میرٹھ چھاؤنی ،کیمپ نمبر 28 میں گزارے 22 ماہ(2)–گوہر تاج

(دسمبر ۱۹۷۱ء کی جنگ کے بعد کیمپ میں محصورایک کم عمر شہری جنگی قیدی (ڈاکٹر انور شکیل)کی ببتا)

مارچ ۱۹۷۱ء، موسم گل میں شعلوں کی تپش

ہمارے ملک کے لیے مارچ کا مہینہ درختوں اور پھولوں پہ بہار کا موسم نہیں بلکہ نفرت اور خلیج کے خار چبھونے آیا تھا۔ جس کی  چبھن  آدھ صدی بعد بھی محسوس ہوتی ہے۔

بہار آئی  تو کھل گئے ہیں
نئے سِرے سے حساب سارے
(فیض)

ڈھاکہ کرکٹ گراؤنڈ میں پہلی مارچ ۱۹۷۱ء کو پاکستان اور ورلڈ الیون کا کرکٹ میچ   شروع ہوا تھا۔لیکن اسی دن دوبجے دوپہر اعلان ہوا کہ جرنل یحییٰ  نے ڈھاکہ میں ہونے والا اسمبلی کا اجلاس غیر معینہ مدت کے لیے ملتوی کردیا ہے۔اس اعلان کے بعد دیکھتے ہی دیکھتے شہر میں بے چینی کی لہر دوڑ گئی۔ ڈھاکہ کرکٹ گراؤنڈ میں لگا شامیانہ جلا دیا اور کرسیوں کو آگ لگا دی گئی۔ صرف پاکستانی کھلاڑی رہ گئے غیر ملکی کھلاڑی واپس روانہ ہوگئے تھے۔ عوامی لیگ کے حامی بنگالی بولنے والی اکثریت نے اس التواء  پہ ہنگامہ شروع کردیا۔

ہمارا گھر صدر گھاٹ میں تھا۔ اردو بولنے والوں کی دکانوں   کی توڑ پھوڑ اور لوٹ مار مچنے لگی۔شام ہوتے ہی بلیک آؤٹ اور کرفیو کے نفاذ کا اعلان ہوگیا۔ لیکن لوگ اسکی خلاف ورزی کر رہے تھے۔اس عمر میں مجھے الیکشن کے نتائج اور سیاست کی سمجھ سے زیادہ کرکٹ سے دلچسپی تھی جس کی کمنٹری سننے کا چسکہ  ہر چھوٹے بڑے کو تھا۔اپنی کم عمری کی وجہ سے مجھے اس کا اندازہ نہیں تھا اس دلچسپ کھیل سے بڑا اور خطرناک گیم سیاست کی بساط پہ کھیلا جارہاہے۔ جس میں بھڑکتی آگ کے شعلے ملک کو اپنی لپیٹ میں لینے ہی کو ہیں۔

ظاہر ہے کہ آج میں واضح طور پر  ملک کو اس وقت کی سیاسی صورتحال کے پس منظر میں  دیکھتا ہوں کہ جب ملک میں دسمبر۱۹۷۰ء میں جرنل یحییٰ  خان کے مارشل لاء کی سرکردگی میں ملک میں الیکشن انجام پاۓ۔
اس الیکشن میں دونوں صوبوں سے جو دو سیاسی پارٹیاں اُبھر کے سامنے آئیں وہ مشرقی پاکستان سے عوامی لیگ جس کی سربراہی شیخ مجیب الرحمن کر رہے تھے جبکہ مغربی پاکستان میں ذوالفقار علی بھٹو کی پاکستان پیپلز پارٹی نے اور سیاسی جماعتوں کے مقابلے میں اکثریت حاصل کی۔

بھٹو کا تعلق سندھ سے تھا ۔ آکسفورڈ یونیورسٹی سے تعلیم یافتہ کرشماتی شخصیت کا مالک جس نے بااثر زمیندار   خاندان میں آنکھ کھولی اور اپنی سیاسی جماعت کی فتح مندی کے لیے روٹی، کپڑا، اور مکان کا دلکش و دلفریب نعرہ لگایا اور ۴ جنوری ۱۹۷۰ء سے اپنی 42ویں  سالگرہ کے بعد ہی انتخابی مہم کا بھرپور طریقے سے نشتر پارک کے تاریخ ساز جلسے سے آغاز کیا۔جبکہ عوامی لیگ کے مجیب الرحمٰن نے اپنی جذباتی تقاریر میں مشرقی پاکستان میں ہونے والی زیادتیوں کو بنیاد بنا کے عوام کے دل مٹھی میں لیے۔اور سچ تو یہ ہے کہ اس میں کافی حد  تک تو حقیقت بھی تھی۔

قومی اسمبلی کے لیے نامزدگی اکتوبر کی 14 اور صوبائی  اسمبلی کے لیے اس سے اگلے دن کی تاریخ تھی۔

کہا جاتا ہے کہ یہ پاکستان کی تاریخ کے شفاف ترین الیکشن تھے۔ جس میں بھٹو کی پی پی پی کو کُل ۱۳۸ میں سے   ۸۱ سیٹیں  ملیں۔ لیکن اسکے مقابلے میں شیخ مجیب کی عوامی لیگ نے ۱۶۲ میں سے ۱۶۰ سیٹیں لیں۔ اس حساب سے حکومت کا اختیار اکثریتی پارٹی کو تھا، مگر اقتدار کی منتقلی کے لیے ہونے والی میٹنگ میں التواء  ہوتا   جا رہا تھا۔یہ اسی سلسلے کی میٹنگ کے کینسل ہونے کا اعلان تھا جو دو پہر دو بجے ہوا۔

اعلیٰ  قیادت کی  جانب سے باربار التواء  بنگالیوں کے لیے شدید فرسٹریشن کا سبب تھا ۔ اور ادھر بھٹو کا مشہور جملہ “اِدھر تم اُدھر ہم” بُھس میں چنگاری کا کام کر چکا تھا۔

ہم لسانی اور مذہبی اعتبار سے ایک مخلوط محلے میں رہتے تھے ۔ جہاں بنگالی اور بہاری اور مسلمان ، ہندو ملت و ملاپ سے رہتے تھے۔ لیکن ہمارے گھر پہ اس رات یعنی ۲مارچ کو ایک بجے بنگالیوں نے حملہ کردیا۔ ہمارے گھر کی دیوار سے ملا گھر ایک بنگالی بی ڈی ممبر صمد صاحب کا تھا۔ انہوں نے حملہ آور بنگالیوں سے کہا یہ گھر خالی ہے۔ ہمارے بڑے گیارہ خوابگاہوں کے گھر میں  18،19  لوگ مل کے رہتے تھے ۔ اسی  اثناء میں ہمارے مہربان بی ڈی ممبر پڑوسی نے ہم لوگوں سے کہا کہ چھت سے کود کے ہمارے گھر آجاؤ۔چھوٹے بچے اور عورتیں چھت سے انکے گھر چلی گئیں۔ ہنگامہ کرنے والوں نے گھر پہ آگ لگانے کے لیے مٹی کا تیل چھڑک دیا ۔ تاہم اسوقت تک شہر میں آرمی آچکی تھی اور اس نے بلیک آؤٹ کردیا۔اس دن ہنگامہ روکنے کے لیے فوج نے دو شہری مار دیے تھے۔

اگلے دن صبح ہوئی  ،دن چڑھا تو ابّا جس کمپنی میں کام کرتے تھے انکے مالک مشرف صاحب نے ابّا سے رابطہ کیا۔ جن کی ڈھاکہ شہر میں ایک بااثر اور مہربان اور غریبوں کے ہمدرد شخصیت کی حیثیت سے شہرت تھی۔ وہ بنگالی تھے۔ انہوں نے ابّا سے کہا کہ آپ ہمارے گھر آجائیں۔انکے گھر کا راستہ سات کلو میٹر تھا۔ جہاں ہمیں پیدل جانا تھا۔انہوں نے ہماری حفاظت کے لیے آدمی بھیجے  جنہوں نے ہمیں اپنے محاصرے میں کر لیا۔ لوگ باوجودکرفیو کے نفاذ کے سڑکوں پہ لڑنے کے لیے تیار بیٹھے تھے۔ شہر میں احتجاجاً اسٹرائیک اور دکانیں بند تھیں۔ مشرف صاحب نے ابّا کو ہدایت کی تھی کہ آپ سب ننگے پیر آئیں ۔ مرد لنگی پہن کر اور عورتیں کالا برقعہ اوڑھ کے نکلیں۔ اور یہ بھی کہ کوئی  سامان لینے کی ضرورت نہیں ۔ پھر بھی ہم لوگوں نے کپڑے کے ایک تھیلے میں پہننے کاایک ایک جوڑا رکھ لیا تھا۔

راستے  میں بنگالیوں نے پوچھا کہ ہم لوگ کون ہیں۔ انہیں بتایا گیا کہ یہ بنگالی ہیں ۔ اور مشرف صاحب کے لوگ ہیں۔ ایک بنگالی نے میری گوری رنگت دیکھ کر کر بے یقینی سے کہا تھا۔ یہ بنگالی ہے؟ کیونکہ بنگالی عموماً گہری رنگت کے ہوتے ہیں۔کچھ لوگوں نے ہمیں   دیکھ کے نعرے بھی لگاۓ۔ اس وقت ہم سب کے دلوں میں ڈر و خوف نے گھر کیا ہوا تھا۔لیکن ہماری حفاظت کرنے والے خود بنگالی تھے جنہوں نے با حفاظت مشرف صاحب کے گھر پہنچا دیا تھا۔مشرف صاحب کے گھر پہنچ کے اگلے دن باوجود کرفیو کے وہ اپنا اثر و رسوخ استعمال کرتے ہوۓ، اپنی گاڑی میں مجھے اور بڑے بھائی  کو ساتھ لے گئے ۔ ہمارے پاس مختصر سے سامان کی لسٹ تھی۔ ان چیزوں کو ساتھ لیا اور اس گھر پہ آخری نظر ڈالی کہ جس میں اب واپسی بے یقینی تھی۔

مشرف صاحب کے گھر رہتے ہوۓ ابّی نے کہا کہ اب یہاں کتنے دن رہیں گے۔ لہٰذا یہ قصد کیا کہ خاندان کو میر پور لے جایا جاۓ جو اردو بولنے والوں کی بستی تھی ۔ وہاں ہمارے بہت سے رشتے دار رہتے تھے، جہاں ہم اپنے  آپ کو محفوظ محسوس کر سکتے تھے۔لیکن وہاں جانا مشکل تھا۔ کیونکہ بنگالیوں نے جگہ جگہ چیک پوسٹ لگاۓ ہوۓ تھے۔ہمارے والد جنہیں ہم ابّی کہتے تھے ، خوف و صدمے سے بالکل گم صم سے ہوگئے تھے۔ہم لوگوں نے میزبان سے کہا کہ ۷ مارچ کوڈھاکہ میں شام چار بجے شیخ مجیب کا جلسہ ہے۔ہر طرف سناٹا ہوگا۔ آپ اسوقت گاڑیاں کردیں اور میر پور پہنچا دیں۔ انہوں نے ایسا ہی کیا اور اس طرح ہم سب کچھ عرصے میر پور میں اپنے رشتہ داروں کے پاس رہے لیکن پھر جلد ہی ابّی نے کراۓ پہ اپنا ایک مکان لے لیا ۔

Advertisements
julia rana solicitors

جاری ہے

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply