پاکستانی افسروں کی پھُرتیاں اور بینک۔۔۔عامر کاکازئی

ایک جاننے والے نے جنرل ضیاء کے زمانے کا ایک قصہ سنایا کہ ایک دفعہ جنرل ضیا نے ایک یونٹ کا معائنہ کرنے کے لیے ایک سرکاری خط اس یونٹ کے ہیڈ کو بھیجا ،وقت مقرر ہوا دن بارہ بجے۔ہیڈ نےاپنے نیچے والے کو گیارہ کہا، اس سے نیچے والے نے دس کہا، اس طرح بات جب نیچے صوبیدار تک پہنچی تو معائنے والے دن سب صبح پانچ بجے اٹینشین کھڑے جنرل ضیا کا انتظار کر رہے تھے۔

اسی قسم کا رویہ ہمارے افسر چاہیے سول ہوں یا فوجی، چاہیے سرکاری ہوں یا نجی، رکھنے کی کوشش کرتے ہیں۔ اس کو over efficient یا  پُھرتیاں کہتے ہیں۔ جہاں افسروں کا نکمہ پن اور سُستی کام کو خراب کرتی ہے، وہاں افسروں کی over efficiency یا پھُرتیاں بھی عام عوام کو مصیبت میں ڈالتی ہیں ۔

کچھ اسی قسم کا کام اس بار بینک اکاونٹ کی thumb verification کے وقت ہوا۔۔ سٹیٹ بینک نے تمام بینک سے صرف اتنا کہا کہ جو اکاونٹ thumb verification کے بغیر کُھلے ہیں، ان کو thumb verification کے  ذریعے verify کر لیا جائے۔ یہ صرف اور صرف پانچ منٹ کی گیم تھی، مگر کیا ہوا کہ تمام بنکوں نے ایمرجنسی ڈیکلئر کر دی، اپنے کسٹمر جن کے دو دن پہلے بھی   thumb verification کے  ذریعے اکاونٹ کُھلے  تھا ،ان پر بھی ایمرجنسی ڈال دی، ان سے قسم قسم کے فارمز شناختی کارڈ کی کاپی، اور انکم کے سورس بھی مانگنے لگے۔ جبکہ سٹیٹ بینک سے کسی بھی قسم کی اور معلومات نہیں مانگی گئیں ۔ مگر ان کی over efficiency یا پھُرتیوں نے تمام ملک میں ایک افراتفری پیدا کر دی۔ لوگ اپنے اکاونٹ ختم کرنے لگے۔ کچھ نے اپنا تمام پیسہ نکال لیا۔ گھبراہٹ کی وجہ کیا بنی افسروں کی بس تھوڑی سی ضرورت سے زیادہ کارکردگی۔ جس کی کوئی  ضرورت نہیں تھی۔ یہ ہی حال  آج کل ہر محکمے  کے افسروں کا   ہے۔

تمام بیوروکرسی، سول ہو یا ملٹری ،سرکاری ہو یا نجی ان سے درخوست ہے کہ خدا کے واسطے اس ملک اور اس کے عوام پر رحم فرمائیں اور سسٹم کو  آسان بنائیں، اسے user friendly بنائیں کہ لوگ آسانی سے وہ کام کر سکیں۔

اسی کو بنیاد بنا کر یہ بھی کہنا چاہیے  کہ لوگ اسی وجہ سے انکم ٹیکس نیٹ ورک میں نہیں  آتے۔ وہ  آسانی سے بجلی   یا گیس کا بل بھر دیتے ہیں، چاہیے کتنا بھی زیادہ کیوں نہ  ہو، مگر انکم ٹیکس نیٹ ورکس میں نہیں  آتے۔ کیونکہ اس نیٹ ورکس میں آنے کا مطلب ہے کہ  آپ کچھ افسروں کے چنگل میں پھنس گئے ، اور اب ساری زندگی بلیک میل ہوں گے۔

اس لیے سسٹم کو آسان بنائیں اور افسروں کے عمل دخل کو زیرو کر دیں۔ عوام پر اعتماد کریں، پاکستانی قوم پیار کی ہے، پیار کی زبان سمجھتی ہے، مگر اس قوم کو دھمکی نہ دیں۔ دھمکی تو پاکستانی قوم نے کبھی ضیا جیسے ظالم مارشل لا ڈکٹیٹر کی نہیں مانی۔اپنے افسروں کےاس رویہ look busy do nothing کو کنٹرول کریں۔ ان کوضرورت سے زیادہ فعال نہ ہونے دیں۔

Advertisements
julia rana solicitors

Moral of the writing. Make system easy and user friendly.

Facebook Comments

عامر کاکازئی
پشاور پختونخواہ سے تعلق ۔ پڑھنے کا جنون کی حد تک شوق اور تحقیق کی بنیاد پر متنازعہ موضوعات پر تحاریر لکھنی پسند ہیں۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply