یاداشت۔۔شاہین کمال

کم عمری کا اپنا ہی ہڑونگا پن ہے۔ اس وقت ماں باپ کی قربانیوں اور ان کی جد وجہد کا شعور نہیں ہوتا۔ اولاد بجائے احسان مند ہونے کے ان آسائشوں کو ان کی محبت نہیں بلکہ اپنا حق گردانتی ہے۔ اپنے ماں باپ کی محبت کوئی انوکھی و الواہی نہیں لگتی بلکہ ذہن کے کسی گوشے میں یہ خناس بھی سرسراتا ہے کہ کون سی بڑی بات ہے ! سب ہی ماں باپ ایسا کرتے ہیں ۔ والدین وہ بد نصیب جن کی محبتوں کو ہمیشہ فور گرانٹیڈ لیا جاتا ہے۔
مگر۔۔۔
مگر صرف اسی وقت تک جب تک کہ ان کے جوتے آپ کے پیروں میں فٹ نہیں آجاتے۔ جب آپ خود والدین کے درجے پر فائز ہوتے ہیں اور وہ سب کچھ اپنی اولادکے لیے اسی توجہ اور پیار سے کرتے ہیں جو آپ کے والدین آپ کے لیے کیا کرتے تھے تب اس حقیقت کا احساس ہوتا ہے کہ

یہ عشق نہیں آساں بس اتنا سمجھ لیجے
اک آگ کا دریا ہے اور ڈوب کے جانا ہے

یہ شعور تب جاگتا ہے کہ ماں باپ کیسی انمول ہستیاں ہوتے ہیں ۔ یہ وہ بے لوث لوگ ہیں جو اولاد کے درخشاں مستقبل لیے اپنے شوق، ولولے اور خوشیاں تک قربان کر دیتے ہیں، اپنی ہستیاں مٹا دیتے ہیں۔ وائے افسوس کہ ہم جب تک اس حقیقت کے  ادراک تک پہنچتے ہیں، اس وقت تک ہم میں سے بیشتر اپنے ماں باپ کو کھو کر کف افسوس ملتے رہ جاتےہیں ۔

آج بیٹھے بیٹھائے کلکتہ کا سفر یاد آیا اور اس کے ساتھ بہت کچھ یاد آیا۔

دسمبر 1972 کے اوائل میں جب ہم لوگ بنگلہ دیش سے کلکتہ پہنچے تو معیاری ہوٹل میں رہنے کی اوقات نہیں تھی اور معمولی ہوٹل میں پاپا لڑکیوں کی ہمراہی کے سبب رہنا نہیں چاہتے تھے۔ انکل وارث نے کلکتہ میں اپنے ہم زلف عمران فضل الرحمان کے گھر کا پتہ اور ان کے نام ایک خط دیا اور کہا کہ کمال ایک دو دن ہی کی تو بات ہے ، تم عمران کے گھر قیام کر لینا۔

ہم لوگ رات کے وقت کلکتہ پہنچے اور پارک لین میں عمران صاحب کی شاندار کوٹھی ڈھونڈنے میں چنداں دشواری نہ ہوئی۔ دھڑکتے دل سے پاپا نے اطلاعی گھنٹی بجائی، نوکر نے دروازہ کھولا۔ پاپا نے عمران صاحب کا پوچھا اور نوکر کو وہ چٹھی دے دی۔ امی اور ہم تینوں بہنیں ٹیکسی میں امید و بیم کی حالت میں سک دم بیٹھے تھے کہ کلکتہ کی کہر زدہ رات بھیگتی جا رہی تھی۔ اتنے میں گیٹ پر کھٹر پٹر ہوئی اور بڑا پھاٹک کھول کر صاحب خانہ خود باہر تشریف لائے اور پاپا سے مصافحہ کرتے ہوئے نوکر کو ٹیکسی سے سامان اتارنے کے لیے کہا۔ اب سامان کے نام کی تہمت پر ہمارے پاس صرف ایک عدد ٹین کا بکسہ ہی تھا۔ ہم لوگ مہمان خانے میں پہنچائے گے اور دانہ پانی کے لیے بھی پوچھے گئے ۔ پاپا نے اس سوال کو خوب صورتی سے ٹال دیا۔ یقیناًنوکروں نے اس بے وقت کی مشقت سے بچ جانے پر سُکھ کا سانس لیا ہو گا۔

صبح ناشتے پر میزبان سے ملاقات رہی اور انہوں نے آداب میزبانی بڑے احسن طریقے سے نبھائی۔ ان کی بیگم ان دنوں اپنے میکے پٹنہ گئی ہوئی تھیں ۔ پاپا نے ناشتے کے بعد ان سے کلکتہ کے مشہور مقامات کا پوچھا۔ پھر پاپا اسٹیشن چلے گئے پٹنہ کی ٹکٹیں خریدنے اور ہم لوگوں سے کہتے گئے کہ تم سب تیار رہنا، اسٹیشن سے لوٹتے ہی ہم سب گھومنے پھرنے چلیں  گے۔ میری تو خوشی کا عالم نہ پوچھیے کہ پچھلے ایک سال سے گھر میں قید تھے۔ ناشتے کے بعد ہم، عمران صاحب کے گھر کی طویل بالکونی میں کھڑے ہوکر کھلا آسمان اور سامنے مصروف سڑک پر چلتے پھرتے ہشاش بشاش لوگوں کو دیکھ دیکھ کر خوش ہوتے رہے۔ شاید کوئی میڈیکل کالج قریب ہی تھا کہ سڑک پر زیادہ تر طالب علم ہی نظر آ رہے تھے۔ اس کھلے آسمان تلے کھڑے ہو کر دہشت سے مکت ہونے کا احساس ہی بہت فرحت بخش تھا۔ پاپا کو پٹنہ کے لیے اگلے دن رات کی ٹکٹیں ملی تھیں۔

ان دو دنوں میں ہم لوگوں نے دو فلمیں دیکھیں۔ پہلی تو مشہور عالم پاکیزہ تھی اور اتفاق سے دوسری فلم بھی مینا کماری ہی کی تھی، نام تھا کاجل۔ فلموں کے ہم بچپن ہی سے رسیا ہیں مگر پاپا کے ساتھ دیکھی جانے والی شاید یہ دوسری فلم تھی۔ بہت بچپن میں  دیکھی گئی ایک فلم کی دھندلی سی یاد باقی ہے۔ بڑے سے پردےپر پہلی بار مینا کماری کو دیکھا اورlove at first sightکے مصداق دل ہار گئے۔ فلم کی کہانی تو خاص نہ تھی مگر مینا کماری کا حسن، آواز کا لوچ اور ٹھہراؤ اور اس کی پرفیکٹ ڈائیلاگ ڈیلوری جان لیوا تھی۔ اس فلم کا اصل اثاثہ اس کے گانے تھے۔ ایک سے بڑھ کر ایک گانے اور شاندار سیٹ۔ بلاشبہ کمال امروہوی نے اس فلم کو بنانے میں جان لڑا دی تھی ۔ ان دنوں شاید پورے ہندوستان میں صرف پاکیزہ ہی کے  گانے بجتے تھے، جدھر سے گزرو ” موسم ہےعاشقانہ” یا ” یونہی کوئی مل گیا تھا سرِ راہ چلتے چلتے” سنائی دیتا تھا۔ یہ ایسے امر گیت ہیں جن کا سحر آج بھی دل کو جکڑ لیتا ہے۔ فلم کاجل تو یاد بھی نہیں کہ کیسی تھی۔ اتفاقاً آج یو ٹیوب پر فلم کاجل نظر آئی تو بے ساختہ سیو کر لیا کہ جب فرصت ہو گی تو دیکھ لیں گے کہ ماضی کو دہرانے کا اپنا ہی مزہ ہے۔ پاکیزہ بلا مبالغہ ایسی فلم ہے کہ آج بھی جب خوبصورت لہجہ اور اچھی و معیاری اردو سننے کا جی چاہتا ہے تو ہم پاکیزہ لگا لیتے ہیں ۔

یہ سارا قصہ یوں سنایا کہ ہم بڑے ہونے کے بعد بھی حیران ہوتے تھے کہ پاپا نے کلکتے میں دو دنوں میں ہم لوگوں کو دو فلمیں کیوں دکھائیں ؟
اس کا جواب عرصے بعد سمجھ میں آیا، پاپا ہم بہنوں کو اس اجنبی ملک میں لوگوں سے چھپانا چاہتے تھے۔ اسی لیے پہلے انہوںplanetarium کا انتخاب کیا ، دو گھنٹے کا شو ہم لوگوں نے وہاں دیکھا پھر تین گھنٹے کی فلم دیکھی ، یوں اندھیرے میں پانچ ساڑھے پانچ گھنٹے گزر گئے۔ پاپا نے اپنی حکمت عملی سے ہم لوگوں کو تفریح بھی کروائی اور لوگوں کی نظروں سے بھی اوجھل رکھا ۔

Advertisements
julia rana solicitors london

ماں باپ بیچارے کتنا جتن کرتے ہیں۔ ہم آج سوچتے ہیں تو امی پاپا کے لیے دل کٹتا ہے  کہ ان لوگوں کے لیے سقوط مشرقی پاکستان کتنا قیامت خیز وقت تھا۔ گھر اور کاروبار لٹا سو لٹا مگر ہم تینوں کی حفاظت نے یقیناً ان کی نیندیں اڑ دی  ہوں گی۔
اللہ تعالیٰ انہیں دار باقی میں دنیا میں اٹھائی گئی معمولی سے  معمولی مشکلات اور دکھ کا بیش بہا اجر دے اور انہیں جنت الفردوس میں اعلیٰ ترین مقام عطا فرمائے آمین ثمہ آمین ۔

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply