اک وبا چل پڑی ہے۔۔۔کامریڈ فاروق بلوچ

ایسا نہیں ہے کہ دنیا میں وبا،بیماری ایسے ہی اچانک کہیں سے آتی ہے یا نازل ہوتی ہے یا پیدا ہو جاتی ہے۔ کائنات میں ہونے والے ہر عمل،امر کے پیچھے کوئی نہ کوئی وجہ،جواز،پسِ جواز ضرور ہوتا ہے۔ ہر عمل کس دوسرے عمل،اعمال کا نتیجہ ہوتا ہے کیونکہ ہر عمل کا ایک نہ ایک نتیجہ ہوتا ہے۔ وباؤں اور بیماریوں کی وجہ،وجوہات ہوتی ہیں۔ ایسا بھی نہیں ہے کہ کرونا دنیا بھر میں پھیلنے والی اپنی نوعیت کی پہلی وبا ہے۔ بلکہ انسانی جدید و قدیم تاریخ میں ایسی کئی مثالیں موجود ہیں۔ ابھی سو سال قبل ہسپانوی فلو ایسے ہی دن بہ دن پھیلتا گیا، اموات ایک سے دو اور دو سے تین ہوتے ہوتے 9 ماہ میں تین کروڑ لوگوں کو نگلتی گئیں ۔

ایک اطالوی تو یوں بھی ہے کہ ہسپانوی فلو کی زد میں آ کر ہسپتال داخل ہوا، ساتھ والے مَر گئے لیکن وہ خود روبہ صحت ہو کر گھر لوٹ آیا، اب بھی وہی اطالوی کرونا کی زد میں آکر ہسپتال میں داخل ہوا مگر 101 سال کی عمر میں روبہ صحت ہو کر گھر لوٹ آیا جبکہ ساتھ والے مر رہے تھے۔ اور ایسا بھی نہیں ہے کہ وبا،بیماری پھیلنے سے قبل انسان جانچ ہی نہ سکے کہ ایسا ہونے والا ہے۔ بلکہ ایسے تاریخی شواہد موجود ہیں کہ انسان کو وبا کے پھیلنے سے قبل کہیں سے کسی نے تنبیہ دے دی تھی۔ ایسے بہت سے لوگ موجود ہیں جنہوں نے آج سے پانچ سال دس سال پہلے وباؤں،بیماریوں کے پھیلاؤ کے خطرے کا باقاعدہ اعلان کیا تھا۔ مثال کے طور پر مشہور امریکی سرمایہ دار بل گیٹس نے 2015ء میں وائرس کے قدرتی اور حیاتیاتی جنگ کے ذریعے جان لیوا وائرس کے پھیلاؤ کے اندیشے کا اظہار کیا تھا۔ نہ صرف یہ بلکہ لاکھوں لوگوں کی اموات کی پشین گوئی بھی کی تھی۔ مزید برآں ایسا نہیں کہ وبا،بیماری کا تدارک نہ کیا جا سکے یا سدباب ناممکن ہے یا پھر اِن کو پھیلنے سے روکنا ممکن نہیں ہے۔

مندرجہ بالا پیراگراف سے صرف ِ نظر برتنا بہرحال ایک کٹھن معاملہ ہے۔ ایسا بھی نہیں ہے کہ امریکی اقتدار، روسی اقتدار، برطانوی اقتدار، جاپانی اقتدار سمیت دنیا بھر کے اقتدار پہ موجود اشرافیہ اِن حقائق سے واقف نہیں ہے  ۔ ایسا بھی نہیں ہے کہ دنیا کا اقتدار وبا،بیماری سے نپٹنے کی صلاحیت،وسائل سے مالا مال نہیں ہے۔ دل یہ بات ماننے کو تیار ہی نہیں کہ امریکی اقتدار کے پاس ڈاکٹروں، نرسوں اور دیگر میڈیکل سٹاف کی حفاظتی سہولیات کی دستیابی کے لیے وسائل،صلاحیت نہیں ہے۔ امریکہ جس کے پاس چین اور جاپان کی مجموعی دولت سے زیادہ دولت ہے۔ امریکہ جو ممالک کے صرف سربراہ ہی نہیں اُن کی سرحدیں تک بدلنے کے وسائل رکھتا ہے۔ امریکہ جس کے پاس سینکڑوں طیارے ہزاروں میزائل لاکھوں گن شپ اور کروڑوں گولیاں ہیں، یہ کیسے ہو سکتا ہے کہ اُس کے پاس میڈیکل سٹاف کو محفوظ رکھنے والے وسائل نہ ہوں۔ ایسا بھی بالکل نہیں کہ عالمی،قومی،علاقائی میڈیا اور حتیٰ کہ سوشل میڈیا پہ بےپناہ خوف اور انتہائی عمیق بےبسی کو جنم دینے والی کرونا کرونا کی مہم،تحریک خودرَو ہے۔ بلکہ ایسا ہے کہ انسانوں کی بےپناہ اکثریت کو خوف کی   بےمثال جہنم میں داخل کرنے والی مہم کو مزید مہمیز کرنے کا سامان کیا گیا۔ ایسا تو بالکل بھی نہیں کہ حکمران اشرافیہ انسان کے مرگِ انبوہِ عظیم پہ ملول ہے۔ بلکہ دنیا بھر کی غالب اکثریت دھڑلے سے ہزاروں لوگوں کی اموات کی پشین گوئی کر رہی ہے۔

مندرجہ بالا دونوں پیراگراف سے صَرفِ  نظر برتنا تو خاصا مشکل کام ہے۔ جو پراڈکٹ مارکیٹ میں بیچی جاتی ہے۔ اس پراڈکٹ کو بیچنے کے لیے اُس کے گاہک ڈھونڈے،تخلیق کیے جاتے ہیں۔ اُس پراڈکٹ کی مارکیٹنگ کے لیے پورا ماحول بنایا جاتا ہے۔ ایک پنکھا بیچنے کے لیے گرمی اور گرمی کے اثرات کو اجاگر کیا جاتا ہے، پھر گرمی اور گرمی کے اثرات کے سدباب کے لیے پنکھا بطور “مسئلے کا حل” پیش کیا جاتا ہے۔ جیسے پنکھا بنانے اور بیچنے والے ادارے ہمہ قسمی “ضروری” میڈیا کا وقت خرید کر عوام یعنی گاہک کے دماغ تک رسائی حاصل کرتے ہیں۔ ہزاروں ارب روپے کی میڈیکل انڈسٹری دراصل اشرافیہ کا مافیا ہے جو عوام میں سے گاہک ڈھونڈنے اور حتیٰ کہ  گاہک بنانے پہ سرمایہ کاری کر رہے ہیں۔ میڈیکل انڈسٹری کے لیے بیماری ایک منافع بخش کاروبار اور بیمار انسان ایک گاہک کے سوا کچھ بھی نہیں ہے۔ ہزاروں ارب روپے عالمی سطح پر طبی سہولیات کے نام پر خرچ کیے جائیں گے۔ ہزاروں ارب روپے کی عالمی سطح پہ ویکسی نیشن ہو گی بلکہ کئی دہائیوں تک مزید ویکسی نیشن اور مزید طبی سہولیات پہ اربوں روپے لگانے کی پلاننگ کی گئی ہے۔ پلان انتہائی فُول پروف ہے۔ جن کے پاس وبا،بیماری کے سدباب کے وسائل ہیں وہ زندہ،صحتیاب رہیں۔ عالمی سطح پہ حکمرانوں نے شروع دن سے کہنا شروع کر دیا کہ عوام خود احتیاط کریں وگرنہ ہمارے پاس کچھ نہیں ہے۔ مثال کے طور پر پاکستان میں حکومتی ٹائیگر فورس کی مخصوص شرٹس اعلان کے دو دنوں کے اندر تیار ہو جاتی ہیں۔ مگر اسی ملک کے میڈیکل سٹاف کے پاس حفاظتی لباس اور ماسک تک جیسی بنیادی سہولیات مفقود ہیں۔ یہ وسائل کی کمی ایک بہانہ ہے، یہ بہانہ اموات اور خوف کی مقدار میں اضافے کا ایک طریقہ ہے۔

حکمران اشرافیہ دوہرے مفاد حاصل کر رہی ہے۔ دہائیوں سے جھوٹ، مکاری، پراپیگنڈا، مسلسل جنگوں اور اقلیت کی بےپناہ ہوس کے نتیجے میں تباہ ہوتی ہوئی غیرمنصوبہ بند معیشت کا سارا الزام کرونا پہ ڈالنا شروع کر دیا ہے۔ فوراً سے پہلے معاشی ماہرین نے کہنا شروع کر دیا ہے کہ رواں سال معیشت کی شرح نمو 1 فیصد رہے گی۔

سوال یہ ہے کہ گزشتہ برس 2۔5 فیصد شرح نمو والی معیشت کو بہتری پہ ڈالنے کی کون سی کاوش کی گئی ہے،تھی؟

تاریخ میں ایسا ہی ہوتا ہے آیا ہے کہ جب معیشت تباہی کے دہانے پہنچتی تھی تو دنیا میں جنگیں چھڑ جاتی تھیں۔ اب سرمایہ دار اشرافیہ نے ایسا طریقہ اپنایا ہے کہ دشمن ظاہر ہی نہیں ہو رہا۔ بلکہ اَن دیکھے دشمن کی وجہ سے حکمران اشرافیہ آسانی سے سارا مدعا اُس پہ ڈال رہی ہے۔ ظاہری دشمن کے خلاف تو کمزور سے کمزور قوم بھی جنگ پہ آمادہ ہو جاتی ہے۔ اَن دیکھے دشمن کی وجہ سے عوام کی غالب ترین اکثریت مزاحمت کی بجائے خوف زدہ رہے گی۔ ایسا ہے کہ پہلے پہل وبا،بیماری دنیا کے جدید ترین ممالک میں پھیل رہی ہے۔ دنیا کا دستیاب جدید ترین نظام صحت وبا،بیماری سے نبردآزما ہے۔ جب وبا ایشیا اور افریقہ کے اُن ممالک میں پہنچے گی جہاں طبی سہولیات تو درکنار زندگی کی بنیادی ضروریات تک دستیاب نہ ہیں تو اموات کی تعداد ہزاروں سے بڑھتے ہوئے لاکھوں تک پہنچ جائے گی۔ دنیا بھر کی عوام بےچینی کا شکار ہو جائے گی۔ انتشار پھیل جائے گا۔ سرمایہ دار اشرافیہ فوراً سے پہلے “امداد،خیرات،انسان دوستی کے نام پہ تھوڑی سی “سرمایہ کاری” کریں گے۔ منافع ملے گا، کالے دھن کو سفید کیا جائے گا اور نیک نامی و انسانی ہمدردی جیسے القابات بھی میسر آئیں گے۔ بحران کے بعد نئی صف بندی میں اپنا “حصہ” مانگنے کا اخلاقی و تاریخی جواز بھی میسر آئے گا۔ مگر اس سے مسائل حل ہونے کا کوئی امکان نہیں ہے۔ ایسا نہیں ہے کہ رعایتی اور سبسڈی اقدامات نہیں کیے جائیں گے، ٹیکسوں میں کمی نہیں ہو گی اور سستے قرضے نہیں دئیے جائیں گے۔ مگر اصل سوال یہ ہے کہ کھپت میں اضافہ کیسے ہو گا؟ سبسڈی اقدامات کے نتیجے میں افراطِ زر کا خطرہ کیسے ٹلے گا۔ ۔ چھوٹے اور درمیانے کاروبار دیوالیہ ہونے سے کیسے بچیں گے؟ لاکھوں بےروزگاروں کے پاس کیا جواز ہوگا؟

Advertisements
julia rana solicitors

ہسپانوی فلو پھیلا تو حکمران اشرافیہ نے جنگ عظیم میں مورال بلند رکھنے کے بہانے چھ ماہ تو وبا کو چھپائے رکھا۔ چین میں، ایران اور اٹلی میں تو ابتدا میں انکار کیا گیا۔ امریکی صدر نے تو گیارہ مارچ تک وبا کی موجودگی سے بھی انکار کیا تھا۔ جب خامنائی سے پوچھا گیا کہ حکومت وبا کے خلاف کیا اقدامات کر رہی ہے تو جواباً انہوں نے دعا کرنے کی نصیحت کی۔ جب سے پاکستان میں وبا پھیلی ہے تو وزیراعظم نے جو اقدامات کیے ان میں چار تقاریر اور عوام کو ڈنڈے مارنے مرغا بنانے کی کھلی چھوٹ دینا سرفہرست ہیں۔ یورو زون نے بجٹ کی پابندیاں اٹھا کر ممالک کو اپنے رحم و کرم پہ چھوڑ دیا ہے۔ اٹلی یونین کو گالیاں دے رہا ہے۔ فرانس و جرمنی نے طبی ساز سامان کی برآمد پہ پابندی لگا دی ہے۔ وہ لوگ تاریخ کے خاتمے کی بات کرتے اور منصوبہ بند معیشت کا نام سنتے ہی ہنسا اور ٹھٹھہ اڑایا کرتے تھے وہ آج کل بےبس، بے یارومددگار، خوفزدہ عوام کو جاہل ثابت کرنے کے جواز تلاش کر رہے ہیں۔

Facebook Comments

فاروق بلوچ
مارکسی کیمونسٹ، سوشلسٹ انقلاب کا داعی اور سیاسی کارکن. پیشہ کے اعتبار سے کاشتکار.

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply