پچیس سالوں میں صرف دو مفروضوں کا دفاع۔۔سردار معراج

پاکستان میں پی ایچ ڈیز ڈگریاں جس رفتار سے ملکی و غیر ملکی یونی ورسٹی بانٹ رہی ہیں ۔وہ دن دور نہیں جب پاکستانی قوم ڈاکٹر قوم کہلائے گی۔لیکن دوسری طرف آج کل اکثر ادبی رسائل میں سرقہ اور خاص طور پر جعلی پی ایچ ڈیز کرنے والوں کا ذکر ہوتا رہتا ہے۔ ایسے میں کچھ لوگ ایسے بھی ہیں۔ جو خاموشی سے کام کرتے رہتے ہیں، میں ایک ایسے شخص  کو جانتا ہوں جسے میں نے کبھی پڑھے لکھے ہونے کا دعویٰ  کرتے دیکھا نہ سنا، اپنی کتب کسی کو پیش کیں  تو ساتھ ہی کہہ دیا میرے کام کو ادب وعلم کے معیار پر نہیں میرے مقاصد سے جوڑ کر دیکھیے گا۔آج کل انکی ایک کتاب
” رئیل اسٹیٹ مینجمنٹ نظری و عملی”
کی پروف ریڈنگ کرتے بیک پیج پر انکے تعارف جسے میں پہلے بھی کئی دفعہ پڑھ چکا ہوں لیکن یہ تعارف ذرا فرق انداز میں لکھا گیا ہے۔یہ شاید  کتاب کے ناشر اقبال خورشید بھائی کا کارنامہ ہے۔یا انکے کسی ٹیم ممبر کا اس تعارف کو پڑھ کر لگا کہ  کسی مفروضے کا دفاع کرنا واقعی  جاں جوکھوں کا کام ہے۔یہ جو حقیقی پڑھے لکھے لوگ جعلی پی ایچ ڈیز کےلئے اچھے خیالات نہیں رکھتے وہ بڑی حد تک درست ہے۔ اس شخص کا تعارف پڑھیں۔ جس نے صرف دو مفروضوں کے لئے پچیس سال لگا دیئے پھر بھی وہ اس کام کو علم و ادب نہیں ایک مقصد کے لئے کئی گئی چھوٹی موٹی کوشش قرار دیتا ہے۔

اعظم معراج 1987ءسے رئیل اسٹیٹ کے شعبے سے وابستہ ہیں۔وہ 1997ءمیں ڈیفکلریا (ڈیفنس اینڈ کلفٹن اسٹیٹ ایجنٹ ایسوسی ایشن) کے پہلے سیکریٹری ایجوکیشن منتخب ہوئے۔ پاکستان میں پہلی بار رئیل اسٹیٹ کی رسمی تعلیم پرکام کیا۔متعدد سیمینار اور ورکشاپ کروائے۔ اس موضوع پر چار کتب ”میں تو اسٹیٹ ایجنٹ ہوگیا“ ، ”پاکستان میں رئیل اسٹیٹ کا کاروبار“، ”اسٹیٹ ایجنٹ کا کھتارسس“ اور ”رئیل اسٹیٹ مینجمنٹ نظری و عملی“لکھیں۔ یہ کتب معیشت کے اس اہم شعبے پر پاکستان میں پہلی کتب ہیں۔ رئیل اسٹیٹ کے شعبے میں پہلی دفعہ MBA پروگرام شروع کیا۔ رئیل اسٹیٹ پر متعدد کورسز کروائے۔ 2010 میں وہ ڈیفکلریا کے پہلے چیئرمین اسکورٹنی کمیٹی بھی رہے۔

رئیل اسٹیٹ میں اپنے تیس سالہ تجربے، مشاہدے اور تحقیق کی بنیاد پر ایک کورس بنام” بیسک آف رئیل اسٹیٹ مارکیٹنگ اینڈ مینجمنٹ“ ڈیزائن کا  یہ کورس تجربے، تحقیق، تعلیم کی بنیاد پر منظم انداز میں پاکستان کے معروضی حالات کے مطابق رئیل اسٹیٹ کے پیشے سے وابستہ افراد کی تربیت کے لئے ترتیب دیا گیا ہے اس کورس کوپچیس سال کی مسلسل عرق ریزی سے تیار کیا گیا ہے۔ وہ کہتے ہیں کہ یہ کورس میرے اس مفروضے ( Hypothesis ہائپوتھیسس) کا دفاع ہے کہ ”پاکستانی معاشرے میں اسٹیٹ ایجنٹ کے بارے میں معاشرے کا خراب تاثر اس وقت تک دور نہیں کیا جا سکتا جب تک اس کام میں رئیل اسٹیٹ ایجنٹ کی مدد سے پاکستان رئیل اسٹیٹ مارکیٹ کے معروضی حالات کے مطابق تحقیق، تعلیم، تربیت کی بنیاد پر منظم انداز میں تیار کردہ نصاب کی بنیاد پر نظری وعملی تعلیم و تربیت کا نظام ترتیب دے کر اس کی بنیاد پر وفاقی، صوبائی و ضلعی حکومتیں اسٹیٹ ایجنسی کھولنے کے لئے کسی رجسٹریشن/لائسنس کا بندوبست نہیں کرتی۔ اس کے لئے پہل اسٹیٹ ایجنٹ کو انفرادی یا اجتماعی طور پر کرنی پڑے گی“۔ کیونکہ اس سے پہلے اس پیشے پر برصغیر اور خصوصاً پاکستان کے معروضی حالات اور منڈی کے مطابق کوئی تعلیمی مواد دستیاب نہیں۔رئیل اسٹیٹ پر ان کی کتب اس مفروضے یا ہائپوتھیسس کے دفاع کی کوشش ہے۔

2015ءمیں انہوں نے مریری ”معراج رئیل اسٹیٹ ایجوکیشن اینڈ ریسرچ انسٹیٹیویٹ“ کی بنیاد رکھی یہ ورچول انسٹیٹیوٹ ہے جس کے الحاق سے ڈیفکلریا میں کئی کورس مکمل کروائے گئے۔ان کا یہ مفروضہ26 فروری 2021ءکو سچ ثابت ہوا جب ”پاکستان انسٹیٹیوٹ آف مینجمنٹ کراچی“اور ”مریری“ نے ایک معاہدے پر دستخط کئے اور ان دونوں اداروں کے الحاق سے ان کے کورس کی بنیاد پر ”ڈپلوما ان رئیل اسٹیٹ مینجمنٹ“ کا اجراءہوا۔اس ڈپلومہ پروگرام کے دو کورس کامیابی سے مکمل ہو چکے ہیں۔ اس کے علاوہ انہوں نے پاکستان کے معروضی حالات کی بنیاد پر دنیا بھر میں پر رنگ، نسل، مذہب،، جغرافیے، زبان، پیشے کی بنیاد پر اقلیت ہونے کی وجہ سے امتیازی ، سماجی رویوں اور امتیازی قوانین کا سامنا کرتے انسانوں کی اپنے معاشروں میں عزت دارانہ بقا کے لئے ایک مفروضے کا بھی دفاع کیا ہے۔ یہ مفروضہ یوں ہے۔

”کسی بھی ملک قوم ومعاشرے میں کوئی ایسی کمیونٹی/اقلیت جو کسی بھی اعتبار سے مثلاً مذہب رنگ ،نسل، مسلک، پیشے، زبان کے لحاظ سے اقلیت میں ہو۔اور اس وجہ سے اس گروہ کو امیتازی سماجی رویوں یا دیگر ایسے تعصبات کا سامنا ہو۔ایسا گروہ اگر ردِعمل میں معاشرے سے بیگانہ ہو کر معاشرے سے کٹ جائے۔تو ایسے انسانی گروہ اپنے آپ پر ایسے معاشروں میں انفرادی واجتماعی ہر طرح کی ترقی کے ہزاروں راستے خود ہی بند کرلیتے ہیں۔جس کا نتیجہ صدمے سے دائمی فرار کی ذہنی کیفیت میں مبتلا ہونے کا نکلتا ہے۔اور اگر فرار کی راہیں بھی دستیاب نہ ہوں تو معاشرتی بیگانگی کا یہ مرض انہیں گہری پستیوں میں لے جاتا ہے۔لہٰذا کسی بھی معاشرے میں اپنی ایسی شناخت جسکی بنیاد پر ان سے تعصب برتا جارہا ہو۔اسے فخر سے قائم ودائم رکھتے ہوئے معاشرے میں انضمام integration سے اپنی عزت دارانہ بقاءکو ممکن بنایا جاسکتا ہے۔“اس مفروضے ( Hypothesis) کے دفاع کے لئے انہوں نے تحریک شناخت کی بنیاد رکھی ۔

یہ فکری تحریک پاکستانی مسیحیوں کی دھرتی سے نسبت آزادی ہند، قیام تعمیر و دفاع پاکستان میں ان کے اجداد اور موجودہ نسلوں کے شاندار کردار کے ذریعے مسیحیوں کی پاکستانی معاشرے میں قابل فخر شناخت کو ا ُجاگر کرنے کی تحریک ہے ۔اس تحریک میں وہ اور ان کے ساتھی خود آگاہی، خود شناسی سے جنم لیتا خود انحصاری کایہ پیغام پھیلا رہے ہیں”پاکستانی مسیحیو! معروضی حالات کو مد نظر رکھتے ہوئے تمہیں اپنے آباءکی سرزمین پر درپیش حالات دستیاب موقعوں ا پنی کمزوریوں اور توانائیوں کے صحیح تخمینے کے ساتھ دھرتی سے اپنی نسبت اور اپنی اس شاندار شناخت کی وراثت کو جان کر اس معاشرے میں فخر اورشان سے جینا ہے گو کہ حالات واقعات اور رویے بعض اوقات امتحان لیتے ہیں ان سے دل برداشتہ ہو کر اپنی اس قابل فخر شناخت کو قربان نہیں کیا جا سکتا“۔

اس تحریک کے اغراض و مقاصد کے حصول کے لئے دیگر اقدامات مثلاً نوجوانوں اور مذہبی، سماجی، سیاسی کارکنوں سے فکری نشستیں منعقد کی جاتی ہیں نیز اس مقصد کے حصول کے لئے انہوں نے 14کتب بھی لکھی ہیں۔معاشرتی بیگانگی کے مرض کی تشخیص کرتی کتاب ”دھرتی جائے کیوں پرائے“ اس سلسلے کی پہلی کتاب ہے۔ اس کو Neglected Christian Children of Indus کے نام سے اسے انگریزی روپ دیا گیا۔ یہ کتاب پاکستانی مسیحیوں کو پاکستانی معاشرے میں درپیش مسائل دستیاب مواقعوں اور کمزوریوں و توانائیوں کا تخمینہ اور مکمل تجزیہ طکمخ کرتی ہے۔ معاشرتی بیگانگی کے ان رویوں میں مثبت تبدیلی کی کوشش کے طور پر 13مزید کتب لکھی ہیں۔ پاکستان کے مسیحی معمار،کئی خط اِک متن ،شان سبزو سفید ،شناخت نامہ ،سبزوسفید ہلالی پرچم کے محافظ وشہدائ، شہدائے وطن،چوبیس چراغ ، افواج پاکستان کے مقامی مسیحی جرنیل،حیدران کے مسیحی ساتھی،اسٹوری آف ٹو لیٹرز ،بل دا لیجنڈ اور مارٹن سموئیل برق ایک عظیم سفارتکار اس کے علاوہ ان کا کتابچہ پاکستان کی مذہبی اقلیتوں کیلئے دوہرا ووٹ کیوں ضروری ہے؟ بھی خصوصی اہمیت کا حامل ہے۔

Advertisements
julia rana solicitors

وہ پچھلے پچیس سال سے اپنے ان دونوں مفروضوں کے دفاع میں جٹے ہوئے ہیں اور مجموعی طور پر اٹھارہ کتب لکھ چکے ہیں۔ وہ ان دونوں مفروضوں کے مسائل اور حل کو تقریباً ایک جیسا ہی قرار دیتے ہیں جس کا مقابلہ و سدباب  اجتماعی،خود آگاہی اور ا پنی اجتماعی کمزوریوں، توانائیوں درپیش مسائل اور دستیاب موقعوں کے اعداد و شمار کی بنیاد پر صحیح تجزیئے طکمخ کے بغیر ممکن نہیں۔ ان کے اس مفروضے/ ہائپو تھیسس کے کامیاب دفاع کی یہ سب سے بڑی دلیل ہے کہ سماجیات و معاشیات کے کئی ماہرین ان کی دونوں کوششوں میں سے پہلی کو دنیا بھر میں کہیں بھی کسی بھی بنیاد پر اقلیت کے لئے ماڈل اور دوسری کوشش کو تیسری دنیا خصوصا برصغیر کے معاشرے میں رئیل اسٹیٹ کے پیشے سے وابستہ افراد کے لئے ایک ماڈل قرار دیتے ہیں۔

Facebook Comments

مکالمہ
مباحثوں، الزامات و دشنام، نفرت اور دوری کے اس ماحول میں ضرورت ہے کہ ہم ایک دوسرے سے بات کریں، ایک دوسرے کی سنیں، سمجھنے کی کوشش کریں، اختلاف کریں مگر احترام سے۔ بس اسی خواہش کا نام ”مکالمہ“ ہے۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply