اناڑی کھلاڑی۔۔۔ابو محمد یحییٰ

معاشرے کے ایک اہم ناسور کی جانب اشارہ جہاں اکثر امور نااہلوں کے ہاتھ میں ہیں!!!

اشرف ایک راج مستری تھا۔ اس نے عیدالاضحیٰ کے موقع پر ایک بکرا خریدا۔لیکن عید کے دن اسے کوئی قصائی میسر نہ آیا۔ جس سے بھی رابطہ کرتا اس کے پاس پہلے ہی سے بکنگ اتنی زیادہ ہوتی ۔اگر کوئی مان بھی جاتا تو وہ نرخ اتنے زیادہ طلب کرتا کہ یہ منہ لٹکائے وہاں سے واپس آجاتا۔ آخر اس نے ایک دوست کو ملاکر خود ہی کسی نہ کسی طرح  اس بکرے کوذبح کیا ۔اور کسی نہ کسی طرح الٹی سیدھی کھال اتارکراس کی  بوٹی بنالی۔

جب اس نے دیکھا یہ کام تو اس نے خود ہی کرلیا ہے توکیوں نہ قسمت آزمائی جائے اورایک ہی دن میں چالیس پچاس ہزار روپے کمایاجائے۔ اگلے سال کے لئے اس نے باقاعدہ اپنے دوتین مزدوروں سے مل مشاورت کی اورفیصلہ کیا کہ اگلی عید پر ہم بھی جانوروں کو ذبح کریں گے اور دہاڑی کو برابر تقسیم کرلیں گے۔

ذی الحجہ کا جیسے ہی چاند نظر آیا تو انہوں نے لوگوں سے رابطہ کرنا شروع کردیا۔ اور انہوں نے زیادہ کے لالچ میں  پہلے ہی روز کے لئے دس جانوروں کی بکنگ کرلی۔ جن کی مجموعی آمدنی(مزدوری) نوے ہزار تھی۔بات پکی کرنے کے لئے انہوں فی جانور دو،دو ہزار ایڈوانس بھی وصول کرلئے۔جس سے انہوں نے اپنا تمام سامان بھی خرید لیا۔ اور ہر طرح سے لیس  ہوکر وہ عید کے دن کا انتظار کرنے لگے۔عید کے روزنمازعید پڑھ کر وہ اور اس کے تین مزدور ساتھی اپنی زندگی کا پہلا بیل کاٹنے روانہ ہوئے۔ جس کے لئے دس ہزار کا ریٹ(نرخ) طے تھا۔ وہ بیل اچھا خاصا موٹا تازہ تھا۔ ان لوگوں کا پہلے سے کوئی خاص تجربہ بھی نہ تھا۔ انہوں نے ابھی تک صرف ایک بکرا ذبح کیا تھا۔یا دوسروں کو بیل کاٹتے ہوئے دیکھا تھا۔لیکن اب تنومند بیل ان کے سامنے میدان میں موجود تھا۔  اب بیل کو وہ اپنی تما م تر چالوں سے گرانے کی کوشش کرنے لگے۔ لیکن وہ ان کے قابو میں نہ آنے والا تھا۔ اب اشرف مستری نے بہادری کا مظاہرہ کرتے ہوئے اس بیل کے انتہائی قریب جاکر اس کی ٹانگوں کو رسی  سے باندھنے کی کوشش کی اس نے جب اس کے گھٹنے کو پکڑا اور رسی باندھنے ہی والاتھا کہ اس اثنا میں اچانک بیل نے اپنی ٹانگ اٹھا کر اس زور سے اشرف کو دے ماری اور اشرف کی چیخ فضا میں بلند ہوئی۔ اس بیل کا مضبوط کھر اس کے گھٹنے پرلگنے سے اشرف اذیت سے بے ہوش ہوگیا۔

اب تما م لوگ کام چھوڑ کر اشرف کو  قریبی ہسپتال لے کر گئے۔ ہسپتال میں بھی عیدکی تعطیلات کے باعث عملہ تعداد میں کم تھا۔ انہوں نے اسے دوسرے بڑے ہسپتال کی جانب بھیج دیا۔ وہاں جا کر ایکسرے کروانے سے معلوم ہوا  کہ اس کا گھٹنا چکنا چور اوربالکل ناکارہ ہوچکا ہے۔ اب اس کا آپریشن کرنا پڑے گا۔جس پر لاکھوں کا خرچہ ہوگا۔ اور کسی کام کاج کے قابل ہونے کے لئے اشرف کو کم از کم چھ ماہ انتظار کرنا پڑے گا۔ پھر بھی یہ حتمی نہیں کہ یہ راج مستری کے کام کے قابل ہوگا یا نہیں بلکہ اس کے امکانات بہت کم ہیں۔جس کا کام اسی کو ساجھے کوئی اورکرے تو ہنڈیا باجے۔

یہ تو ایک ہلکی سی مثال ہے ہمارے ملک میں  کتنے اناڑی  کھلاڑی (قصائی) ہیں جو اپنی جانوں کو خطرے میں ڈال کر قربانی کے جانوروں کے گوشت کو الٹا سیدھا کاٹتے ہیں  ، اس کی کھال میں کئی جگہوں سے سوراخ (ٹک لگا)کرکے اسے ناکارہ کردیتے ہیں۔ ہڈیوں کو اس انداز سے توڑتے ہیں کہ وہ چورا چوراہوجاتی ہیں اور کھانے پکانے میں دشواری کا باعث ہوتی ہیں۔

لیکن!افسوس  یہ صرف اسی شعبہ کاالمیہ نہیں۔صرف اس کا ہوتا تو خیر تھی۔ ہمارے ملک کا  تو آوے کا آوا ہی بگڑا ہواہے۔یہاں المیہ یہی ہے کہ اکثر اہم عہدوں ،وزارتوں پر  یہی اناڑی کھلاڑی براجمان ہیں جو اس کام کے قطعاً اہل نہیں۔وزیر تعلیم وہ ہوگا جو خود زیر تعلیم ہو۔ اس سے بعض اوقات توان نااہلوں  کا بھی  نقصان ہوتا ہے لیکن درحقیقت ملک کویہ ایسا ناقابل تلافی نقصان پہنچاتے ہیں جس کے تدارک کی کوئی صورت نہ ہو۔ بقول اکبر الہ آبادی

برباد گلستاں کرنے کو بس ایک ہی الو کافی تھا

ہر شاخ پر الوبیٹھا ہے انجام گلستان کیا ہوگا

اس معاشرتی رویئے پر موزوں ایک حکایت پڑھی تھی کہ ایک بے اولاد بادشاہ بستر مرگ پر اپنی موت کے وقت وصیت کرتا ہے کہ میرے مرنے کے بعد کل شہر کے دروازے سے جو پہلا شخص اندر داخل ہوگا اسے تم لوگ اپنابادشاہ بنالینا۔سوء اتفاق ایک فقیر (گداگر)صبح شہر میں داخل ہوتاہے۔ لوگ اپنے مرحوم بادشاہ کی وصیت کے مطابق اس کی تاجپوشی کردیتے ہیں۔ وہ شخص اس اچانک ملنے والی بادشاہت پربہت حیران لیکن خوش ہوتا۔ وہ آتے ہی پورے ملک میں حلوے پکانے اوربانٹنے کا حکم دیتاہے۔ ہر روزوہ کوئی نیا الٹا سیدھا حکم دیتاہے ۔ ملک کے سارے کام ٹھپ پڑجاتے ہیں۔عوام میں بددلی اور فوج میں بیزاری کا عنصر پیداہوتاہے۔ قریبی ملک کے بادشاہ کو اس کی الٹی سیدھی حرکات سکنات کا علم ہوتاہے تو وہ اس کے ملک پر حملہ کردیتاہے۔ اس کی فوج بھی اس کے بے تکے فیصلوں سے تنگ اوربیزار ہوچکی ہوتی ہے۔ لہذابے دلی سے لڑنے کے بعد بری طرح شکست کھاجاتی ہے۔ جنگ میں شکست کے نتیجے میں اس کا ملک بھی دوسرے  بادشاہ کے ہاتھ میں چلاجاتا ہے اوراسے بھی پابندسلاسل دوسرے بادشاہ کے سامنے پیش ہونا پڑتا ہے جہاں وہ اس کو تہ تیغ کرکے اسے انجام تک پہنچادیتا ہے ۔اناڑی کھلاڑی کا یہی حال ہوتاہے۔ نعرے بہت زوردارہوتے ہیں۔ لیکن کم علمی،کم فہمی اورناقص حکمت عملی کے باعث انسان خود بھی نقصان اٹھاتاہے اور دوسروں کے نقصان کا باعث بنتاہے۔

حضور اکرم ﷺ کی ایک حدیث مبارکہ ہے ۔جس آپ علیہ الصلوٰۃ والسلام سے جب قیامت کے  واقع ہونے کے بارے میں سوال کیا گیا ہے  تو آپ ﷺ نے فرمایا:

«فَإِذَا ضُيِّعَتِ الأَمَانَةُ فَانْتَظِرِ السَّاعَةَ» ، قَالَ: كَيْفَ إِضَاعَتُهَا؟ قَالَ: «إِذَا وُسِّدَ الأَمْرُ إِلَى غَيْرِ أَهْلِهِ فَانْتَظِرِ السَّاعَةَ»

جب  امانتیں ضائع کی جانے لگیں تو قیامت کا انتظار کرنا،کہا ،امانتیں کیسے ضائع ہونگیں ؟آپ ﷺ نے فرمایا جب معاملات نااہلوں کے سپرد ہوجائیں تو قیامت کا انتظار کرنا۔

Advertisements
julia rana solicitors

یعنی یہ بھی قرب قیامت کی ایک نشانی ہے  کہ نااہل  افراد کے ہاتھوں میں امورسلطنت چلیں جائیں گے(ناہلی کا کم از کم درجہ یہ ہے کہ وہ شخص جس عہدے پر براجمان ہے  وہ اس کا اہل نہ ہوگا اگرچہ کسی اورشعبہ میں کتنی ہی مہارت رکھتاہو)۔ جس سے ملک اور قوم تباہی کے دہانے پر پہنچ جائیں گے۔اللہ رب العزت سے دعا ہے کہ ہمیں ہر شعبہ میں اہل افراد سے نوازے ۔آمین

 

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply