• صفحہ اول
  • /
  • ادب نامہ
  • /
  • ظلمت سے نور کا سفر(قسط13)۔۔۔محمد جمیل آصف ،سیدہ فاطمہ کی مشترکہ کاوش

ظلمت سے نور کا سفر(قسط13)۔۔۔محمد جمیل آصف ،سیدہ فاطمہ کی مشترکہ کاوش

جلا کے مشعل جاں ہم جنوں صفات چلے
جو گھر کو آگ لگائے ہمارے ساتھ چلے
دیار شام نہیں منزل سحر بھی نہیں
عجب نگر ہے یہاں دن چلے نہ رات چلے

آج اُسے نفسیاتی ہسپتال میں داخل ہوئے دو دن ہو چکے تھے ۔۔۔ خونی رشتوں کی بے حسی سے روحانی گھاؤ اس کی ذات کو ریزہ ریزہ بکھیر رہی تھی، ہر گزرتا لمحہ نفسیاتی اذیت میں اضافے کا باعث بنتا چلا جا رہا تھا ۔
ایک ہی احساس “کیا وہ پاگل ہے؟ ”
“نہیں”
وہ چلّاانے کے انداز سے بولی، لیکن اپنی آواز پر قابو رکھنے کی کوشش میں چہرہ سرخ ہو گیا ۔شدت کے ساتھ آمنہ کو یاد کرنے لگی ۔ لان بارش کی وجہ سے نکھرا ہوا تھا ۔نم گھاس کا سبز رنگ کھلا کھلا ، پھولوں اور دیگر پودے کے ساتھ لان کی خوبصورتی میں اضافہ کر رہے تھے۔ بارش نےمردہ ہوتی گھاس اور مرجھاتے پھولوں میں روح پھونک دی تھی۔
“میری مردہ ہوتی روح کو بھی ایسی ہی بارش کی ضرورت ہے؟”
اس نے سوچا!!!
زندگی میں خیالات بھی بارش کی طرح برستے ہیں اور رویے انسانی زندگی کی زمین پر کھاد کا کردار ادا کرتے ہیں ۔منفی سوچیں، پست ہمتی، تلخ رویے اور خود غرضی ایسی موسلا دھار بارش ہوتی ہے ۔جو انسانی زندگی کی متحرک صلاحیتوں کو زنگ آلود کر کے رکھ دیتی ہے ۔
اکثر ہم ذہنی زمین کی دیکھ بھال چھوڑ دیتے ہیں ۔ منفی ماحول کے بظاہر بے ضرر بیج پڑے رہنے دیتے ہیں تو پھر جیسے ہی کسی کے منفی رویوں کو سوچتے ہیں، تو کڑھتے رہتے ہیں یا اپنی ناکامیوں و محرومیوں کو سوچتے ہیں ۔اس عمل سے ہمارے دماغ کی زمین اپنے اوپر پڑے ہوۓ بیجوں کو نگل لیتی ہے۔ جیسے ہی خیالات کی تیز طوفانی بارش برستی ہے، تو وہ کونپلیں کھل اٹھتی ہیں اور امر بیل جیسے طفیلیے ہمارے اردگرد لپٹ کر ہمیں خود ساختہ کمفرٹ زون میں محدود کردیتے ہیں ۔ ۔ ضحی جلدی سے اٹھ کھڑی ہوئی اور مصافحہ کرنے کے لیے ہاتھ بڑھایا پر جھجک کر پیچھے کرلیا ۔
“آمنہ ۔۔۔ میں آپ کو ہی یاد کر رہی تھی۔ میرا دل چارہا تھا میں اپنے اندر اٹھنے والی سوچوں کے طوفان کو کسی سے شئیر کروں”
آمنہ اس کے ساتھ ہی بینچ پر بیٹھ گئ. “میں تمہارے گھر گئی تھی وہاں پتہ چلا کہ تم یہاں ہو۔ میں تمہیں لینے آئیں ہوں۔ تم میرے ساتھ رہ سکتی ہو۔ اگر مناسب سمجھو اور مجھ پر اعتماد کرو تو، ورنہ یہ ماحول تو کسی کو بھی پاگل کرنے کو کافی ہے۔ میں ضرور تمہاری باتیں سنوں گی۔ یہی پہلا راستہ ہے اس کمفرٹ زون کی قید سے نکلنے کا” آمنہ نے اس کے ہاتھ کو دیکھا جو اس نے مصافحہ کرنے کے بجاۓ ابھی تک سختی سے بند کرکے پیچھے کیا ہوا تھا۔ پھر اپنی بات جاری رکھتے ہوۓ ضحی کے انہماک بھرے چہرے کو دیکھنے لگی.
” دل میں آنے والی ساری باتوں اور سوچوں کو کسی اپنے سے کہہ دینا کتھارسس ہے۔ کبھی کبھی ہم اپنے اندر کی سوچوں میں منفی ومثبت کی تفریق نہیں کر پاتے تو ہمیں کسی اپنے سے مدد لینی چاہیے”
دیوار سے لپٹی خوبصورت بیل کو تکتی ضحی نے سوچا
“آہ”
میری زندگی کو بھی امربیل ہی نے لپیٹ لیا”
اس کی سوچ کو آمنہ کی آواز نے توڑا ۔
” طفیلیے (پیرا سائٹ) ضروری نہیں نباتات اور حیوانات کے ساتھ ہی ہوتے ہیں ۔ یہ سوچوں کی صورت بھی چمٹ جاتے ہیں ۔ وقت کے ساتھ ساتھ امر بیل کی طرح آپ کی فصلوں، خوبصورت بیلوں اور درختوں کو بھی لیپٹ میں لے لیتے ہیں ۔ بظاہر خوبصورت نظر آنے والی یہ چیز ہر شکل میں آپ کے ساتھ ہوتی ہے ۔ خونی، سماجی رشتوں ان سے منسلک رویوں اور خیالات کی شکل میں بھی بہت سے طفیلیے ہماری اردگرد پروان چڑھتے ہیں ۔ہماری لاپروائی کی بدولت وہ دھیرے دھیرے ہماری زندگی کو دیمک کی طرح کھوکھلا کردیتے ہیں، اب یہ ہم پر منحصر ہے ایسے طفیلیوں سے زندگی کو کیسے محفوظ رکھیں “۔
اس نے اپنی جھکی گردن اٹھائی نگاہ آمنہ پہ پڑی ۔جو اپنی ازلی آپنائیت سے بھرپور مسکراہٹ لیے اسے ہی دیکھ رہی تھی ۔
“ہم اپنے دماغ سے منفی سوچوں کی صفائی کیسے کریں؟ ”
آمنہ نے مسکرا کر کہا..” فوبیک پرسن کو عمدہ طریقہ اختیار کرنا چاہیے.”
ساتھ پڑی پائپ اٹھا کر اس کے منہ پہ دو انگلیاں رکھ کر چھڑکاؤ کرتے ہوۓ کہا ۔
” پہلے اچھے خیالات اور امید کے پانی سے ہلکا ہلکا چھڑکاؤ کرو اور پھر دھیمی رفتار سے جھاڑو لگاؤ اور منفی سوچوں کو دل و دماغ سے نکال دو”
ضحی کی شکل زردی مائل ہوگئی اور نقاہت بھرے انداز میں کہا “آمنہ میں نے یہ کرکے دیکھا ہے۔ کچھ وقت بعد میں مزید خوف زدہ ہوجاتی ہوں اور بس مجھ سے نہیں ہوتا ۔ ”
آمنہ نے اس پہ گھوری ڈالتے ہوۓ کہا
” چلو اٹھو ۔۔تمہارے واجبات ادا کرکے چلتے ہیں پھر میں تمہیں راستے میں سمجھاؤں گی ۔”
ضحی بے جان گڑیا کی مانند اس کے ساتھ کھنچی چلی جارہی تھی اور سوچ رہی تھی کہ کیا اپنائیت صرف دوسروں سے ملتی ہے۔؟
آمنہ نے تمام کاروائی مکمل کرکے اس کے ساتھ باہر کی راہ لی اور کہا ۔۔
” ضحی فوبیا میں جلد بازی امید کی جوت بجھا دیتی ہے۔ ہم اکثر جلد بازی سے دماغ میں جھاڑو لگاتے ہیں اور تب منفی سوچوں کی گرد زیادہ اڑتی ہے اور سانس لینا دوبھر ہو جاتا ہے ۔ ہم بھاگ کر پھر پیچھے چلے جاتے ہیں۔ اس لیے جب کل موسم اچھا ہوگا تو ہم دونوں باہر جائیں گی ۔ تاکہ کمفرٹ زون سے نکلیں اور پراعتماد انداز میں اپنے اندر کی صفائی کرسکیں”
لان میں کھلے پھولوں کی کلیاں اپنے اوپر موتیوں جیسے قطرے لیے امید کے اس راگ پہ رقص کرتی انہیں دور جاتے دیکھ رہیں تھیں۔
اور ایک مردہ ہوتے دل کی زمین سے ایک کونپل نے نمودار ہوئی اور بے جان روح کو زندگی کے احساس سے سرشار کیا ۔

Advertisements
julia rana solicitors

جاری ہے

Facebook Comments