جسے اللہ رکھے (قسط5)۔۔عزیزاللہ خان

میں اور میرے ہمراہی ملازمین جھانگڑہ جلالپور روڈ پر ایک موڑ میں چھپ کر بیٹھے ہوئے تھے سرکاری گاڑی بھی تھوڑی دور ایک طرف چھپا کر کھڑی کی ہوئی تھی تاکہ نظر نہ آئے-موٹرسائیکلوں کی آوازیں اور روشنیاں قریب آرہی تھیں- سرکاری گاڑی کا ڈرائیور لطیف بھی میرے ساتھ اپنی کلاشنکوف لے کر بیٹھا ہوا تھا محکمہ پولیس میں ہمیشہ سے تھانوں پر کمی نفری دیکھی گئی ہے خاص طور پر جنوبی پنجاب کے اضلاع میں تو یہ بُہت زیادہ ہےاور اس کی ایک وجہ ان پولیس ملازمین سے لی جانے والی غیرضروری ڈیوٹیاں ہیں- نصف سے زیادہ پولیس ملازمین VIP افراد اور افسران کی سکیورٹی پر لگے ہوئے ہیں-
میں ملازمین کی کمی کی صورت میں ڈرائیور کو بھی بطور گن مین اپنے ساتھ رکھتا تھا-ضلع رحیم یار خان پوسٹنگ کے دوران نذیر نیازی جو سرکاری گاڑی کا ڈرائیور تھا مگر ہر ریڈ پر وہ میرے ساتھ اپنی گن لے کر شانہ بشانہ ہوتا تھا-

میں نے لیاقت گل سب انسپکٹر کو کہا کہ آنے والے موٹر سائکلوں کو اس طرح روکے کہ اگر موٹرسائیکل سوار فائرنگ بھی کریں تو پولیس ملازمین کا نقصان نہ ہو کیونکہ سامنے آ کر روکنے پر ملزمان سیدھا فائر بھی کر سکتے تھے جس سے ہمارا جانی نقصان ہو سکتا تھا- موٹر سائیکل سواروں پر فائرنگ میں پہل کرنا ان میں چھلو حسام کے نہ ہونے پر ہمارے لیے بھی نقصان دیہ ہو سکتا تھا اگر کوئی اور مسافر فائرنگ کی زد میں آجاتا تو محکمہ کے افسران فوری طور پر قتل کا مقدمہ درج کرتے ہیں اور اگلے لمحے ایس ایچ او صاحب حوالات تھانہ میں نظر آتے ہیں-

میں نے لیاقت گل سب انسپکٹر کو کہا کہ فوری طور پر سڑک کے کنارے پڑی لکڑی اُٹھا کر سڑک پر ڈال دے تاکہ چھلو حسام وغیرہ یہ سمجھیں کہ لوٹنے والا کوئی گینگ بیٹھا ہے اور وہ فائرنگ نہیں کریں گے-لیاقت گل سب انسپکٹر نے لطیف ڈرائیور کو ساتھ لیا دونوں نے ایک بڑی لکڑی اُٹھا کر سڑک پر پھینک دی اور بھاگ کر میرے پاس آگئے میں سب ملازمین کے ساتھ سڑک سے 20/25 فٹ کے فاصلہ پر چھُپ کر بیٹھا ہوا تھا-ملازمین کو آمنے سامنے سڑک پر نہیں بیٹھایا تھا تاکہ کراس فائر کی صورت میں اپنا جانی نقصان نہ ہو جائے-تھوڑی دیر بعد دو موٹر سائیکل جس پر چار افراد سوار تھے نے سڑک پر پڑی لکڑی کو موٹر سائکلوں کی روشنی میں دیکھ کر رفتار آہستہ کر لی اب وہ چاروں ہماری فائرنگ کی رینج میں تھے-

اب ہمیں موٹر سائیکلوں کی روشنی میں چار افراد نظر آ رہے تھے چاروں نے چادریں لپیٹی ہوئی تھیں مگر موٹر سائیکلوں پر پیچھے بیٹھے دونوں افراد کے پاس کلاشنکوف صاف نظر آرہی تھیں میں نے لیاقت گل کو سرگوشی کی کہ ان کو آواز دے کر ہتھیار ڈالنے کا کہتے ہیں لیاقت گل نے جیسے اُنچی آواز میں اُن افراد کو ہتھیار ڈالنے کا کہا اُن میں سے موٹرسائیکل پر پیچھے بیٹھا ایک فرد نیچے اُترا اُونچی آواز میں گالی دی ساتھ ہی کلاشنکوف سے ہماری طرف برسٹ مارا کیونکہ ہم سامنے نہیں تھے اس لیے ہم میں سے کسی کو فائر نہ لگا میرے ساتھ لیٹے لطیف ڈرائیور نے میرے روکنے کے باوجود زمین سے اُٹھ کر ملزمان کی طرف اپنی کلاشنکوف سے فائیرنگ کی جس کے نتیجہ میں موٹرسائیکل سے اُتر کر فائیرنگ کرنے والا شخص کو فائر لگا اور وہ سڑک پر گر پڑا دونوں موٹر سائیکل اسٹارٹ تھے

سواروں نے تیزی سے موٹرسائیکل واپس موڑ لیے اور بھاگنے لگے اب میں نے بھی باہر نکل کر فائرنگ کی مگر اُن میں سے کسی کو فائر نہ لگا میں نے لطیف کو چیخ کر سرکاری گاڑی سٹارٹ کرنے کا کہا تاکہ اُن کا پیچھا کیا جاسکے میں نے سڑک پر گرے شخص کے پاس جاکر دیکھا تو وہ دم توڑ چکا تھا لطیف ڈرائیور کی کلاشنکوف کا برسٹ اُس کے سینے میں لگا تھا-لطیف ڈرائیور گاڑی لےکر آگیا میں فوری طور پر گاڑی میں بیٹھ گیا حمید کانسٹیبل کو لاش کے پاس چھوڑا اور بقیہ ملازمین بھی سرکاری گاڑی میں سوار ہوگئے اور موٹر سائیکل سواروں کے عقب میں روانہ ہو گئے- موٹرسائیکلوں کی سُرخ بیک لائٹس مجھے دور سے نظر آرہی تھیں باوجود پوری کوشش کے ہماری پُرانی گاڑی موٹرسائیکلوں کا پیچھا نہ کر سکی اور موٹر سائیکل ہماری نگاہوں سے اوجھل ہو گئے اب ہمیں اُن کی بیک لائیٹس بھی نظر نہیں آرہی تھیں-اندھیری رات تھی جیسے گاڑی کی لائٹس بند ہوتی تھیں کُچھ نظر نہیں آتا تھا-مجھے اس بات کا خدشہ بھی تھا کہ کہیں مفرور ملزمان گاڑی کی روشنی دیکھ کہیں چُھپ کر فائیرنگ نہ کر دیں اگر ایسا ہوا تو ہمارا زیادہ جانی نقصان ہونا تھا اس لیے میں نے لطیف کو سرکاری گاڑی واپس موڑنے کا کہا تھوڑی دیر بعد ہم واپس موقع پر پُنہچ گئے حمید کانسٹیبل نعش کے پاس موجود تھا مُردہ شخص کے ساتھ ایک کلاشنکوف بھی پڑی ہوئی تھے حمید مجھے کہنے لگا “سر مجھے یہ چھلو حسام لگتا ہے “مگر بغیر تصدیق کے میں اپنے افسران کو نہیں بتا سکتا تھا کہ مرنے والا چھلو حسام ہے؟قبل ازیں میں وائرلس سیٹ پر پولیس مقابلہ کے بارے میں بھی وائرلس کنٹرول کو اطلاع دے چُکا تھا-معراج خان Asi بھی موقع پر پُنہچ گیا اُس کے ساتھ زمیندار بھی تھا جس نے نعش کو دیکھتے ہی مجھے مبارک باد دی کہ یہ چھلو حسام ہے- میں نے فوری طور پر میاں عرفان اُللہ ڈی ایس پی احمد پور شرقیہ کو بذریعہ موبائل فون ساری صورت حال بتائی میاں صاحب نے بھی مجھے اس کامیابی پر شاباش دی میں نے میاں صاحب کو کہا کہ ڈی پی او صاحب کو بھی بتا دیں- دوران ملازمت میری ہمیشہ کوشش ہوتی تھی کہ اپنے امیجیٹ متعلقہ افسر سے ہر بات ڈسکس کرتا تھا اور غیرضروری طور پر افسران بالا کو فون کالز نہیں کرتا تھا میرے خیال میں یہ بات ہر اچھے ملازم کے لیے بہتر ہوتی ہے-

فائرنگ کی آواز سُن کر موقع پر ارد گرد کے کافی لوگ اکٹھے ہو چُکے تھے جو ہمیں اس کاروائی پر مبارکباد دے رہے تھے میں نے لیاقت گل سب انسپکٹر اور معراج خان کو ضروری قانونی کاروئی کرنے کی ہدایت کی اور لاش کو پوسٹمارٹم کے لیے بہاولہور بھجوانے کا کہا کیونکہ یہ پولیس مقابلہ تھا اس لیے چھلو حسام کا پوسٹمارٹم میڈیکل بورڈ نے کرنا تھا-چھلو حسام کے ہولیس مقابلے میں مارے جانے کی اطلاع پورے علاقہ میں جنگل کی آگ کی طرح پھیل چُکی تھی میں نے چھلو حسام اور اُس کے تین نامعلوم ملزمان کے خلاف 353/324 ت پ کے تحت ایف آئی آر درج کر دی اور تفتیش لیاقت علی گل سب انسپکٹر کے حوالے کر دی اب بقیہ قانونی کاروائی اُسی نے کرنی تھی کیونکہ وہ انچارج چوکی بھی تھا-

دوسرے دن شام کو چھلو حسام کی لاش پوسٹمارٹم کے بعد ورثا کے حوالے کردی گئی میں نے ایلیٹ پولیس کی دوگاڑیاں بھی موضع ودھنور چھلو حسام کی رہائش پر بھجوا دیں تاکہ ورثا احتجاج نہ کریں اور لا اینڈ آرڈر کی سچویشن پیدا نہ ہو- چھلو حسام کو جنازے کے بعد دفن کر دیا گیا-

دودن بعد چھلو حسام کی بیوہ نے بھی میرے خلاف اپنے گھر میں داخل ہو کر زیورات اور پیسے لوٹ کر لے جانے کی درخواست دے دی- ڈڈلی حسام اور چھلو حسام کی جوڈیشل انکوائیری سول جج صاحب احمد پور شرقیہ نے موقع پر کی جہاں علاقہ کی معززین نے پولیس کی بھرپور مدد کی اور سوائے ڈڈلی اور چھلو کی بیوہ عورتوں کے کوئی مرد جوڈیشل انکوائیری میں شامل نہ ہوا-سینکڑوں افراد میں سے کسی نے بھی پولیس کے خلاف کوئی بیان نہ دیا اور اس طرح دونوں جوڈیشل انکوائیریاں پولیس کے حق میں ہو گئیں-

چھلو حسام اپنے انجام کو پُنہچ چکا تھا اس کے مقابلے میں مارے جانے کے بعد علاقہ تھانہ نوشہرہ میں پولیس کی عزت میں اضافہ ہوا تھا ورنہ جس طرح مجھ پر قاتلانہ حملہ ہوا تھا اُس کے بعد علاقہ کے لوگوں میں بے چینی اور ڈر پایا جاتا تھا کہ اگر یہ ڈاکو اور بدمعاش پولیس پر حملہ کر سکتے ہیں تو عوام تو ان بدمعاشوں کے لیے تر نوالہ تھی -میں ہر ہفتہ تھانہ اور سرکل احمد پور کی نفری لے کر دریائی علاقوں میں ریڈ کرتا تھا میری کوشش تھی کہ جرائم پیشہ افراد کا یہ گروپ اکٹھا نہ ہو سکے-علاقہ تھانہ نوشہرہ میں وارداتیں بُہت کم ہو گئی تھیں مگر جلال پور پیر والا اور علی پور کے علاقہ میں شفیع ماتم اور حمیدا فوجی گروپ باقاعدگی سے وارداتیں کر رہا تھا جس سے وہاں کے لوگ بُہت پریشان تھے- چھلو حسام کے مارے جانے کے بعد اس گینگ میں سے علو ڈاہڑ ،بلو حسام ،مُنیر عرف مُنی ککس اور عابد ڈاہڑ ڈر کر مفرور ہو گئے تھے جن کے بارے میں مختلف اطلاعات آرہی تھیں مگر ان کے بارے میں کوئی کنفرم اطلاع نہ مل رہی تھی کہ وہ کہاں چھپے ہوئے ہیں-کراچی نوشہرہ جدید اور جلال پور کے علاقہ کے جرائم پیشہ افراد کے لیے جنت تھا جب بھی علاقہ کی پولیس ان پر ریڈ کرتی تو یہ جرائم پیشہ کراچی جا کر کہیں ملازمت کر لیتے تھے ان میں سے کافی جرائم پیشہ کراچی کی پولیس سے مقابلے میں بھی مارے جاتے تھے ایک دو ماہ کے بعد اس طرح کے جرائم پیشہ افراد کی لاشیں بھی آیا کرتی تھیں- عابد ڈاہڑ وغیرہ کے بارے میں بھی یہی اطلاعات تھیں کہ وہ کراچی میں روپوش ہیں- بقیہ ملزمان کی گرفتاری بھی میرے لیے اُتنی اہم تھی کیونکہ جب تک میں انہیں گرفتار نہ کر لیتا یا وہ مقابلے میں مارے نہ جاتے مجھے سکون نہ ملتا کیونکہ یہ میری عزت کا معاملہ تھا-

ایک دن میں تھانہ پر موجود تھا کہ مجھے مخبر نے اطلاع دی کہ شفیع ماتم ضلع راجنپور کے تھانہ جام پو ر میں گرفتار ہو گیا ہے حمیدہ فوجی بھی اُس کے ہمراہ تھا مگر وہ تھانہ جام ہور پولیس کو چکمہ دے کر فرار ہو گیا ہے حمیدہ فوجی اس گینگ میں سب سے زیادہ چالاک اور ہوشیار تھا تمام وارداتوں کی پلانگ بھی حمیدہ فوجی کرتا تھا-
جب مخبر نے مجھے اطلاع دی تو شام ہو چکی تھی میں نے میاں عرفان ڈی ایس پی سے جام پور جانے کی اجازت طلب کی تو اُنہوں نے مشورہ دیا کا صُبح جانا اُس علاقہ میں رات کا سفر کرنا ٹھیک نہیں ہے اور شفیع ماتم تو گرفتار ہے اُس نے کہاں بھاگ جانا ہے ؟میں نے ڈی ایس ہی صاحب کا مشورہ مان لیا اب مجھے ڈی پی او صاحب سے بھی اپنی ضلع سے باہر جانے کی اجازت لینی تھی میں نے بذریعہ فون اُن سے بھی اجازت لے لی-

اگلی صُبح میں سرکاری گاڑی پر جام پور روانہ ہوگیا معراج خان Asi بھی میرے ہمراہ تھا -جام پور جانے کے لیے براستہ ملتان ،مظفرگڑہ ڈیرہ غازی خان جانا پڑتا تھا تقریباً چار پانچ گھنٹے کی مسافت کے بعد ہم تھانہ جام پورپہنچ گئے ایس ایچ او صاحب تھانہ پر موجود تھے جنہوں نے ڈی ایس پی سے بات کرنے کے بعد شفیع ماتم سے انٹروگیشن کی اجازت دے دی- میں نے قبل ازیں شفیع ماتم کو نہ دیکھا ہوا تھا اس کی ایک پُرانی تصویر ضرور دیکھی تھی مگر اُس تصویر اور موجودہ شفیع ماتم میں بُہت فرق تھا – شفیع ماتم 55 سال کا ادھیڑ عمر شخص تھا جس نے داڑھی رکھی ہوئی تھی اور خضاب لگاتا تھا اور بھاری جسم کا مالک تھا مجھے دیکھتے ہی اُس کا چہرہ زرد ہو گیا میں نے اُس سے زیادہ کوئی بات نہیں کی بس اتنا پوچھا مجھ پر فائیرنگ کیوں کی ؟ شفیع ماتم نے ہاتھ جوڑتے ہوئے کہا خان صاحب ہم نے آپ پر فائیرنگ نہیں کی تھی ہم معراج خان Asi کو مارنا چاہتے تھے کیونکہ اس نے ہمیں بُہت تنگ کر رکھا تھا ڈڈلی حسام کے مارے جانے کے بعد چھلو حسام ہمارے پاس آیا تھا کہ ڈڈلی کے قتل کا انتقام لیتے ہیں ہم سب شراب کے نشے میں دھت تھے تو چھلو حسام سے وعدہ کرلیا وقوعہ کے روز حمیدہ فوجی نے ہی تمام پلان بنایا فون بھی وہی کرتا رہا ہمیں آپ کے آنے کی توقع نہ تھی مگر آپ آگئے اور یہ حادثہ ہو گیا – شفیع ماتم نے مجھ پر فائیرنگ کرنے والے اپنے باقی ساتھیوں کے نام بھی بتا دیے کہ اس میں کون کون شامل تھے اور کس کے پاس کونسا ہتھیار تھا-

Advertisements
julia rana solicitors london

شفیع ماتم سے انٹیرو گیشن کے بعد سب کُچھ واضح ہو گیا تھا کیونکہ شفیع ماتم کو جامُپور پولیس نے حسب ضابطہ گرفتار کیا ہوا تھا اس لیے اب اُسے ضلع راجنپور سے ٹرانسفر کرا کے لانا تھا اور یہ ڈیوٹی میں نے معراج خان Asi کے ذمہ لگا دی کہ وہ مجھ ہر فائیرنگ والے مقدمہ میں شفیع ماتم کو نامزد کرے اور ٹرانسفر کروا کر تھانہ نوشہرہ جدید لائے- اب تمام ملزمان کے نام معلوم ہو چکے تھے جن کو میں نے کیفر کردار تک پہنچانا  تھا –
معراج خان شفیع ماتم کو تھانہ نو شہرہ کے مقدمہ میں ٹرانسفر کروا کر لانے کی بھرپور کوشش کر رہا تھا جبکہ شفیع ماتم اپنے وکلا کے ذریعے عدالت میں یہ ثابت کرنے کی کوشش کر رہا تھا کہ نوشہرہ پولیس کا ایس ایچ او یعنی میں اُسے پولیس مقابلے میں مار ڈالے گا اس سلسلہ میں اُنہوں نے چھلو حسام کی ایف آئی آر بھی جام پور عدالت میں پیش کر دی-
پندرہ بیس دن کی بھرپور کوشش کے بعد معراج خان Asi شفیع ماتم کو لے کر آگیا اُس دن میں مُلتان اپنے گھر رخصت پر آیا ہوا تھا جہاں معراج نے مجھے شفیع ماتم کو لے کر آنے کی خوش خبری سُنائی میں نے اپنی رخصت منسوخ کروا دی اور فوری طور پر تھانہ نوشہرہ جدید روانہ ہو گیا جہاں شفیع ماتم موجود تھا اور اب اُس نے سچ بولنا تھا کیونکہ اب وہ میرے تھانہ کی تحویل میں تھا۔
(جاری ہے)

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply