• صفحہ اول
  • /
  • نگارشات
  • /
  • افسانے کی حقیقی لڑکی (ناول)۔ناول نگار : ابصار فاطمہ/مبصر : راشد جاوید احمد

افسانے کی حقیقی لڑکی (ناول)۔ناول نگار : ابصار فاطمہ/مبصر : راشد جاوید احمد

کچھ دن پہلے خواتین کے ایک افسانوی مجموعے میں شامل افسانوں کے ذریعے مجھے ابصار فاطمہ کے کچھ افسانے پڑھنے کا موقع ملا جو مجھے بہت منفرد لگے۔ پھر گوگل کرتے ہوئے میری نظر ایک انوکھے عنوان پر پڑی ” افسانے کی حقیقی لڑکی ” ۔ معلوم ہوا کہ ناول محترمہ ابصار فاطمہ نے لکھا ہے۔ ناول کا عنوان خاصا الگ تھا سو شائع شدہ کتاب ( سجاد پبلیکشنز، دکان اپنی بڑھا گئے ہیں) کی بجائے پی ڈی ایف کاپی ملی۔ میں کتاب عام طور پر ایک ہی نشست میں پڑھتا ہوں سو مجھے پی ڈی ایف میں پڑھتے ہوئے کافی دقت ہوئی ۔ حتی کہ کوئی 70 صفحات پڑھنے کے بعد مجھے اندازہ ہوا کہ میں ناول کی ایک کردار ” گل بانو” جیسی تکلیف محسوس کر رہا ہوں لیکن ناول کے مندرجات پُر کشش تھے اس لیے مطالعہ جاری رکھا۔

میرا پہلا تاثر تو یہ تھا کہ یہ ناول خواتین اور انکے گھریلو قسم کے مسائل کے بارے میں ایک رن آف دی مِل قسم کی چیز ہے لیکن جوں جوں میں اسکا مطالعہ کرتا گیا تو مجھے احساس ہوا کہ یہ تو سماجی حقیقت نگاری کی ایک عمدہ تحریر ہے۔ ناول نگار نے اس ناول میں کوئی کردار تخلیق نہیں کئے بلکہ بسمہ، گل بانو، فائزہ، اسلم، باسط، رافع اور دیگر سب کردار ہمارے جانے پہچانے اور دائیں بائیں  ہی موجود ہیں۔ ہاں ان کی نفسیات کا مطالعہ کرتے ہوئے ناول بننا بہر حال ایک فن ہے۔ کسی شے کی اصل جڑ اور صداقت کا نام حقیقت ہے۔ خارج میں نظر آنے والی شے کو بھی حقیقت کا نام دیا جاتا ہے۔ اس ناول کے سبھی کردار ہمیں نظر آتے ہیں لیکن ابصار فاطمہ نے انہیں کسی تصوراتی، خیالی، مثالی ،رومانوی یا ماورائی دنیا سے نہیں  گزارا بلکہ اپنی فنکارانہ چابک دستی سے استعمال کیا ہے۔ یہی حقیقت نگاری ہے۔ اس حقیقت نگاری کا آغاز ہمارے ہاں داستان گوئی سے ہوا لیکن میں اس کی تاریخ میں نہیں جاؤں  گا، کہ سب اہل علم و ادب کو اس کے بارے میں شاید مجھ سے زیادہ ہی علم ہوگا۔
دیکھا جائے تو ناول کی کہانی بہت سادہ اور بیانیہ نہایت سلیس ہے لیکن ناول نگار کو چونکہ ہر کرداروں کے وجودکا کامل علم ہے اس لیے انہیں حقیقت اور سچائی کے ساتھ اصل رنگ میں پیش کیا ہے ، کسی بھی قسم کی رومانویت سے آلودہ کیے بغیر۔ مجھے نہیں معلوم کہ ابصار فاطمہ نئی لکھنے والی ہیں یا ان کا شمار سینئرز میں ہوتا ہے لیکن یہ ناول ان کے عمیق مشاہدے، تجزیے اور تفکر کی غمازی کرتا ہے ۔ اس میں معمولی، غیر معمولی، روشن، تاریک، خوبصورت اور بد نما سبھی رنگ موجود ہیں اور نظریاتی سظح پر کہیں کوئی تراش خراش نہیں ملتی۔ ایک حقیقی موضوع سے متعلق زندگی کی سچی تصویرکشی، حقائق کی بے رحم نقاب کشائی ، روزمرہ کے واقعات کسی تخیل کی مدد سے رنگ آمیز نہیں کیے گئے بلکہ اس عہد کی داستان ہیں جس میں ابصار فاطمہ بذات خود موجود ہیں۔ اس عہد کے افکار و خیالات، تعفن زدہ روایت اس ناول میں عکس کیے گئے ہیں۔ اس میں معاشی بدحالی کی حقیقت پسندانہ عکاسی ہمیں بین السظور ملتی ہے۔ معاشی تعلقات ہی اصل میں ہمارے درمیان رشتوں کی ایک اہم کڑی ہوتے ہیں اور اکثر لکھنے والے یا تو انہیں نعرے کی صورت میں لکھ جاتے ہیں یا کنی کترا جاتے ہیں یا ان کا مبلغ شعور ہی نہیں ہوتا۔

بیسویں صدی کے تیسرے عشرے میں افسانہ نگاروں نے سماجی اور معاشرتی مسائل پر حقیقت پسندانہ افسانے لکھے اور حقیقت نگاری کے رحجان کو ایک نئے انداز فکر سے پیش کیا۔ اس عہد میں افسانہ نگار، ناول نگار زندگی کے حقائق کو بے باکی اور جرات مندی کے ساتھ افسانے میں شامل کرنا جزو ایمان سمجھتے تھے۔ میرے خیال میں ” افسانے کی حقیقی لڑکی ” اسی سلسلے کی کڑی ہے اور میں ابصار فاطمہ کے اس ناول کو حقیقت پسندانہ ادب کی شیلف میں رکھے ہوئے پاتا ہوں۔

یہاں میں یہ ضرور کہوں گا کہ ابصار فاطمہ نے جس موضوع کو ناول کے لیے انتخاب کیا، بہت سے پڑھنے والے اسے عورتوں اور انکے گھریلو مسائل والے فارمولے، یا کہانی گھر گھر کی، کی نظر سے دیکھیں گے لیکن نہ تو ان کو اس میں رومانویت کی خیالی دنیا ملے گی، نہ ماورائی حسن کی جستجو، نہ مسرت اور خوشی کی تلاش اور نہ ماضی و حال کی خیالی بہشت۔ یہ تو ایک داستان غم ہے، زمینی حقائق کو مرکز نگاہ رکھتے ہوئے زندگی کے تلخ حقائق اور سلگتے مسائل جو ہمارے معاشرے کے مردوں کو عام طور پر اور خواتین کو خاص طور پر درپیش ہیں۔ اس ناول کے بیک گراؤنڈ میں  آپ کو ہلکے سروں میں ایک غمگین دھن سنائی دیتی ہے، مسلسل، جو کسی دلخراش واقعے پر تیز ہو جاتی ہے اور ممکنہ سد باب کے بعد آہستہ، کبھی احتجاج کی صورت لیے، لیکن موجود رہتی ہے۔

کہتے ہیں کہ ناول اس نثری قصے کو کہتے ہیں جس میں کسی خاص نقطہ نظر کے تحت زندگی کی حقیقی و واقعی عکاسی کی گئی ہو۔ یہاں بھی ایک نقطہ نظر موجود ہے اور وہ ہے اس سماج کی عورت کو خوف اور وراثتی جبرجو ہمیں پیدائش کے وقت گڑھتی کی صورت میں ملتا ہے، کے کمبل کو اتار پھینکنے کی ترغیب جو کہ وقت کی اشد ضرورت ہے۔ اس ناول میں ناول نگار نے ایک اور خوبصورت بات بھی کہی ہے کہ استحصال اور جبر کا شکار صرف عورت ہی نہیں مرد بھی ہیں۔ دراصل استحصال وہ کرتا ہے جوطاقتور ہے خواہ وہ عورت ہو یا مرد۔ کسی بھی معاشرے میں عورت کی معاشی آزادی ہی اسے حقیقی معنوں میں آزادی دلا سکتی ہے۔

Advertisements
julia rana solicitors

میں کوئی مستند نقاد نہیں۔ ادب کا ایک طالب علم ہوں تاہم یہ کہہ سکتا ہوں کہ ناول کے روایتی اجزائے ترکیبی۔ میں جو کردار، پلاٹ وغیرہ کا ذکر کیا جاتا ہے وہ سب اس ناول میں موجود ہیں۔ زندہ موجود کرداروں کی سماجی کشمکش اور طبقاتی انتشار اور الجھی نفسیات کے حوالوں نے اس ناول کا کینویس خاصا وسیع کردیا ہے۔ اس سلسلے میں ابصار فاطمہ بجا طور پر داد کی حقدار ہیں۔

Facebook Comments

مکالمہ
مباحثوں، الزامات و دشنام، نفرت اور دوری کے اس ماحول میں ضرورت ہے کہ ہم ایک دوسرے سے بات کریں، ایک دوسرے کی سنیں، سمجھنے کی کوشش کریں، اختلاف کریں مگر احترام سے۔ بس اسی خواہش کا نام ”مکالمہ“ ہے۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply