تاریخ کی عدالت میں۔۔کامریڈ فاروق بلوچ

زماں کی قید سے مبرا ہونا ابھی ممکن نہیں مگر تخیلات میں اُتر کہ مستقبل کو سوچا جا سکتا ہے. آج سے سُو برس بعد کا مورخ کیا لکھے گا؟ اندازہ لگایا جا سکتا ہے. یہ تحریر اصلاً ہمیں “تاریخ کی عدالت میں” پیش کرنے جارہی ہے. آئیے اپنے اپنے کردار کو تاریخ کی کوکھ میں پروان چڑھتا دیکھتے ہیں. دیکھتے ہیں کہ تاریخ کے “سٹیج” پہ کِس نے اپنے لیے کونسا کردار چُنا ہے؟ اِس دنیا میں چند ذہنی معذور افراد کے سوا کوئی بھی ایسا نہیں جو کسی نہ کسی سوچ یا نظریے سے وابستہ نہ ہو. ہر کسی کی کوئی نہ کوئی قابلیت، مہارت یا اہلیت ہوتی ہے. لہذا ہر کسی کو اپنی اِن صفات کے مَصرف کا علم و ادراک ہونا چاہیے. یقین و امید سے کی گئی کاوشیں ثمرات سے خالی نہیں ہوتیں. کوئی اگر خدا کو تلاشتا ہے تو اُنکو خدا میسر آ جاتا ہے ورنہ یقین و امید یا کاوش کا کوئی کُھوٹ آڑے آتا ہے، اِسی طرح سماج یا سیاست اور معیشت و مذہب یا پھر سائنس و آرٹ کے میدان میں ارتقاء فقط انسانوں کی صلاحیتوں اور قابلیتوں کے استعمال سے ہی متعلق ہے.
تاریخ دان بتائے گا کہ پوری دنیا پہ اجارہ داری کا خواہاں مُلک “امریکہ” جہاں دنیا بھر کے تیس فیصد امیر ترین لوگ رہتے تھے، وہاں کے ہر پانچ میں سے ایک بچہ بھوکا سوتا تھا. امریکہ کے “سیکنڈ ہاروسٹ فوڈ بینک” نے بتایا کہ امریکہ کے مشہور علاقے “سانتا کلارا” میں ہر ساتواں بچہ خوراک کی کمی کا شکار تھا. جبکہ تاریخ دان حیران رہ جائے گا کہ دوسری طرف اُسی امریکہ میں 400 امریکی دولت مند ایسے تھے جنکے پاس اڑھائی ٹریلین ڈالر کے ذخائر موجود تھے. تاریخ میں یہ بھی درج کیا جائے گا کہ ترقی یافتہ ممالک میں امریکہ “غریب بچوں” کی شرح کے حوالے سے دوسری نمبر پہ تھا (بحوالہ یونیسف 2013).
تاریخ دان لکھے گا کہ امریکہ طبقاتی تقسیم کا جوہڑ بن چکا تھا. وہاں دو طرح کے لوگ رہتے تھے، امیر امریکی اور غریب امریکی. مثال کے طور پر امریکی ریاست کیلیفورنیا میں 111 افراد ایسے تھے جن کے دولت کے مجموعی ذخائر 400 بلین ڈالر تھے، جبکہ کیلیفورنیا کی 24 فیصد آبادی خطِ غربت سے نیچے زندگی بسر کرنے پہ مجبور تھی.
ٹروسل ٹرسٹ کی ہی رپورٹ کے مطابق برطانیہ میں ہر پانچویں ماں اپنے بچوں کی خوراک کی فراہمی کو پورا کرتے کرتے خود بھوکی رہ جاتی تھی. مشہور جریدے “دی انڈیپنڈنٹ” کے مطابق 2008 کے بعد سے برطانوی ہسپتالوں میں داخل ہونے والے “خوراک کی کمی” کے شکار بچوں کی تعداد میں دوگنا اضافہ دیکھنے میں آیا تھا، اِس حوالے سے خصوصاً دیہی علاقوں کی صورتحال ابتر تھی. برٹش میڈیکل جرنل نے دسمبر 2013 میں ایک رپورٹ شائع کی جس کے مطابق برطانیہ میں “بھوک” کی سطح “صحتِ عامہ میں ایمرجنسی” تک جا پہنچی تھی.
مستقبل کا مورخ موجودہ عہد کی نام نہاد “قیادت” کی منافقت پہ بھی ہنسے گا کہ ورلڈ بینک کی تعریف کے مطابق 7500 پاکستانی روپے ماہانہ کمائی والے افراد کو غریب تصور نہیں کیا جاتا تھا. یعنی مکیش امبانی جس کی روزانہ کی “تنخواہ” 7 لاکھ 93 ہزار پاکستانی روپے تھی اور ایک مزدور جِس کی روزانہ کی کمائی 250 پاکستانی روپے تھی، ورلڈ بینک کی نظر میں دونوں “امیر” لوگ تھے. مورخ بتائے گا کہ غربت کی اِس منافقانہ تعریف کے مطابق بھی اکیسویں صدی کے اوائل میں دنیا کی آدھی آبادی غربت کا شکار تھی. مورخ یہ بھی بتائے گا کہ دنیا کے صرف ایک شخص “بل گیٹس” کی روزانہ کی آمدن 122 کروڑ پاکستانی روپے تھی مگر یونیسف کے مطابق دنیا بھر میں 22000 بچے روزانہ کی بنیادوں پر غربت کی ہاتھوں مَر جاتے تھے. سالانہ بیس لاکھ بچے صرف اسہال اور نمونیا جیسی آسانی سے قابلِ علاج بیماریوں کی سبب مَر جاتے ہیں کیونکہ وہ علاج “خرید” نہیں سکتے.
مورخ یہ بھی بتائے گا کہ اُس وقت انسان تاریخ کے ترقی یافتہ ترین عہد میں رہنے کے باوجود دنیا کے 1 ارب 60 کروڑ لوگ بجلی کی “سہولت” کے بغیر زندگی گزار رہے تھے. تاریخ میں یہ بھی لکھا جائے گا کہ اگر دنیا کے 100 امیر ترین افراد کی دولت کا ایک چوتھائی خرچ کیا جاتا تو دنیا بھر کی غربت کا خاتمہ ممکن تھا (آکسفیم). ورلڈ فوڈ پروگرام کے مطابق “بھوک” دنیا میں انسانی ہلاکتوں کا سب سے بڑا سبب تھی، حتی کہ ملیریا، تپ دق اور ایڈز کی وجہ سے ہونے والی مجموعی ہلاکتوں سے بھی زیادہ. جبکہ موجودہ عہد کے زرائع سے اتنی خوراک پیدا ہورہی تھی جس کی بدولت دس ارب لوگ موٹے ہوجاتے.
تاریخ کی عدالت میں موجودہ عہد کے لوگوں کے کردار بھی درج ہوگا. لکھا جائے گا کہ کون کیا کہتا، سوچتا، بولتا اور کرتا تھا. کیا نظریات اور کیا کاوشیں تھیں؟ سب کچھ تاریخ کے صفحات پہ درج کیا جائے گا. تاریخ کا قلم بہت بےرحم ہوتا ہے، اگر مگر نہیں دیکھتا، بس جو ہوا ہوتا ہے لکھ دیا جاتا ہے.
تاریخ دان لکھیں گے کہ کچھ لوگ ایسے بھی تھے جن کے خیال میں معیشت میں کسی کی اتھارٹی نہیں ہونی چاہیے۔ ہر فرد آزاد ہونا چاہیے، جو وہ چاہے بیچے اور جو وہ چاہے خریدے۔ ایسے لوگوں کی نظر میں محنت و سرمایہ ایک دوسرے کے مددگار ہوتے ہیں۔ مواقع کےحوالے سے مساوات دستیاب ہوتی ہے۔ اور انسانوں کے مابین مقابلہ بازی ترقی کی قوتِ محرک ہے. محنت، ذہانت، تخلیقی صلاحیت، دریافت و ایجاد، نئے نئے آئیڈیاز اور علم کی دولت کی بِنا پر لوگ لوگوں سے مقابلہ میں آگے ہوتے ہیں. مورخ بتائے گا کہ ایسے لوگوں کی نظر میں ریاست صرف اشیا و خدمات کی کوالٹی کی نگرانی کرنے والا عضو ہوتا ہے اور اگر دو فریقین کے درمیان کوئی تنازعہ جنم لیتا ہے تو اسے حل کرنے کا کام ریاست کو کرنا ہوتا ہے. ریاست عوام سے ٹیکس اکٹھا کرتی ہے اور لوگوں پر خرچ کرتی ہے۔ جو لوگ کسی معذوری کا شکار ہوں ان کی کفالت کرتی ہے۔ یعنی جو لوگ امیر ہیں، وسائل اور زرائع پہ حاکم و مالک ہیں، وہ اپنی محنت و صلاحیت کی بِنا پہ ایسے ہیں. جبکہ غربت، افلاس، بیماریوں، جہالت، لاعلمی اور بھوک کے شکار لوگ اپنی سُستی، کاہلی اور ناقابلیت کی بِنا پہ ایسے ہیں. روزانہ 22000 مَرنے والے بچوں کی غربت اُنکی اپنی سُستی اور اُنکے والدین کی کاہلی کے سبب ہے. یعنی بھوک اور قابلِ علاج بیماری کے ہاتھوں ہلاک ہونے والے لوگ کوئی کام کاج نہ کرتے تھے اور مَر جاتے تھے. یعنی پوری دنیا کے غریبوں اور امیروں کو وسائل اور مواقع تک برابر و مساوی رسائی تھی مگر اکثر انسان سُستی، کاہلی اور ناقابلیت کے سبب غربت “اپنائے” ہوئے تھے. یعنی انسانی اعضاء کا کاروبار جس میں ہزاروں کروڑ روپے سالانہ ملوث ہوتے ہیں، لوگ اپنی سستی، کاہلی اور مواقع کے مساوی دستیابی کے باوجود اپنے اعضاء شوق کے مارے بیچ دیتے ہیں. کتنی معصومیت سے یہ لوگ کہہ دیتے ہیں کہ ہاں دنیا کے 1810 افراد جنکے پاس 6.5 ٹریلین امریکی ڈالر ہیں اُنکی انفرادی “محنت” اور “قابلیت” کے سبب ہیں. یعنی سڑکوں پہ روڑا کُوٹتی ایک عورت، جسم بیچتی ایک عورت اور سولہ سولہ گھنٹے دھوپ گرمی بارش میں ڈیوٹی دیتا پولیس کا سپاہی محنتی نہیں ہیں. یعنی کوچہ و بازار میں بھیک مانگتے سات آٹھ برس کے بچے کو اور ایک ارب پتی کے بچے کو ترقی، تعلیم، خوراک، لباس، رہائش، علاج وغیرہ کے مواقع تک مساوی رسائی حاصل ہے!!! مورخ ایسے ضمیر فروش لوگوں، اساتذہ، صحافیوں، دانشوروں، سیاستدانوں پہ لعنت بھیجتا ہوا آگے بڑھ جائے گا.
مورخ ایسے غلاموں کا بھی ذکر کرے گا جنہیں اپنی زنجیروں کا ادراک بھی نہیں تھا. جِنکو اپنی زنجیریں نظر بھی نہ آتی تھیں. تاریخ کی عدالت میں پیش ہوکر یہ لوگ خم ٹھوک کر بتائیں گے کہ یہ طبقاتی تقسیم اللہ، خدا، ایشور، بھگوان، داتا جیسی ہستیوں کی مرضی سے تھی. یعنی خالق خود ہی اپنی مخلوق کو چند لوگوں کے مقابلے میں اذیت ناک صورتحال میں اِس لیے رکھتا ہے تاکہ اُنکی “آزمائش” کر سکے. یعنی غربت کے ہاتھوں مجبور اپنے اعضاء بیچتے لوگ خدا کی مرضی و منشاء سے ایسا کرتے تھے. یعنی بھوک اور قابلِ علاج بیماریوں کے ہاتھوں سسک سسک کر ایڑیاں رگڑ رگڑ کر مَرتے ہوئے لوگ خدا کی مرضی تھی. یعنی بموں اور مزائیلوں کی ذد میں آکر جنگوں کا ایندھن بننے والے انسان اللہ کی مرضی سے قتل ہوتے تھے. چند سِکوں کی جھنکار پہ ناچتی، نُچتی اور بِکتی عورتیں خدا کی مرضی کے تحت ایسے حالات میں زندگی بسر کر رہی تھیں. مورخ ایسے لوگوں کو بھی تاریخ کے کٹہرے میں پیش کرے گا.
مورخ کچھ ایسے لوگوں کے نام بھی لکھے گا جن کی نظر میں یہ طبقاتی تقسیم ظالم سرمایہ داروں کی لالچ کے سبب تھا. یعنی ایک طرف دولت اور وسائل کا چند ہاتھوں میں ارتکاز ہی دوسری جانب جہالت، غربت، اذیت، بیماریوں اور بھوک کے ارتکاز کا سبب تھی. وسائل اور دولت کا چند لوگوں کی “نجی ملکیت” میں ہونا ہی دنیا بھر کے مسائل کا جواز تھی. مورخ بتائے گا کہ ایسے لوگ ایسی جدوجہد پہ یقین رکھتے تھے جِس کا نتیجہ چند انسانوں کی اقلیت سے وسائل کا خاتمہ کرنا تھا. ایسے لوگ زرائع پیداوار کی نجی ملکیت کو تمام مسائل کی وجہ سمجھتے تھے. ایسے لوگوں کو فسادی، دیوانہ اور خواب زدہ جیسے القابات سے نوازا جاتا تھا مگر وہ اپنے نظریے پہ قائم اور مضبوط تھے. ایسے لوگوں کو خریدنے اور جھکانے کی جان توڑ سفاکانہ کوششیں کی جاتی تھیں مگر یہ لوگ نہ بکتے تھے، نہ جھکتے تھے اور نہ ہی ڈرتے تھے.
آئیے خود کو تاریخ کی عدالت میں پیش کرتے ہیں، اور اپنا اپنا کردار وضع کرتے ہیں.

Facebook Comments

فاروق بلوچ
مارکسی کیمونسٹ، سوشلسٹ انقلاب کا داعی اور سیاسی کارکن. پیشہ کے اعتبار سے کاشتکار.