دو کہانیاں /قیوم خالد

(1)ٹوپی، کُرتا اور پاجامہ

”آم لے لو آم،میٹھے آم، ملغوبہ آم۔”
یہ آوازسُنکرمنوج کُمار غُصّہ سے کھول گیا۔ کل رات ہی وہ نریش ورما کی تقریر سن  کر آیا تھا کہ ”یہ ایسے نہیں سُدھریں  گے، مسلمانوں کا ہر طریقہ سے بائیکاٹ کرنا چاہیے،نہ اُن سے کوئی چیز خریدنی چاہیئے اور نہ ہی اُنہیں کِسی قِسم کی نوکری،کام یا مزدُوری دینی چاہیے”۔

وہ گیٹ کھول کر باہر نِکل آیا،ایک نوجوان لڑکا کُرتا پاجامہ پہنے سر پر ٹوپی لگائے آم بیچ رہا تھا۔ منوج نے آؤ دیکھا نہ تاؤ، اُسکا ٹھیلہ اُلٹ دِیا اور گالیاں دینا شروع کردِیں۔”ارے حرامزادے، ماں کے۔۔بہن۔۔۔ اگرکل سے تُو اِس گلی میں بلکہ اِس کالونی میں نظر آیا تو تیری ٹانگیں توڑ دوں گا۔ ”

آم والے کو غُصّہ تو بہت آیا لیکن وہ پی گیا، اُسکا جی چاہ رہا تھا وہ نیچے پڑی ہُوئی چُھری  لیکر منوج کے پیٹ میں گھونپ دے، لیکن اُس نے ٹھیلے کو سِیدھا کیا اور آم سمیٹنے لگا۔کالونی میں جِدھر بھی گیا اُسے لوگوں کی آنکھوں میں خُصُومت نظر آئی۔ہفتہ بھر وہ جِدھر بھی گیا یہی حال رہا۔ لوگ اُس سے آم لینے سے کترانے لگے تھے۔ نریش ورمانے تقریر تو ایک ہی جگہ کی تھی مگر ٹی وی کے ذریعہ سے گھر گھر پہنچ گئی تھی۔

بِالآخر اُس نے سوچا کہ وہ بازار میں چوراہے پر ٹھیلہ لگالیا کرے گا۔ مگر وہاں کا عالم بھی عجیب تھا۔ ہر ایک کی ایک جگہ مخصوص تھی، کوئی دُوسرا وہاں نہیں ٹھہر سکتا تھا۔ اُس نے ایک خالی جگہ چُن کر اپناٹھیلہ لگالیا اور آم کی باقی پیٹیاں اُس نے ٹھیلے کے نیچے جما دیں۔ اُسکا کُرتا پاجامہ اور ٹوپی دیکھ کر کُچھ لوگ چوکنّے ہوگئے۔اُس نے آتے وقت سوچا تھا کہ آج پتلون قمیص پہن لے،پھر اُسے ایک تقریر یاد آگئی۔”آپ پہچانتے ہیں کہ یہ کون لوگ ہیں، انہیں آپ اُنکے کپڑوں اور ٹوپی ہی سے پہچان  سکتے ہیں ”۔ یہ سالے ہماری تہذیب اور رہن سہن بھی چھین لینا چاہتے ہیں اُس نے سوچا۔

تھوڑی دیر بعدایک ٹھیلے والا آیا اور اُس سے کہنے لگا تُو یہاں کیوں کھڑا ہے؟ یہ میری جگہ ہے۔

”اگر یہ تُمہاری جگہ ہے تو جلدی آنا چاہیے تھا اب تو یہ میری ہے”۔ دونوں میں اچھّی خاصی تکرار ہوگئی۔ آنے والے نے کہا ٹھہر ابھی آتا ہوں۔وہ گیا اور ایک پولیس  کے جمعدار کو لیکر آیا۔

جمعدارنے آتے ہی اُس پر رعب جھاڑا ”کون ہے بے تُو؟ نیا ہے کیا؟ یہ روز یہیں کھڑا رہتا ہے۔ چل بڑھا اپنا ٹھیلہ یہاں سے”۔ وہ ٹس سے مس نہیں ہُوا۔ تیرے کو ابھی یہاں کا قانون نہیں معلوم۔ پِھررسان سے سمجھانے لگا” ذرا آگے بڑھ کے لگالے اپنا ٹھیلہ،وہ آگے اِتنی جگہ خالی ہے۔ ”

اُس نے بھی جمعدار کی بات مان لی اور اپنا ٹھیلہ آگے بڑھا کر لگادِیا۔ اپنی  باقی پیٹیاں اُٹھانے  کے لیے   پلٹنے تک اُس نے دیکھا کہ اُسکی ساری پیٹیاں لوگوں نے لُوٹ لیں۔وہ پیٹیوں کی طرف بھاگا۔ وہ ابھی سنبھلا بھی نہ تھاکہ لوگوں نے اُسکا ٹھیلہ بھی لُوٹ لیا۔ اُ س نے بے بسی سے جمعدارکی طرف دیکھا۔ جمعدار بے تحاشا  ہنس رہا تھا۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

(2)ایک انٹرنیشنل شادی
حیدرآباد میں ایک شادی ہوئی۔ دُلہا نیویارک سے آیا۔دُلہے کے ماں باپ اور بہن شارجہ سے آئے۔بڑا بھائی بوسٹن سے آیا، اُسکی جرمن بیوی حاملہ ہونے کی وجہ سے نہیں آسکی۔دونوں نے ماں باپ کی رضامندی کے بغیر پسند کی شادی کی تھی اِس وجہ سے بھی وہ آنے سے گھبرارہی تھی۔تایا ابّواور تائی ممّی شِکاگو سے آئے۔ دُلہے کے ایک ماموں اور اُنکا خاندان کیلیفورنیا سے آیا۔ ایک اور ماموں سنگاپور سے آئے۔ اُنکا بیٹا لازمی فوجی ٹرینِنگ کی وجہ سے نہیں آسکا اور اِسی وجہ سے مما نی بھی نہیں آسکیں۔ ایک کزن معہ اہل وعیال ٹینیسی سے آئے ۔

دُلہن لندن سے آئی، جہاں وہ میڈیسن کے آخری سال کی پڑھائی کررہی تھی۔ دُلہن کے والدین جِدّہ اور بہن دُبئی سے آئی۔ البتہ دُلہے کی خالہ زاد کزن جس نے یہ پیام لگایا تھا وہ لندن سے بوجہ مصروفیت نہیں آسکی۔

بہت ہلّہ گُلہ ہُوا ڈھیر ساری انگریزی بولی گئی، دُوسرانمبر اُردو کا رہا۔ تمِل بھی بولی گئی کہ دُلہن کے خاندان میں بہت سے مدراسی بھی تھے۔ دُلہن کے تایا جو مدراس (چُونکہ مُجھے چِنّئی لِکھنا نہیں آتا مدراس لِکھ رہا ہُوں) سے آئے تھے اُنھیں شِکایت تھی کہ ولیمہ کا وقت سات بجے کا تھا اور میزبان خُود نو بجے تشریف لائے۔ ہمارے مدراس میں سات بجے کا مطلب سات بجے ہوتا ہے(اِسی لئے مدراس میں نواب نہیں ہوتے)۔ اُنہیں سمجھایا گیا کہ نو بجے غنیمت ہے ورنہ سات کے گیارہ بھی بج جاتے ہیں۔ وہ چیں بہ جیں ہو کر خاموش ہوگئے۔

ہاں ایک خاص بات شادی کی یہ تھی کہ کوئی بھی خِلاف شرع بات نہیں ہُوئی کیونکہ دُلہن کے دادا (اگرچہ اب حیات نہیں تھے) اپنے وقت میں تبلیغی جماعت کے سربراہ تھے۔ دُلہے کہ والِد بھی شرع کے پابند اور داڑھی کاٹنے کے قائل نہیں تھے چاہے کِتنی بھی لانبی ہوجائے۔ اور دونوں خاندانوں میں بہت سے لوگ صوم وصلوٰۃ کے پابند اور اکثر خواتین حِجابی اورنقابی تھیں۔بنیاد پرست بہت تھے لیکن کوئی بھی دہشت گرد نہ تھا۔

شادی خیر و خوبی سے انجام کو پہنچی۔ شادی کے دو دِن بعدجو کزن ڈالاس سے آئی تھی وہ واپس لوٹ گئی۔ چار دِن بعد بڑے بھائی نے اپنا سُوٹ کیس اُٹھایا اور بوسٹن چل دیا۔ دو اور دِن بعدکیلیفورنیا والے ماموں اور اُنکا خاندان رُخصت ہوگیا مُمانی ڈاکٹر تھیں اور نہیں رُک سکتی تھیں۔تائی ممّی چار دِن اپنے بہنوں کے پاس چلی گئیں اور پھرتایا ابّواور تائی ممّی شِکاگو روانہ ہوگئے۔ سِنگاپُور کے ماموں کب گئے پتہ ہی نہ چلا۔ دُلہن لندن لوٹ گئی کہ اُسکی پڑھائی کا حرج ہو رہا تھا۔دُلہا بھی ساتھ ہولیا وہ لندن سے آن لائن جاب کرنے والا تھا۔ ایک دِن بعد دُلہن کے ماں باپ جدّہ چلے گئے،باپ کو باس کے فون پر فون آرہے تھے۔ایک اور دِن بعد دُلہے کے باپ، جو کہ آرکیٹکت تھے چلے گئے،  سب سے آخر میں دُلہے کی ماں اور بہن نے سارے گھر کی صفائی کرائی، دھول سے بچاؤکیلئے فرنیچرپر چادریں بچھوائیں،نوکروں کو اِنعامات سے نوازا، گھر کو لاک لگایا،چابی پرس میں رکھ کر شارجہ کیلئے نکل گئے۔ رہے نوکر وہ پانچویں جمعگی کو ڈھول بجانے کیلئے ایک جگہ جمع ہونے کا وعدہ کرکے اپنے گھروں کو چلے گئے۔

Advertisements
julia rana solicitors london

نوٹ:اگر لوگ بُھول گئے ہیں تویاد رکھیں ایک نسل پہلے شادیاں پانچ ہفتوں تک چلتی تھیں۔

Facebook Comments

مکالمہ
مباحثوں، الزامات و دشنام، نفرت اور دوری کے اس ماحول میں ضرورت ہے کہ ہم ایک دوسرے سے بات کریں، ایک دوسرے کی سنیں، سمجھنے کی کوشش کریں، اختلاف کریں مگر احترام سے۔ بس اسی خواہش کا نام ”مکالمہ“ ہے۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply