سرائیکی کے سو پسندیدہ اشعار/ قسط 1۔۔۔ کامریڈ فاروق بلوچ

اردو کے سو پسندیدہ اشعار لکھے جو چار اقساط میں شائع ہوئے. احبابِ شعر فہم و ادب شناس کیطرف سے تہنیت نے تھپکی کا کام کیا. سرائیکی شاعری کے پاس بھی عظیم شاعروں کے بےمثال شعروں کا شاندار خزانہ موجود ہے. لہذا سرائیکی کے سو پسندیدہ شعر نہ لکھوں تو گناہ گار ہو جاؤں گا. قومی زبان کی شاعری سے محبت کا اظہار ہو چکا، کیوں نہ ماں باپ کی زبان کی شاعری سے محبت کا اظہار کر دوں. ذیل میں راقم کے سو پسندیدہ شعر درج ہیں جو سرائیکی شعراء نے لکھے ہیں. کوشش کروں گا سرائیکی شعر کے ساتھ اردو ترجمہ بھی کر دوں تاکہ سرائیکی سے ناواقف بھی مزہ اخذ کر لیں.

تونسہ شریف کے قصباتی شہر نتکانی کی مضافاتی بستی لَڑا کے ملغانی قبیلے میں پیدا ہونے والے بلند مرتبت شاعر جنہیں فرید ثانی بھی کہا جاتا ہے جب تونسہ ہی کی دوسری سوکڑ نامی بستی میں ہجرت کر گئے تو دنیا اُن کو اقبال سوکڑی کے نام سے یاد کرنے لگی. سرائیکی شاعری کو جدید خطوط عطا کرنے والی شخصیت بھی اقبال سوکڑی ہی ہے. حتی کہ جب انہوں نے پہلی مرتبہ سرائیکی غزل سنائی تو کافی تنقید کی گئی مگر اِس میں کوئی شک نہیں کہ بعد میں سرائیکی غزل کو اعتماد بھی اقبال سوکڑی کی وجہ سے ہی ملا ورنہ قبل ازیں سرائیکی میں غزل پہ طبع آزمائی نہ ہوتی تھی. غزل، پابند و آزاد نظم، ڈوہڑہ دینے والے اقبال سوکڑی کا شعر ملاحظہ فرمائیں:

زندگی پاݨی دا ٻُک نئیں چَھݨ ونڄے انگلیں وچوں
زندگی اوکھا سفر ہے کہیں ناں کہیں دا یار تھی
(زندگی ایسی آسان نہیں کہ ہتھیلی پہ موجود پانی کی طرح انگلیوں سے بہہ کر ختم ہو جائے، بلکہ زندگی ایک مشکل سفر ہے لہذا کسی نہ کسی کا دوست بننا پڑے گا)

درانی سلطنت میں مظفر خان کے آباد کردہ شہر مظفرگڑھ کے اصغر گرمانی کی شاعری اُن کو طاقت دیتی ہے جن کے پاس طاقت نہیں، اُن جذبات کا ذکر ہے جو بےآواز ہیں. یہ شاعری یاسیت زدہ قلوب کو گداز دیتی ہے. احتجاج، شک، معروضی مکالمہ، سوال، محبت، انسان اور محرومی کے بیان کو اصغر گرمانی کہتے ہی‍ں. آئیے اُن کا شعر دیکھیے کہ:

یار دعا کر روزی روٹی کولو فارغ تھیواں
پنجوی سال پرانڑے خط دا میں ہک وَلدا لکھنڑے
(یار دعا کر فرصت ملے کیونکہ ایک خط کا جواب لکھنا ہے اور پچیس سال سے غم روزگار سے فرصت میسر نہیں)

عابد بلال کا سچا شعر پڑھیے کہ:
بےربط حیاتی ہے تونڑیں جان ولا وی
آندی ہے فقیریں کوں تیڈی مونجھ مسلسل
( میری زندگی میں کچھ بھی ترتیب وار یا مسلسل نہیں بچا ہے، مگر میری جان صرف تمہاری یاد ہے جو ہم فقیروں کو مسلسل آ رہی ہے)

میری نگاہ میں لیہ کی تحصیل کروڑ لعل عیسن کا ایک شاعر ایک اصلی سرائیکی فیمینسٹ ہے. لڑکیوں، بہنوں، بیٹیوں، بیویوں، اور عورتوں کے بیان کا شاعر منشو بھٹہ کمزور طبقات اور کمزور قوموں کا بھی ترجمان ہے. موت سے متعلق اتنا واضح موقف اور عیاں ادراک کسی دوسرے شعر میں نہیں جیسے منشو بھٹہ کے اِس شعر میں ہے، ملاحظہ فرمائیں کہ:

میڈےچھیکڑی ساہ ہن میں تاں نچدیں مرنڑاں چاہنداں
روونڑ   دھوونڑ   چھوڑو   تساں  ڈھولک   آلا  سڈو
(آخری سانس چل رہے، میں ناچتے ہویے مرنا چاہتا ہوں، لہذا یہ رونا دھونا چھوڑو کسی ڈھول والے کو بلاؤ)

عبدالرشید اشتر سرائیکی کا طلسماتی شاعر. اُشتر نے کم عمری میں وہ مقام حاصل کیا جو دیگر کو دِگرگوں ہونے کے بعد ملا. اُشتر کو مشاعرے نے وہ شہرت دی کہ لوگ دنگ رہ گئے. سرائیکی شاعری کا ذکر کسی بھی عہد میں ہو گا تو اُشتر کی شاعری لازماً شامل ہو گی. اُشتر کا کمال شعر دیکھیے کہ:

اُشتر اُونکوں ملسوں کڈاہیں کہیں بے جنم وچ گول کے
اے جنم گُنجڑیج گۓ پۓ گئین خم تلخیں دے وچ
(اُسے ضرور ملیں گے مگر کسی دوسرے جنم میں، کیونکہ یہ جنم تو تلخیاں سہہ سہہ کر ایسا ہو گیا جیسا بغیر استری کے کوئی لباس سلوٹ زدہ ہوتا ہے)

علی پور کے پیارے شاعر ساجد علی پوری کا شعر دیکھیے کہ:

اسباب کلھیپےدے جو پچھدیں کیا ڈساواں
سجھ نال کڈی تارئیں دی بارات ڈٹھی ہئی؟
(میری تنہائی کا سبب پوچھتے ہو تو کیا بتاؤں؟ تم ہی بتاؤ کہ سورج اور ستارے بھی کبھی ساتھ ساتھ دیکھے ہیں)

‏اپنی بیٹھک، اپنے علاقے، اپنے درختوں، اپنے پرندوں، اپنے معروض سے عشق کی حد تک جڑے مخمور قلندری نے جدید سرائیکی شاعری کو یاسیت، درد اور المیہ عطا کیا ہے. مخمور قلندری اپنے گھر ہر سال بہت بڑا آگ کا آلاؤ جَلا کر پاکستان بھر سے دوستوں (سرائیکی دانشوروں اور شاعروں) کو اُس آلاو کے اردگرد بٹھا دیتا ہے. جب تک آگ جلتی رہتی ہے ادب اور فنکاری بھی چلتی رہتی ہے، اُس منفرد سالانہ ادبی کانفرنس کو “قلندری مَچھ” کے نام سے یاد کیا جاتا ہے. مخمور قلندری کا شعر دیکھیے کہ:

ساڈے دَر تے غُربت وال کِھنڈا وَل پیر دَگھیر کے سُم گئی اے
نئیں کَپڑے پاونڑ یاد رِہیا، اساں عید مناونڑ بھُل گئے ہیں
(ہمارے دروازے پہ غربت اپنے بال کھول کر پیر جما کر گہری نیند میں چلی گئی ہے، ہمیں کپڑے پہننا یاد نہیں رہا، ہم عیدیں منانا بھول چکے ہیں)

پاکستان پیپلز پارٹی کلچرل ونگ صوبہ پنجاب کے صدر اشو لال پیشہ کے لحاظ سے ڈاکٹر ہیں. اُن کا تعلق بھی لیہ کی تحصیل کروڑ لعل عیسن سے ہے. آپ کی شاعری انڈس ویلی سویلائزیشن کی عکاس ہے. سندھ دریا، اِس کی تاریخ و ثقافت، دریا کے ساتھ آباد ایشیا کے قدیم ترین قبیلوں کی تاریخ و ثقافت، اِس کی ترویج، اشاعت اور تحفظ کے لیے کی جانے والی اشو لال کی شاعری عظیم ہے. محنت کشوں کی آواز ہے. معروض کی قدرتی شناخت اور ماحول کی جزئیات کو شاعری میں شامل کیا گیا ہے. سرمایہ داری، آزادی منڈی کی معیشت اور استعماریت کے خلاف شاعری ہے. گوتم اور مارکس سے متاثر ڈاکٹر اشو لال نے محبت جیسے نرم اور گداز آوور انسانی جذبے کو بھی بدرجہ اتم اپنا موضوع بنایا ہے. میں ایک مرتبہ سوچ رہا تھا کہ فیض بڑا فنکار تھا یا اشو لال…؟ سئیں اشو لال کا شعر دیکھیے کہ:

تیڈے تاں فقیر اساں تیڈے تاں غلام اساں
ساکوں بہہ گاوے کوئی اللہ دا کلام اساں
(تمہارے تو ہم منگتے ہیں، تمہارے تو ہم غلام جیسے ہیں. اگر کوئی تسلی سے سمجھ کر گائے تو ہم اللہ کے کلام جیسے ہیں)

گذشتہ صدی کے آغاز میں ایک سرائیکی شاعر ایسا بھی تھا جس کی جاگیر کی کمائی اُس عہد کے 45 سے 60 ہزار روپے سالانہ تھی مگر وہ خود سارے دن میں گندم کی ایک روٹی کھاتا اور گائے کا دودھ پیتا. نواب آف بہاولپور اُس صوفی شاعر کے معتقد تھے، ایک بار وہ صوفی فقیر نواب بہاولپور کو ملنے گئے تو نواب نے دروازے پہ آکر استقبال کیا بلکہ 30 ہزار روپے تحفتاً دئیے اور جب واپس آنے لگے تو 40 ہزار روپے پھر دئیے. لیکن جب وہ صوفی شاعر شام اپنے گھر چاچڑاں شریف پہنچے تو سب دولت و پیسہ لُٹا کر پہنچے. خواجہ غلام فرید کا شعر دیکھیے کہ:

Advertisements
julia rana solicitors

تتی تھی جوگن چورھار پھراں، ہندہ سندھ پنجاب تے ماڑ پھراں
سنج برتے جنگل بازار پھراں، متاں یار مِلُم کہیں سانگ سبب
(میں جوگن بن میرے یار پھروں ہند سندھ پنجاب اور ماڑ پھروں. دشت جنگل بازار پھروں. مجھے آئے نظر میرا یار کہیں)

Facebook Comments

فاروق بلوچ
مارکسی کیمونسٹ، سوشلسٹ انقلاب کا داعی اور سیاسی کارکن. پیشہ کے اعتبار سے کاشتکار.

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply