سرائیکی کے سو پسندیدہ اشعار/10،آخری قسط۔۔۔ کامریڈ فاروق بلوچ

ہندوستان پہ قبضے کے دوران برطانوی سرکار نے یہاں کی علاقائی زبانوں پہ خاصی تحقیق کی تھی۔ سرائیکی زبان اور اِس کے ادب پر کام کرنے والے مشہور محقق ایڈورڈ اوبرائن نے اپنی کتاب “گلاسری آف ملتانی لینگویج” 1881ء میں شائع کروائی تھی جس میں وہ لکھتے ہیں کہ “ملتانی (سرائیکی) زبان جھونپڑوں سے اٹھتے دھویں اور گندم کے آٹے کی سوندھی سوندھی خوشبو میں لپٹی ہوئی ہے”۔ سرائیکی شاعری کا سرائیکی خطے کی زمین اور اس کے وسیع لینڈ اسکیپ سے گہرا تعلق ہے۔ زمین سے جنگلی پھولوں کی طرح سرائیکی دل و دماغ سے قدرتی طور پہ پھوٹتی سرائیکی شاعری بھی اپنے دامن میں یہاں کی زمین اور یہاں کی زندگی کے سبھی رنگ رکھتی ہے۔ اوبرائن کی رائے تو سرائیکی شاعری کے قدیم کلاسیکی دور کی تخلیقات کے مطالعے تک محدود ہے۔ پس اگر وہ جدید عہد کی سرائیکی شاعری میں موجود وسیب کے لینڈ اسکیپ، وسیب کی اداسی، یہاں کی مزاحمت اور پھر اِن سے جڑے سرائیکی محبت کے زیروبم کو پرکھتا تو حیرت کے سمندر میں غوطے کھاتا رہتا۔ لیکن بدقسمتی سے سرائیکی شاعری کو جدید عہد میں ادبی تنقید، اور شعراء کے کلام کے نفسیاتی و معروضی جائزے کی شدید کمی ہے۔ کسی بھی ادب کی طرح سرائیکی کے جدید ادب کو تنقید کی شدید ضرورت ہے۔ گیتوں، ماہیوں، ٹپوں، سمی، دوہڑوں اور کافیوں والی سرائیکی شاعری نے نظم معریٰ، آزاد نظم، نثری نظم، ہائیکو اور خصوصاً غزل کو اَپنا کر سرائیکی شعری روایت کو بالکل نیا آہنگ دیا ہے۔ قدیم اور جدید سرائیکی شاعری کے اِس تعلق، اِس کے ارتقاء، اِس کے اسباب، اور اثرات کے ادبی تنقیدی جائزے کی اشد ضرورت ہے۔ سرائیکی کے سو پسندیدہ اشعار کے سلسلے کی آخری قسط حاضر خدمت ہے۔ آغاز سک دا ساوݨ، ارشد دے ݙوہڑے، اکھیں خواب جگارے، دھمال، آسرا فقیریں دا جیسے شعری مجموعوں کے خالق ‘امان اللہ ارشد’ کے شعر سے کرتے ہیں۔ امان اللہ ارشد کی شاعری تمام وسیب میں کُوک بن کر گونجتی ہے۔ صوفی فیض محمد دلچسپ جیسے استاد کے فیض اور خاص دلچسپی نے امان اللہ ارشد کے خیالات کو معتبر زبان بخشی۔ سرائیکی خطے کے پہاڑ ہوں، رہگزار ہوں، دریا ہوں ہر جگہ امان اللہ ارشد کے شعر گائے جاتے ہیں، سنائے جاتے ہیں، یاد رکھے جاتے ہیں۔ اُن کا شعر دیکھیے کہ:
محبت بے ریا جذبہ نہ کوئی تسبیح نہ کوئی سجدہ
وفا والیں مسیتیں دے اتے مینار کوئی کائنی
(محبت بےریا جذبہ نہ کوئی تسبیح نہ کوئی سجدہ
وفا والوں کہ مسجد پر منیار ہوا نہیں کرتے)
شاکر شجاع آبادی کے اپنے شعری معیار کے ساتھ ساتھ اُن کی شہرت کے کئی دیگر عوامل بھی ہیں۔ بہرحال اُن کو جس سطح کی شہرت میسر آئی وہ اُن کے دوسرے ہم عصر شعراء میں بس چند ایک کو میسر آئی۔ غیرسرائیکی آبادی کی وسیع پرت بھی شاکر شجاع آبادی کے نام سے واقف ہے۔ وہ گذشتہ چالیس سال سے مشاعرے میں سرائیکی شاعری سنا رہے ہیں۔ بیس بائیس سال کے شعری سفر کے بعد 2007ء میں انہیں صدارتی ایوارڈ سے نوازا گیا اور 2017ء میں دوسری مرتبہ صدارتی ایوارڈ دیا گیا۔ 1994ء کے بعد سے وہ خود بولنے کی صلاحیت سے محروم ہیں لیکن انہوں نے سرائیکی محرومیوں اور سرائیکی جذبات کی عکاسی کے لیے الفاظ کو زبان عطا کی ہے۔ ایک سوال کا جواب کچھ یوں دینے والے “میرا مسئلہ صرف سرائیکی وسیب نہیں ہے بلکہ میں پوری دنیا کے مظلوم لوگوں کی بات کرتا ہوں چاہے کوئی کافر ہی کیوں نہ ہو” شاکر شجاع آبادی کا مشہور شعر ملاحظہ فرمائیں کہ:
‏بہتر حور دے بدلے گزارا ہک تے کر گھنسوں
اکہتر حور دے بدلے اساکوں رج تے روٹی دے
(بہتر حوروں کے بدلے گزارا ایک پہ کر لیں گے
اکہتر حوروں کے بدلے ہمیں پیٹ بھرنے والی روٹی دے)
ڈیرہ غازی خان کے نوجوان شاعر مختیار لغاری جنکی شاعری کی جڑیں کلاسیکی شعری روایت میں پیوست ہیں کا شعر ملاحظہ فرمائیں:
کوئی سکھ دا لحظہ آیا نئیں
اساں آپ کوں آپ ہنڈھایا نئیں
( کوئی سُکھ کا لمحہ آیا نہیں
ہم نے خود کو آپ جیا نہیں)
راقم کی ذاتی رائے میں عبدالرشید اشتر سرائیکی شاعری کی روایتی اصناف میں جدید شاعری کرنے والے بلند ترین شاعر ہیں۔ جب سرائیکی شعراء کرام اردو اصناف خصوصاً غزل اور نظم کی طرف جانے لگے تو اشتر نے ڈوہڑے پہ خصوصی توجہ دی۔ اشتر سرائیکی کے ارتقائی عہد کا معتبر نام ہے جس نے سرائیکی کی شعری روایات کی یوں پاسداری کی کہ جدید عہد کے معاملات زیر بحث لاتے ہوئے کہیں مفاہمت نہیں کرنی پڑی۔ اشتر کی شاعری محض کاغذ کے ٹکڑے پر الفاظ کی شاعرانہ ترتیب نہیں ہے بلکہ “سرائیکی شعور کی تبدیلی کے احساس” کا شاعرانہ اثر ہے۔ اگر اشتر کی شاعری کے عمیق مطالعہ کا ‘بندوبست’ کیا جائے تو ہم جان سکیں گے کہ انفرادی اور سماجی تبدیلی کا راستہ کھولنے کے لیے وہ اپنی شاعری میں انسان کی انفرادی اور سماجی زندگی کی معروضی حقیقتوں کے تصورات کو اظہار کا موقع دیتا ہے۔ پھر اشتر نے اپنی شعری انداز کو مہارت کے ساتھ استعمال کیا تاکہ اُن جذبات کو واضح اظہار ملے جنہیں بصورت دیگر واضح طور پر دیکھنا مشکل ہو سکتا ہے۔ علاوہ ازیں اشتر نے ان احساسات کو اپنی شعروں میں پرویا ہے جن کا ہم سب نے تجربہ کیا ہے لیکن شاید ہم بیان کرنے سے قاصر رہے ہیں۔ ایک طرح سے اشتر کی شاعری ‘معروضی تفتیش’ ہے جو مبہم پیچیدہ جذبات سے گریز کی بجائے اُن کی جز بجز تفتیش کرکے نتائج اخذ کرتی ہے۔ یوں ان کی شاعری فرد پر اتنا ہی تبصرہ کرتی ہے جتنا سماج پر کرتی ہے۔ اشتر کے موضوعات خوبصورت ہوتے ہوئے بھی اداس ہیں۔ دریا کنارے پر ایک دوسرے کے ساتھ بیٹھے دو لوگوں کے درمیان تعلق کے ساتھ ساتھ سماج میں طبقاتی تقسیم کے بارے میں بھی شعر لکھے ہیں۔ اشتر کے تجربات موثر ہیں کیونکہ یہ بہت عام ہیں۔ وہ روزمرہ کی ‘سرائیکی زندگی’ میں جذباتی سچائیوں کو دریافت کرکے انہیں انسانی افعال کے ساتھ جوڑ کر پرکھتا ہے۔ مثلاً وہ سڑک پر کسی بے گھر شخص کو دیکھ کر، یا ماضی کی غلطی کو یاد کرکے شعر کہتا ہے۔ اسی لیے اس کے شعر ناگزیریت کا ایک خاص احساس پیدا کرتے ہیں۔ سرائیکی کے بہترین شاعر عبدالرشید اشتر کا شعر دیکھیے کہ:
ﺗﻮﮞ ﺷﮩﻨﺸﺎﮦ ﮨﺌﯿﮟ ﺗﯿﮑﻮﮞ ﺁﮐﮭﻨﮍ ﻣﯿﮑﻮﮞ ﺍﭼﮭﺎ ﻧﮩﯿﮟ ﻟﮕﺪﺍ
ﺗﯿﮉﮮ ﺑﺎﻧﺪﯾﮟ ﺗﮯ ﺑﺮﺩﯾﮟ ﺩﯼ ﻃﻠﺐ ﮐﯿﺎ ﮬﮧ ﮐﮉﺍﮨﯿﮟ ﺳﻮﭼﯽ
(تم شہنشاہ ہو تمہیں کہنا مجھے اچھا نہیں لگتا
تمہارے غلاموں اور ملازموں کی طلب کیا کبھی سوچا ہے؟)
اگر عمر خیام یا حافظ شیرازی سرائیکی ہوتے تو یقیناً ڈوہرہ لکھتے مگر احمد خان طارق نے سرائیکی سامعین کو خیام و حافظ کہ کمی محسوس نہیں ہونے دی۔ میں تو سوچتا ہوں اگر سرائیکی شاعری میں سے احمد خان طارق کو منہا کر دیا جائے تو پیچھے کیا رہ جائے گا؟ مشاعروں میں احمد خان طارق کے ہاتھوں پہ بوسے دئیے جاتے تھے مگر وہ خود انتہائی عاجزی کا مظاہرہ کیا کرتے۔ بیرون ملک سرائیکی سامعین نے چندہ کرکے احمد خان طارق کو وہاں مشاعرے پہ یوں بلایا کہ استقبال و الوداع یادگار واقعات ٹھہرے۔ سرائیکی کی بنیادی اصناف یعنی کافی اور ڈوہڑے سے والہانہ عشق کرنے والے احمد خان طارق کہتے تھے کافی لکھ کر کئی کئی دن تک سرشاری طاری رہتی ہے۔ عاجزی، مونجھ (محبوب کی یاد) اور بیٹ (دریا کی قریبی آبادی) کے حسن سے مالا مال طارق کے ڈوہڑے پہ معیاری تنقید ہی میسر نہیں آ رہی۔ ابھی اُن کی کافیوں اور غزلوں کی باری آنی ہے۔ مجھے یہ کہنے میں کوئی تامل نہیں کہ احمد خان طارق نے سرائیکی ادب میں مخصوص سرائیکی رومانس اور سرائیکی تہذیبی اقدار کو جس طرح جوڑ کر پیش کیا ہے وہ بےمثال ہے۔ اُن کی شعری رومانویت جذبات اور انفرادیت پر زور دینے کے ساتھ ساتھ فطرت کی خوبصورتی اور سرائیکی تہذیب کے ارتقائی سفر کو بھی شامل کرتی ہے۔ اُنکی شاعری جزوی طور پر جاگیردارانہ سماج میں برپا ہونے والی تبدیلیوں، روشن خیالی کے سماجی اور سیاسی اصولوں، اور فطرت کی سائنسی عقلیت کا ردِ عمل ہے۔ احمد خان طارق سرائیکی وسیب میں جدیدیت، بصری فنون، موسیقی اور ادب حتی کہ تاریخ نگاری، تعلیم، سماجی علوم اور قدرتی علوم پر اپنا اثر مرتب کر چکے ہیں۔ اُنکے شعری کمال نے سیاست پر بھی ایک اہم اور پیچیدہ اثر ڈالا، جس نے رومانوی مفکرین، قدامت پرستی، لبرل ازم، بنیاد پرستی اور قوم پرستی کو متاثر کیا۔ طارق سرائیکی شاعری کے جمالیاتی تجزیے کے مستند ذریعہ کے طور پر انسانی جذبات پر شعر کہتے تھے۔ مثلاً خوف، مونجھ اور محبت جیسے جذبات کو اپنے خالص انداز میں بیان کرتے تھے۔ خاص طور پر فطرت کی دلکشی اور خوبصورتی کے اظہار کے نئے جمالیاتی زمروں کو ایجاد و دریافت کیا۔ طارق کے اکثر موضوعات لمحہ موجود سے متعلق ہیں اور اُس کے کلچر سے جڑے ہوتے ہیں۔ چاہے وہ ایڈونچر، غربت، انسان پر انسان کا استحصال، ناانصافی، آزادی، نسل پرستی، عورت کے مقام، ٹیکنالوجی کے اثرات اور خدا کے ہماری زندگیوں میں اثرات جیسے موضوعات ہوں چاہے عورت اور مرد کی محبت ہو، سماجی جبر کے سرائیکی محبت پہ اثرات ہوں، بتدریج دم توڑتی ہوئی قربانی کی اقدار ہوں طارق کے استعارے اور شعری تشکیل اُس کے کلچرل کینوس سے باہر نہیں نکلتے۔ اُس کے شاعری میں کلچر اور رومانس پہ کہیں کوئی مفاہمت نہیں دیکھی جا سکتی۔ احمد خان طارق کے اعلی ترین شعروں میں ایک سادہ شعر ملاحظہ فرمائیں کہ:
اپنڑاں حال سنڑا توں سینگھی
ساڈو مینہ ہا کنڑدا رہ گئے
(اپنا حال سناؤ تم سہیلی
ہماری طرف بارش تھی شور رہا)
شاکر مہروی نے تمام اصنافِ سرائیکی ادب میں طبع آزمائی کی ہے۔ وہ اپنے عہد کی تمام سرائیکی مجالس میں جانے جاتے تھے۔ سرائیکی کی ترویج سے والہانہ محبت رکھنے والے شاکر مہروی کا شعر دیکھیے کہ:
ہکی جاہ تے کھڑ گئیں کیہری ضد تے اڑ گئیں
ایویں کہیں کوں تھڈے ڈیواونڑ دا فائدا
(ایک جگہ پہ رک گئے ہو کس ضد پہ اڑ گئے ہو
ایسے کسی کو دھکے دینے کا فائدہ؟)
اشو لال سرائیکی کا ایسا جدید ترین چہرہ ہے جو روایات کے غازے کو پسند کرتا ہے۔ اشو لال موجودہ سرائیکی دانش کی کشتی کا ملاح بنا ہوا ہے۔ اُس کا شعر دیکھیے کہ:
میلے کپڑے ول ول بیٹھا دھوندا ہے
دھوونڑ والا اندر اپڑاں دھوندا نئیں
(میلے کپڑے بار بار بیٹھا دھوتا ہے
دھونے والا اندر اپنے کو دھوتا نہیں)
اقبال سوکڑی سرائیکی کے ایسے معتبر شاعر ہیں جن پہ تنقید کرکے لوگ اپنی دوکان بڑھا جاتے ہیں۔ معترفین سے زیادہ معترضین کے ہاں مقبولیت رکھنے والے اقبال سوکڑی کا شعر دیکھیے کہ:
میں تیکوں پہلے نہ آکھیا ہا میڈا گھر توں نہ ڈیکھ،
توں میڈے گھر وت نہ ول آسیں میڈا گھر ڈیکھ کے۔
(میں نے تمہیں پہلے کہا نہ تھا میرا گھر تو نہ دیکھ
تو میرے گھر لوٹ کر نہ آئے گا میرا گھر دیکھ کر)
ملتان کے شہزادہ آصف علی گیلانی کے نوجوان ملتانی شاگرد ملک جاوید سندھڑ جنہیں سرائیکی مشاعرہ جاوید شانی کے نام سے جانتی ہے کا شعر دیکھیے کہ:
کئی رنگ شاعری دے پڑھدے ہیں
پر وکھری چس ہے ڈوہڑے وچ
(کئی رنگ شاعری کے پڑھتے ہیں
مگر منفرد لطف ہے ڈوہڑے میں)
جاتے جاتے شاد فقیر کا سیاسی شعر دیکھتے جائیے کہ:
بس اڑ ونج اپڑیں حق تے شاد
بنڑے جے تیں سرائیکستان نہیں
(بس اڑ جاؤ اپنے حق پہ شاد
بنتا جب تک سرائیکستان نہیں)

Facebook Comments

فاروق بلوچ
مارکسی کیمونسٹ، سوشلسٹ انقلاب کا داعی اور سیاسی کارکن. پیشہ کے اعتبار سے کاشتکار.

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply