خطیب احمد صاحب اسپیشل ایجوکیشن ٹیچر ہیں کہ جنہوں نے ایک سروے کروایا۔ اس سروے میں ایک ہزار کنوارے اور کامیاب مردوں سے یہ پوچھا گیا کہ وہ 25 سال کی کنواری اور ملازمت نہ کرنے والی لڑکی کو شادی کے لیے ترجیح دیں گے یا 35 سالہ میچور اور سرکاری جاب ہولڈر خاتون کو؟ تو 91 فی صد کامیاب یا بالفاظ دیگر نام نہاد کامیاب مردوں کا جواب یہ تھا کہ وہ 25 سالہ کنواری لڑکی کو اپنی شادی کے لیے ترجیح دیں گے۔
اب سوال یہ پیدا ہوا کہ ایک کامیاب مرد، ایک کامیاب خاتون سے اتنا ڈرتا کیوں ہے؟ یا اسے ایک کامیاب عورت میں رغبت کیوں نہیں ہے؟
اس سروے کے جواب میں جویریہ ساجد صاحبہ نے ایک آرٹیکل لکھا کہ جس میں یہ نکتہ زیر بحث لایا گیا کہ کامیاب مرد اوّل تو ہیں ہی نہیں اور جو ہیں بھی تو وہ بھی میچور خاتون کو اس لیے شادی کے لیے ترجیح نہیں دیتے کہ اس خاتون کو دبانا ان کے لیے مشکل ہوتا ہے جبکہ چھوٹی عمر کی لڑکی کو مرد آسانی سے دبا سکتے ہیں۔ اور اس طرح مرد حضرات، عورت کو دبانے کی اپنی سفلی خواہش پوری کر سکتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ مرد کو چھوٹی عمر کی عورت سے شادی میں دلچسپی زیادہ ہوتی ہے۔ اس کے رسپانس میں معروف صحافی عامر خاکوانی صاحب نے ایک آرٹیکل لکھا کہ جس کا خلاصہ یہ تھا کہ مرد کے نزدیک شادی میں سب سے اہم چیز جنسی عمل ہے اور چھوٹی عمر کی لڑکی سے یہ اچھے سے پورا ہوتا ہے لہذا مرد کو اس لیے چھوٹی عمر کی لڑکی میں رغبت ہوتی ہے ورنہ ایک کامیاب مرد کو عورت کو دبانے کا شوق تو درکنار، وہم اور خیال بھی نہیں ہوتا ہے۔
ان تینوں پوسٹوں پر کمنٹس سیکشن میں مرد وخواتین نے اپنی اپنی آراء کا اظہار کیا ہے۔ یہ بہت خوش آئند بات ہے کہ دونوں طرف سے اس موضوع پر ایک اوپن ڈسکشن شروع ہو چکی ہے ورنہ تو ابھی تک ہمارے معاشرے نے ان موضوعات پر گفتگو کو بھی شجرہ ممنوعہ قرار دیا ہوا تھا۔ مجھے یاد ہے کہ میں چند سال پہلے تک سیکس، سائیکالوجی اور سوسائٹی کے موضوع پر کچھ تحریریں اپنی وال سے شیئر کرتا تھا تو بعض لوگ اس کو باقاعدہ ناپسند کرتے تھے اور اس ناپسندیدگی کا اظہار بھی کرتے تھے۔ اگرچہ کچھ لوگوں نے پسند بھی کیا، وہ بھی اچھا لگا۔ لیکن اب یہ جان کر خوشی ہو رہی ہے کہ لوگوں کو احساس ہو رہا ہے کہ ان نازک موضوعات کو اب بیڈ روم کی زینت بنانے کی بجائے علمی ڈسکشن کی زینت بنانا چاہیے۔ دیکھیں، مغرب نے جو گند مارا ہے، وہ اس فیلڈ میں عملی گند ہے۔ ہم اس کے مخالف ہیں لیکن اس موضوع پر اوپن ڈسکشن تو ریسرچ اور علم کا موضوع ہے، اس کو جاری ہونا چاہیے۔ اور اس میں مرد اور خواتین دونوں کو حصہ لینا چاہیے، یہ شرم وحیا کے منافی نہیں ہے۔ شرم وحیا کے منافی تو وہ عملی گند ہے جو مذہبی لوگوں میں اب دیکھنے کو مل جاتا ہے۔
ہماری نظر میں مشرقی مرد ہو یا عورت، ان میں سے نصف سے زائد کے ڈپریشن، ٹینشن، فرسٹریشن اور اینگزائٹی وغیرہ جیسے ذہنی مسائل کی وجہ ایک مناسب اور معتدل سیکسچوئل ری لیشن شپ کا نہ ہونا ہے۔ اب ایسا کیوں ہے؟ اس میں سماجی فیکٹرز بہت اہم رول ادا کر رہے ہیں نہ کہ مذہبی۔ کیونکہ اس حوالے سے لوگوں کی مذہبی تعلیم نہ ہونے کے برابر ہے یا اگر ہے تو غلط تصورات (misconceptions) پر مبنی ہے۔ مذہب نے سیکس کے جذبے کو اہمیت دی ہے، تبھی تو چار شادیوں کی اجازت دی ہے۔ مذہب نے ایک ہیلتھی سیکسچوئل ری لیشن شپ کو اہمیت دی ہے، تبھی تو طلاق اور خلع کو جائز قرار دیا ہے کہ ایک سے نہیں بن سکا، تو دوسرے سے قائم کر لو کہ تمہارے پروڈکٹیو ہونے کے لیے یہ بہت ضروری ہے کہ تمہاری خواہش اچھے سے پوری ہونی چاہیے۔
جس کی خواہش پوری نہیں ہو گی، وہ بستر پر پڑا رہے گا۔ جس کی سیکسچوئل ڈیزائر اچھے سے پوری ہو جاتی ہے، اس کی پرفارمنس اور پروڈکٹیوٹی بڑھ جاتی ہے۔ یہ سامنے کی بات ہے۔ بلکہ پیار، محبت اور عشق وغیرہ بھی سیکچوئل ری لیشن شپ کے درجات ہی ہیں۔ ورنہ محبت اس کے علاوہ کچھ بھی نہیں ہے۔ وہی محبوب جبکہ اس سے سیکسچوئل ڈیزائر پوری ہو جاتی ہے، شادی کے دس بارہ سال بعد بلکہ اس سے بھی کم عرصے میں دل سے اتر جاتا ہے۔ اور اگر اس سے شادی نہ ہو پائے یعنی فزیکل ری لیشن شپ نہ قائم ہو پائے تو وہ محبت، عشق بن جاتی ہے اور محبوب، معشوق کے درجے پر فائز ہو جاتا ہے۔ لَو انرجی، در اصل سیکس انرجی ہے۔ پیار کے درجے میں یہ ہر خوبصورت سے متعلق ہو جاتی ہے یعنی جبکہ آپ کو عورت ذات سے پیار ہوتا ہے۔ اور عورت ذات سے یہ پیار مرد کی فطرت میں شامل ہے کہ عورت اس کی پسلی سے نکلی ہے یعنی وجود سے نکلی ہے اور کبھی اس کے وجود کا حصّہ تھی۔ لیکن محبت کے درجے میں یہی سیکس انرجی، سپیسیفک ہو جاتی ہے یعنی آپ کسی ایک ہی سے سیکس کی خواہش پال لیتے ہیں اور اس سے ہٹنے کو تیار نہیں ہوتے۔
محبت اور سیکس میں فرق کرنا سب بکواس ہے۔ محبت ہے، بالکل ہے۔ محبت درد دل ہے، بالکل ہے۔ پَین فیل ہوتی ہے، بالکل ہوتی ہے۔ لیکن تب تک ہے جب تک کہ فزیکل ری لیشن شپ قائم نہیں ہوا۔ یہی وجہ ہے کہ سب سے زیادہ محبت کے کلمات کی ادائیگی اور اظہار سیکچوئل ری لیشن شپ کے دوران ہوتا ہے۔ اور اس کے بعد محبت میں ٹھہراؤ آ جاتا ہے یعنی جسے وہ محبت کہہ رہا ہوتا ہے، وہ فزیکل ری لیشن شپ کے فوراً بعد مانند پڑ جاتی ہے۔ اور دوبارہ تب دل میں جاگتی ہے جبکہ تھیلیاں دوبارہ سپرم سے بھر جاتی ہیں۔ تو محبت اپنے نتیجے میں سیکس ہی ہے یعنی کسی کے وجود کو اس کی روح کے ساتھ پا لینا۔ سول میٹ کا تصور بھی کیا ہے، یہی ہے کہ جب دو لائف پارٹنر آپس میں اس طرح سے سیکچوئل ری لیشن شپ قائم کر لیں کہ دونوں کی کانسینٹ یعنی رضامندی اور خواہش ورغبت موجود ہو تو اب دو روحیں آپ میں متعلق ہو جاتی ہیں۔ جہاں یہ نہ ہو پائے، وہاں کوئی سول میٹ کا کانسیپٹ نہیں ہے۔ اور یہ بات درست ہے کہ سیکس میں دونوں کا ایکٹو پارٹ پلے کرنا بہت کم ہوتا ہے، اس کے پیچھے بہت سے فیکٹرز انوالو ہوتے ہیں۔ جس سے آپ ہیلتھی سیکچوئل ری لیشن شپ قائم کر سکیں، وہی آپ کاسول میٹ ہے۔ اور آپ اُس کے سول میٹ اس وقت ہو سکتے ہیں جبکہ وہ یہی کام آپ کے ساتھ کر سکتا ہو۔ دیٹس اٹ۔
سیکس مرد اور عورت دونوں کی ضرورت ہے اگرچہ مرد کی ضرورت زیادہ ہے، یہ بات کسی حد تک درست معلوم ہوتی ہے کہ عورت کے پیریڈز، حمل، بچوں کی پیدائش وتربیت ومسائل، سسرال کی لعن طعن اور چخ چخ، شوہر کے مال ودولت کی کمی کے سبب مشکلات سے گزارا کرنا اور مرضی کی چیزوں کی خریداری نہ کر سکنا، الگ گھر یا پرائیوسی جیسی خواہشات کا پورا نہ ہو پانا، گھر میں میڈ کے نہ ہونے کی وجہ سے سارے کام خود کرنے سے خوب تھک جانا اور دیگر ہارمونز وغیرہ کی وجہ سے اس عمل کی طرف رغبت کم پڑ جاتی ہے۔ یا بعض اوقات شوہر کے رویوں کے سبب یہ رغبت ٹوٹ بھی جاتی ہے۔ لیکن اس میں ایک اور فیکٹر بھی اہم ہے جو کہ ایک سماجی عامل ہے۔ وہ یہ کہ جس طرح مرد میں سب قوی جذبہ جنس کا ہے کہ جسے فرائیڈ سیکس سے تعبیر کرتا ہے یا اِڈ بھی کہہ دیتا ہے، عورتوں میں سب سے قوی خواہش مردوں کو قابو کرنے کی ہے کہ جسے ایڈلر غالب آنے کی خواہش (urge to dominate) کا نام دیتا ہے۔
دیکھیں، یہ بات فطری ہے کہ جس کے پاس جو ہے، وہ عموماً اس میں کمپلیکس کا شکار نہیں ہوتا ہے۔ مرد کو مردوں پر غلبہ پانے کی خواہش تو ہو سکتی ہے جیسا کہ بادشاہوں اور لین لارڈز میں ہوتی ہے لیکن عورتوں پر نہیں کہ وہ اس کے مقابلے کی ہے ہی نہیں یا وہ اسے اپنے مقابلے کی سمجھتا ہی نہیں ہے۔ عورت فطری طور مرد سے کمزور ہے۔ لہذا کامیاب اور سمجھدار مرد کمزور پر قابو پانے جیسی بکواس خواہشات نہیں پال سکتا، یہ بات درست ہے۔ اور بے وقوف مرد دنیا میں پائے جا سکتے ہیں، ان کی ہم بات نہیں کر رہے۔ مرد کو عورت سے وہ چاہیے ہوتا ہے، جو اس کے پاس نہیں ہے اور وہ سیکس ہے کہ یہ خواہش وہ اسی سے پوری کر سکتا ہے۔ دوسری طرف عورت کے پاس حسن، جمال، اداء سب کچھ موجود ہے۔ اسے مرد سے یہ نہیں چاہیے۔ اسے مرد سے وہ چاہیے کہ جس میں وہ کمزور ہے۔ عورت در اصل مرد کو قابو کر کے اپنے اس کمپلیکس کو دبانا یا بالفاظ دگر کمزوری کو مٹانا چاہتی ہے کہ وہ مرد سے فطرتاً کمزور ہے۔ ہمارے ہاں عورتوں کو یہ پڑھایا جاتا ہے کہ میاں کو قابو کرنا ہے۔ وہ یہ باتیں اپنی بہنوں سے سنتی ہیں، سہیلیوں سے سنتی ہے، سوسائٹی کی خواتین سے سنتی ہیں کہ اپنے میاں کو قابو میں رکھو اور اٹھتے بیٹھتے سنتی ہیں۔ تو سوسائٹی بھی آپ کے بی لیفس بناتی ہے۔ عورتوں کے مردوں کے بارے اکثر بی لیفس، سوسائٹی کے من گھڑت تصورات ہی ہیں۔ جن میں سے ایک یہ بھی ہے کہ عورت کا بستر پر متحرک ہونا، مرد کو یہ تاثر دیتا ہے کہ وہ بے شرم اور بے حیا ہے لہذا عورت نے بستر پر اپنی خواہش کو دبانا ہے۔ بھئی، بستر پر کپڑے اتارنے کے بعد اب کون سی حیا اور شرم باقی رہ گئی ہے کہ جس کا تاثر اپنے مرد پر چھوڑنا ہے، کمال ہے!
اب ہوتا کیا ہے؟ ہوتا یہ ہے کہ عورت میں بھی سیکس کا جذبہ ہوتا ہے، مرد ہی کی طرح ہوتا ہے۔ لیکن وہ اپنی اس خواہش کو دباتی ہے، ایک دوسری خواہش کو پورا کرنے کے لیے۔ اور وہ ہے حب تفوق یعنی مرد پر غلبہ پانے کی خواہش (urge to dominate) اور یہ ثابت کرنے کی خواہش کہ وہ مرد سے بہتر ہے کہ مرد اس کے پیچھے ہے نہ کہ وہ مرد کے پیچھے ہے۔ اب عورت کو بعض اوقات بستر پر اپنے آپ کو جانتے بوجھتے سرد بھی کرنا پڑتا ہے تو وہ کر لیتی ہے تا کہ شوہر کے لیے واضح رہے کہ جنس شوہر کی ضرورت ہے، بیوی کی نہیں۔ اگر شوہر کو یہ لگ گیا کہ یہ بیوی کی بھی ضرورت ہے تو وہ اس کا پیچھا کیوں کرے گا؟ کبھی نہیں کرے گا۔ جب وہ اس کا پیچھا نہیں کرے گا تو اس کی خواہشات پوری کرنے کے لیے اس پر مال کیوں لٹائے گا؟ تو شوہر کو قابو کرنے سے مراد یہی ہوتی ہے کہ مرد کے لیے واضح رہے کہ عورت اس کی جنسی خواہش کی تکمیل کے لیے ضروری ہے جبکہ عورت کی ایسی کوئی خواہش ہے ہی نہیں حالانکہ ہوتی ہے لیکن وہ اپنے آپ کو اس کے لیے ٹرین کر لیتی ہے کہ اپنی اس خواہش کا اظہار نہ ہونے دے۔ مغربی عورت کا معاملہ دوسرا ہے، وہ اس معاملے میں بولڈ ہے۔ وہ اپنے شوہر سے سیکس کے عمل کا مطالبہ بھی کر لیتی ہے اور اس کو اپنی بے عزتی بھی خیال نہیں کرتی لیکن مشرقی عورت کے لیے ایسا کرنا قیامت سے کم نہیں ہے۔ لیکن اس کو قیامت کس نے بنایا ہے؟ مذہب نے؟ نہیں، بلکہ سوسائٹی نے۔
سیکس کے عمل میں عورت کی عدم دلچسپی یا کم انوالومنٹ میں وجہ صرف گھریلو سیاست نہیں ہے، وہ ہم اوپر بیان کر چکے کہ فیکٹرز اور بھی انوالو ہوتے ہیں جن میں مرد کا عورت کو کم مال دینا، مرد کا عورت کو پرائیویسی نہ دے پانا یعنی علیحدہ گھر نہ دے سکنا، سسرال کی چخ چخ، پیریڈز، پریگنینسی، ہارمونز، شوہر سے لڑائی جھگڑے، گھر میں میڈ کا نہ ہونا، گھر کے کام کاج کا زیادہ تھکا دینا، عورت کا جاب اور ملازمت کی وجہ سے تھک جانا یا ایگزاسٹ ہو جانا وغیرہ وغیرہ۔ لیکن یہ سب فیکٹرز اصل نہیں ہیں بلکہ ثانوی ہیں جو عورت کو وقت کے ساتھ اس طرف لے جاتے ہیں کہ وہ ان سب فیکٹرز کی وجہ سے کم پڑتی جنسی خواہش کو کوئی مقصدیت دے سکے اور وہ اسی طریقے سے ممکن ہوتی ہے کہ میاں کو قابو کر لو۔ وہ اس طرح سے کہ اس کو اپنا آپ اس طرح سے نہ دو اور مکمل نہ دو کہ وہ یہ سمجھ بیٹھے کہ یہ یعنی سیکس کا عمل عورت یا بیوی کی بھی ضرورت ہے۔ اس طرح وہ گھر میں طاقت کے توازن کو برقرار رکھنے کی کوشش کرتی ہے۔
اب ہم آتے ہیں، اس سوال کی طرف۔ تو اب اس تناظر میں اس سوال کا جواب واضح ہے کہ مرد اس لیے چھوٹی عمر کی لڑکی سے شادی میں رغبت رکھتا ہے کہ اس لڑکی کی ایموشنل بانڈنگ مضبوط ہوتی ہے۔ وہ جذبات سے چلنا جانتی ہے، اس میں چالاکی نہیں ہوتی، اس میں معصومیت ہوتی ہے، اس میں ادا اور حسن اور وہ سب کچھ ہوتا ہے جو مرد کے پاس نہیں ہوتا اور کامیاب مرد اس کا طلبگار ہوتا ہے۔ لیکن جیسے جیسے عورت کی عمر بڑھتی ہے۔ اپنے مسائل کے ساتھ وہ خاندان اور سماج سے بھی رویے اور چالاکیاں سیکھتی جاتی ہے۔ اس کا بی ہیویئر اور ایٹی چیوڈ بہت ہی کیلکولیٹڈ اور نپا تلا ہوتا چلا جاتا ہے۔ اس نے محبت کا اظہار کرنا ہے تو بھی نپے تلے انداز میں۔ اس نے سیکس کے عمل میں شریک ہونا ہے تو وہ بھی نپے تلے انداز میں۔ اس نے میاں کے ساتھ جذبات سے نہیں چلنا، بلکہ دماغ سے چلنا ہے جو کہ شوہر کے پاس پہلے سے بہت زیادہ ہوتا ہے۔ مطلب شوہر کا خیال یہی ہوتا ہے کہ یہ تو اس کے پاس پہلے سے ہی ہے۔ اسے تو اگلے سے جذبات کا بخار چاہیے۔ اور جذبات کا بخار چھوٹی عمر کی لڑکی میں ہوتا ہے۔ اس لیے مرد کی رغبت اس میں زیادہ ہوتی ہے۔
اب عورتیں اس پر مردوں کا مذاق اڑائیں یا جو بھی کریں۔ بہر حال جو وہ ہیں، وہ ہیں۔ اور ان کے رب نے انہیں ایسے ہی بنایا ہے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت جابر رضی اللہ عنہ کی ایک بیوہ سے شادی پر انہیں کہا تھا کہ یہ شادی کسی کنواری لڑکی سے کی ہوتی، وہ تم سے کھیلتی، اور تم اس سے کھیلتے۔ انہوں نے جواب دیا کہ میرے حالات اجازت نہیں دیتے تھے کہ میں کنواری سے شادی کر پاتا۔ اس کی وجہ یہ تھی کہ ان کے والد صاحب فوت ہو گئے تھے اور انہیں اپنی بہنوں کی تربیت کے لیے کسی بڑی خاتون کی ضرورت محسوس ہو رہی تھی۔ بہر حال حالات کی مجبوری ایک علیحدہ چیز ہے لیکن مسئلے کا حل یہی ہے کہ چھوٹی عمر کی لڑکی سے شادی کی جائے۔ اور مسئلہ کیا ہے، اندر کا سکون، اطمینان نفس، جو عبادت میں بھی اطمینان پیدا کرے اور آپ کو آپ کی کریٹیویٹی میں بھی زیادہ پروڈکٹیو بنا دے۔ اور ہر دس سال بعد چھوٹی عمر کی لڑکی سے شادی کر کے چار شادیاں پوری کر لو تو ساری زندگی کے لیے انتہائی پروڈکٹو بن جاؤگے۔ باقی کسی کی حضرت جابر رضی اللہ عنہ کی طرح کی مجبوریاں ہیں تو وہ آخرت میں بھلے کی امید رکھے۔ جزاکم اللہ خیرا
Facebook Comments
بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں