یا خدا/محمد سعید اختر

حکومت بدلی تو اسے بھی کئی دوسرے ملازمین کی طرح نوکری سے نکال دیا گیا۔ دو چار مہینے تو سرکاری دفاتر میں دھکے اور احتجاج میں ہی گزر گئے، ہوش تب اُڑے جب محلے کے دکاندار، اور بچوں کے سکول کی طرف سے پیغامات ملے کہ اب سے اُدھار کھاتے بند ہیں۔

تنخواہ تو پہلے بھی بہت زیادہ نہیں تھی، لیکن حالات زیادہ بُرے نہیں تھے۔ بیروزگاری کے چند مہینے ہی، اس کی سوچ اور ہمت سے بڑھ کراعصاب شکن ثابت ہوئے۔ اس نے دنیا کی تمام تر ضرورتوں کو کسی اچھے وقت کے لیے اٹھا رکھا اور صرف روٹی پر توجہ دینا شروع کی، لیکن تین وقت کی روٹی کوئی آسان مہم ثابت نہ ہوئی۔ وہ بھی، جب مکان کرائے کا ہو۔ کچھ ضرورتیں تو ایک دفعہ پوری ہو جائیں تو پھرانہیں کچھ عرصہ نظر انداز کیا جا سکتا ہے، لیکن بھوک بڑی ظالم ہے۔ انسان کی غربت و مفلسی کا ذرا لحاظ نہیں کرتی، دن میں  تین بار تقاضا تو لازم ٹھہرا۔

رمضان شروع ہوا تو پریشانیاں اور بڑھ گئیں۔ اب اس کا تمام وقت انہی سوچوں میں گزرتا کہ سحری کیسے، اور افطاری کہاں کی جائے۔ وہ افطاری کی وقت سائیکل لے کر کہیں دور دراز، کسی مسجد میں چلا جاتا، کبھی کبھارپیٹ بھرکھانے کو ملتا، جس سے اس کے حواس ذرا بحال ہوتے، اس طرح وہ کسی جاننے والے کی نظر میں بھی نہ آتا اور بیوی بچوں کی اداس اور کربناک نظروں سے بھی بچ جاتا۔ کئی ماہ سے جن ضروریات کو وہ نظر انداز کرتا آیا تھا، وہ اب خوفناک دیو بن کراسے ڈکارنے کو تیار بیٹھی تھیں۔ عید پر نئے کپڑے، رسماً  ہی نہیں، اب ضرورتاً  بھی سلوانے ہی ہوں گے، اس نے بیوی بچوں کے بوسیدہ کپڑوں کی طرف دیکھتے ہوئے سوچا۔

وہ ایک بہادر آدمی تھا، لیکن مفلسی نے اس کے اعصاب کو چٹخا دیا تھا۔ بچے کبھی کبھار اس سے کسی کھلونے کی فرمائش کرتے تو وہ ٹال دیتا۔ مشکلات حد سے بڑھنے پر اور بچوں سے روز روز کے وعدوں سے دلبرداشتہ ہو کر، اس کے دماغ میں ایک آخری حل لہرا جاتا۔ جس سے وہ اس دنیا کی تمام مشکلوں سے آزاد ہو جاتا۔

ایسی ہی ایک شام اس نے اپنے آپ سے عہد کیا کہ اس عید پر، کم سے کم بچوں کو کپڑے ضرور بنوا کر دے گا۔ ایک نئے جذبے سے اس نے کمر باندھی اور اب وہ کوئی بھی کام کرنے پر تیارتھا۔ اب وہ اکثر سوچتا تھا کہ کاش کوئی ایسا کام مل جائے جس میں پیسے کچھ زیادہ ہوں، چاہے اس کی جان کو خطرہ ہی کیوں نہ لاحق ہو۔ اسے، ایسے کام کے دو فائدے نظر آ رہے تھے، ایک تو اگر پیسے زیادہ ہوں گے تو اس کی مشکلات بھی جلد کم ہو جائیں گی، دوسرا، اگروہ مَر بھی گیا تو، مرنے کے بعد لوگ اسے بزدل نہ کہہ  سکیں گے کہ زندگی کی مشکلات کا مقابلہ نہ کر سکا۔ دونوں باتیں اسے اپنے فائدے میں ہی نظر آ رہی تھیں۔

آخر کار، اسے ایک ٹھیکیدار کے ساتھ، یومیہ مزدوری کے لیے بھی راضی ہونا پڑا۔ تیسری  منزل پر اینٹیں اور سامان پہنچاتے ہوئے اس پر کُھلا کہ   مرنا بھی کوئی اتنا آسان ہر گز نہ ہوگا۔ روزے سے ہونے کے باوجود، وہ جان توڑ محنت کرتا رہا۔ شدید گرمی اور سورج بھی، اسے کوئی نقصان نہ پہنچا سکے۔ لیکن دوسرے دن، اس کے ہاتھوں میں چھالے ضرور پڑ گئے تھے۔ حفاظتی جوتے نہ پہننے کی وجہ سے پاؤں بھی زخمی ہو گئے تھے۔ شدید درد اور جلن سے وہ تھوڑا نڈھال ہوا تو ٹھیکیدار نے اسے گویا جھنجھوڑنا لازمی سمجھا۔ اسے ٹھیکیدار سے اس سلوک کی توقع نہیں تھی۔ وہ خون کے گھونٹ پی کر رہ گیا۔ انسان اس قدر بد قسمت کیسے ہو سکتا ہے، آخر زندگی آسان کیوں نہیں ہو جاتی؟ وہ بیوی بچوں کے بارے میں سوچتا رہا اورکام کچھ اور تیزی سے کرنے لگا۔ تاکہ ٹھیکیدارکو شکایت کا موقع نہ مل سکے۔

تیسرے دن پاؤں کے زحموں کی وجہ سے، اسے چلنا دوبھر ہو گیا۔ لیکن وہ ٹھیکیدار کو کوئی موقع نہیں دینا چاہتا تھا۔ دوپہر تک لیکن ٹھیکیدار کو اس کی حالت معلوم ہو گئی۔ اسے کوئی بیمار مزدور نہیں چاہیے تھا۔ ٹھیکیدار نے اسے آدھی دیہاڑی دے کررخصت کر دیا کہ جا کر دوا دارو کرو، تندرست ہوتے ہی آ جانا تا کہ کام کا حرج نہ ہو۔ وہ اندر ہی اندر چیخ اٹھتا، چیخیں جو کوئی نہ سن سکا تھا۔

وہ خلا میں بھٹکنے والے، بے جان اجسام کی طرح بے سمت، شہر سے دورکسی آبادی میں نکل آیا۔ ایسے ہی گھومتے ہوئے اسے ایک مسجد نظر آئی۔

دراصل، وہ اس وقت گھر نہیں جانا چاہتا تھا۔ گزشتہ کل اور پرسوں، اس کی بیوی اور بچے، اسے شام کے وقت، گھرآتا دیکھ کر بہت خوش ہوئے تھے۔ دوپہر میں گھر جانا انہیں پریشان کردیتا۔ وہ مسجد چلا گیا۔ لُو اور گرمی کی شدت سے لوگ گھروں میں محصور تھے۔ مسجد تو کیا، بازار بھی ویران پڑے تھے۔ مسجد میں کسی کو نہ پا کر اسے کچھ اطمینان ہوا۔ اس نے سائیکل، مسجد کے احاطے کے اندر کھڑی کی  اور وضو کرنے لگا۔ وہ کوئی صوم و صلوۃ کا پابند مسلمان، کبھی بھی نہیں تھا، لیکن اسے وضو و نماز کے فرائض بہت اچھی طرح معلوم تھے۔ جیسے ہی ہاتھوں پر پانی پڑا، جلن اور درد ایک دفعہ پھر جاگ اُٹھے۔

ہاتھوں کے چھالوں کی جلن، اس کی آنکھوں کوجلا رہی تھی۔ وہ خود کو بہت بدقسمت اور نا اہل تصور کر رہا تھا، جو بچوں کی چھوٹی چھوٹی خوشیاں تو کیا، تین وقت کی روٹی بھی مہیا نہیں کر پا رہا تھا۔ مسجد کے کونے میں بیٹھ کر اس نے ہاتھوں میں اپنا چہرہ چھپایا اور رزاق کو یاد کرنے لگا۔ اس کی آنکھوں کے سامنے، وہ دن گھومنے لگے، جب اسے سرکاری ملازمت ملی تھی، چاہے وہ عارضی ہی تھی لیکن اس نے مٹھائیاں بانٹی تھیں۔ ایسے تمام ملازمین بعد میں مستقل ہو ہی جاتے تھے۔ آہستہ آہستہ  اس کی زندگی میں بھی خوشحالی آنے لگی تھی۔ سائیکل سے ترقی کرتے ہوئے موٹر سائیکل خرید لی تھی۔ سفر اگر مشکلات سے آسانی کی طرف ہو تو انسان بہت فخر اور خوشی محسوس کرتا ہے، یہی سفر اگر واپسی کا ہو تو ذلت اورکانٹوں سے بھر پور ہوتا ہے۔ اسے اپنی تو خیر کوئی پرواہ نہیں تھی، لیکن اس کی بیوی، یکا یک عمر رسیدہ اور چڑچڑی ہو گئی تھی، دونوں بچوں کی تعلیم سے لیکر صحت تک  سب کچھ برباد ہو رہا تھا۔ بیوی دن رات ٹیوشنیں  پڑھاتے اور کپڑے سیتے سیتے  دوہری ہو رہی تھی۔ وہ خود بھی، ہر جگہ سے مایوس ہو کر، مزدوری کرنے نکل کھڑا ہوا تھا۔ لیکن شائد، وہ مزدوری جیسے سخت کام کا عادی نہ تھا۔ زندگی بھر کے دکھ، اسے اس وقت یاد آنے لگے۔ اس کی آواز اونچی ہوتی گئی، پاؤں کے زخموں کا درد، شکوے شکائت بن کر ظاہر ہوا۔ وہ عرصے سے رونا اور چیخنا چاہتا تھا، لیکن، بیوی بچوں کے سامنے خود کو مضبوط ظاہر کرتا تھا، کہ کہیں وہ بھی ان حالات کے سامنے ہتھیار نہ ڈال دیں۔ آنسوؤں کی جھڑی لگ گئی۔ آنکھیں بند کیے، وہ دعاؤں اور مناجاتوں سے ہوتا ہوا، خدا سے شکوے شکائتیں کرنے لگا۔ وہ خواہشوں اور حسرتوں کوبھول کر، خدا سے صرف اپنی اور اپنے بچوں کی بھوک کی شکائت کرنے لگا۔ وہ ہوش و حواس اور اپنے ارد گرد سے بالکل بیگانہ ہو گیا۔ نہ جانے کب اور کیسے، دعائیہ اور التجائیہ بول جو، قبول فرما، رحم فرما، عطا کر، فلاں کے صدقے، سے ہوتے ہوئے، آخرکب، کیوں اور کیسے میں تبدیل ہو گئے تھے۔

نہیں معلوم وہ اس عالم جنون میں کب تک اورکیا کیا کُفر بکتا رہا۔ یہ طوفان تب تھما جب اسے احساس ہوا کہ اس کے آس پاس کوئی اور بھی موجود ہے۔ اس نے آنکھیں کھولیں  تواسے اپنے بالکل پیچھے کوئی کھڑا دکھائی دیا۔ وہ یقیناً  اس مسجد کا متولی تھا، اُس کی پیشانی پر محراب نمایاں تھی، وہ شائد ملحقہ حجرے سے اس کی آہ و زاری سن کر چلا آیا تھا۔ وہ نہائت پریشان ہو گیا۔ اس کی آنکھوں کے سامنے اچانک ایک اور منظر آ گیا۔ متولی نے اس پر، خدا کے حضور گستاخیوں اور کفر بکنے پر، گستاخی کا فتویٰ  لگا دیا تھا۔ اور اب مسجد کے باہر لوگ ہاتھوں میں، اینٹیں، پتھر، ڈنڈے اور لوہے کے راڈ لیے خوفناک آوازوں اور نعروں میں، اس کے منتظر تھے۔ اس کے کانوں میں “سر تن سے جدا” کی آوازیں گونجنے لگیں۔ دماغ میں آندھیاں سی چلنے لگیں۔ اپنے معصوم بچوں کے بھوک سے مرجھائے اور غمزدہ چہرے اس کی آنکھوں کے سامنے آگئے۔ موت کو وہ کثرت سے یاد کرتا تھا لیکن اس ہولناک موت کا تصورکرکے اسے جھرجھری سی آ گئی، جس میں پاؤں کے ناخن سے لیکر سَر کے بالوں تک، کوئی ہڈی بھی سلامت نہ رہے۔ اس سے پہلے کہ وہ متولی کو اپنے شکوہ و شکایات اور گستاخیوں پر کچھ صفائی پیش کرتا، متولی نے سختی سے اس سے پوچھا، کہ وہ کون ہے؟ اسے اس مسجد میں پہلے کبھی نہیں دیکھا۔ رُک رُک کر اور ڈرتے ڈرتے اس کے منہ سے بس اتنا ہی نکلا کہ میرے گھر میں روٹی کے لالے ہیں اور ہاتھوں پر چھالے، میں تو کبھی کبھار ہی کسی مسجد جاتا ہوں۔ بس آج دعا کرتے کرتے، نہ جانے میرے منہ سے کیا شکوے شکائتیں نکل آئیں۔ سنا ہے دعا سے تقدیر بدل جاتی ہے، میں تو بس خدا کے گھر، اپنے بیوی بچوں کے لیے روٹی مانگنے آیا تھا۔

Advertisements
julia rana solicitors london

متولی کے سامنے اس کے بچوں کے بھوکے چہرے گھوم گئے، وہ بھی گھر جانے سے گریزاں تھا۔ کچھ سوچ کر، وہ بھی اس کے ساتھ بیٹھ گیا۔ ایسی وارفتگی و بے ساختہ پکار، اس نے کبھی کی اور نہ سنی تھی۔ تم دعا دوبارہ شروع کرو، متولی نے ڈبڈبائے ہوئے لہجے میں اسے کہا۔ دونوں نے آنکھیں بند کیں، سرجھکے، ہاتھ اوپراُٹھے، آنسو چھلکنے لگے، اور وہ دونوں خدا کی بارگاہ میں مل کر گڑگڑانے لگے۔

Facebook Comments

مکالمہ
مباحثوں، الزامات و دشنام، نفرت اور دوری کے اس ماحول میں ضرورت ہے کہ ہم ایک دوسرے سے بات کریں، ایک دوسرے کی سنیں، سمجھنے کی کوشش کریں، اختلاف کریں مگر احترام سے۔ بس اسی خواہش کا نام ”مکالمہ“ ہے۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply