی تنخواہ بجلی کے بلوں میں دے دیا کروں؟ اتنی مہنگی بجلی کوئی کیسے افورڈ کر سکتا ہے؟
لیکن تم نے تو چار سال سے گاڑی کا ٹوکن بھی نہیں لگوایا……!!!
ہاں! نہیں لگوایا، اخراجات ہی اتنے زیادہ ہوگئے ہیں کہ بچت ناممکن ہوگئی ہے، ویسے مجھے ٹائم بھی نہیں مل رہا……!!!
اور وہ جو تم نے اپنے ہمسائے پر چوری کا جھوٹا پرچہ کٹوایا تھا؟
پروفیسر صاحب! آپ اچھی طرح جانتے ہیں کہ میرا ہمسایہ کتنا کمینہ انسان ہے، جب میری گیس کٹ گئی تھی تو اس نے ایک دن کے لیے بھی اپنی طرف مجھے پائپ نہیں لگانے دیا، دیگ پکواتا ہے تو سارے محلے میں چاول تقسیم کرتاہے لیکن میرے گھر نہیں بھیجتا‘ ایک دفعہ میں نے اس سے پانچ ہزار اُدھار مانگے تھے اُس نے وہ بھی نہیں دیے۔اور یہ بات بھی آپ کے علم میں ہی ہوگی کہ اس نے ایک دفعہ واپڈا کے دفتر فون کرکے میری بجلی چوری کی اطلاع دی تھی۔کیا ایسے شخص کو میں معاف کردیتا؟
اوکے! لیکن یاد کرو تمہارے پاس جو موبائل ہے وہ چوری کا ہے اور تم نے دوکان سے سستے داموں خریدا تھا، تم نے خود بتایا تھا۔
اس میں میرا کیا قصور ہے؟ میں تو چوری نہیں کی تھی ناں؟ گناہ تو دوکاندار کا ہے، ویسے بھی دوکاندار میرا دوست تھا اس لیے اس نے مجھے بتا دیا کہ موبائل چوری کا ہے ورنہ اگر وہ نہ بتاتا تو مجھے کیا پتا چلنا تھا۔میں نے چوری کیا ہوتا تو بات بھی تھی۔
ٹھیک ہے!یہ بتاؤ کہ تم نے چھ سات جعلی فیس بک اکاؤنٹ کیوں بنائے ہوئے ہیں؟
ہاہاہا……بس ایسے ہی‘ ذرا شغل لگانے کے لیے۔
مان لیا……لیکن میں نے کئی دفعہ دیکھا ہے گاڑی چلاتے وقت تم اکثر اشارہ کاٹ جاتے ہو۔
اوہو……پروفیسر صاحب! گرمی اتنی زیادہ ہے، دھوپ میں نہیں کھڑا ہوا جاتا، ویسے بھی اشارے آج کل دس سیکنڈ کے لیے کھلتے ہیں اور دس منٹ کے لیے بند ہوجاتے ہیں، اتنی دیر دھوپ میں کھڑا رہ کر کیا خود کشی کرلوں؟
لیکن تم نے ابھی تک اپنا لائسنس بھی تو نہیں بنوایا ناں!!!
ہاں ……نہیں بنوایا، صحافیوں کو لائسنس کی کیا ضرورت؟ اور ویسے بھی،کیا مجھے گاڑی چلانی نہیں آتی؟ بیس سال سے گاڑی چلا رہا ہوں‘ اگر اب بھی مجھے لائسنس کی ضرورت ہے تو لعنت ہے میری ڈرائیونگ پر……!!!
تم نے گاڑی کے کاغذات بھی اپنے نام نہیں کروائے……!!!
پروفیسر صاحب آپ کیوں چھوٹی چھوٹی باتوں کو ایشو بنانے پر تلے ہوئے ہیں، گاڑی میں نے اپنے ایک دوست سے خریدی تھی، وہ بالکل میرے بھائیوں جیسا دوست ہے، جب چاہوں گا گاڑی اپنے نام کروا لوں گا، اس میں مسئلہ کیا ہے؟
پچھلی دفعہ تم بتا رہے تھے کہ تمہارے پاس گھر میں ایک ریوالور بھی ہے، کیا تم نے اس کا لائسنس بنوایا ہے؟
چلو……پھر لائسنس……او پروفیسر صاحب ذرا جاکر دیکھیں کہ اسلحہ لائسنس بنوانا کتنا مشکل ہوگیا ہے، اگر اس دوران میرے گھر میں ڈاکو آگئے تو کیا میں لائسنس کے انتظار میں بیٹھا رہوں؟ ریوالور میں نے اپنی حفاظت کے لیے رکھا ہے اور اس کا مجھے پورا حق ہے۔
ٹھیک ہے……اب یہ بتاؤ کہ جب تم نے اپنا پاسپورٹ بنوایا تھا تو ایجنٹ کوپیسے کیوں دیے تھے؟
بہت اچھے……آپ نے ابھی تک پاسپورٹ نہیں بنوایا اس لیے آپ ایسی باتیں کر رہے ہیں، ذرا جاکر پاسپورٹ آفس دیکھیں، چھ چھ سو بندوں کی قطار لگی ہوتی ہے۔اگر میں بھی وہاں کھڑا ہوجاتا تو ایک ہفتے تک میرا نمبر نہیں آنا تھا۔ جو لوگ اس قطار میں کھڑے ہوتے ہیں وہ تو فارغ اور سست ہوتے ہیں۔کیاہوا اگر میں نے ایک ہزار دے کر اپنا نمبر جلدی لگوا لیا۔پاسپورٹ تو اصلی ہے ناں، جرم تو تب ہوتا اگر میں نقلی پاسپورٹ بنواتا۔
یہ بھی مان لیا……لیکن تمہارا پریس کارڈ تو جعلی ہے ناں ……کام تم ایک چھوٹے اخبار میں کرتے ہو اور پریس کارڈ بڑے اخبار کا بنوا رکھا ہے۔
او میرے پیارے پروفیسر صاحب! جگہ جگہ پولیس کے ناکے لگے ہوتے ہیں، بلاوجہ روک لیتے ہیں، چھوٹے اخبار کے صحافیوں کو تو یہ لوگ لفٹ ہی نہیں کراتے، میں نے تو بلاوجہ کی خواری سے بچنے کے لیے بڑے اخبار کا پریس کارڈ رکھا ہوا ہے، ویسے اس میں حرج ہی کیا ہے، صحافی تو میں ہوں، بڑے اخبار کا نہ سہی، چھوٹے اخبار کاسہی……!!!
تمہاری آمدنی تو اچھی خاصی ہے لیکن ٹیکس کیوں نہیں دیتے؟
میں کیوں ٹیکس دوں؟ بڑے بڑے امیر لوگ ٹیکس نہیں دیتے تو میرا دماغ خراب ہے کہ بلاوجہ ٹیکس دیتا پھروں؟ پہلے بڑے مگرمچھوں کو پکڑیں پھر مجھ سے بات کریں ……!!!
پروفیسر صاحب نے اثبات میں سرہلایا، لمبی سانس لی اورآہستہ سے بولے”تمہارا اصل مسئلہ کیا ہے؟“
میرا مسئلہ کچھ نہیں ……بس میں یہ چاہتا ہوں کہ اس ملک میں قانون توڑنے والوں کے لیے سخت سزائیں نافذ ہونی چاہئیں تاکہ کسی کو جرات نہ ہو کہ وہ کوئی غیر قانونی کام کر سکے۔ صرف اسی صورت میں ہمارا ملک ترقی کر سکتا ہے ورنہ ہمارا مقدر تباہی ہے۔

Facebook Comments

مکالمہ
مباحثوں، الزامات و دشنام، نفرت اور دوری کے اس ماحول میں ضرورت ہے کہ ہم ایک دوسرے سے بات کریں، ایک دوسرے کی سنیں، سمجھنے کی کوشش کریں، اختلاف کریں مگر احترام سے۔ بس اسی خواہش کا نام ”مکالمہ“ ہے۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply