ادب خاص طور پہ سرائیکی ادب میں دلچسپی رکھنے والے احباب کی خدمت میں سرائیکی کے سو پسندیدہ اشعار کی چوتھی قسط دس قدیم و جدید سرائیکی اشعار کے ساتھ بمع اردو ترجمہ حاضر خدمت ہے۔ شائع شدہ اولین قسطوں پہ احباب کی طرف سے تھپکیوں کا شکریہ بھی ادا کرنا چاہتا ہوں۔
کسے معلوم تھا کہ احمد پور شرقیہ کا محمد رمضان خان ایک دن سفیر لاشاری ہو کر سرائیکی کو انقلابی حرارت اور تحریکی شدت دینے والا بن جائے گا۔ سرائیکی کو سات شاندار شاعری کی کتب تحفہ دینے والا سفیر لاشاری مشاعروں کو لوٹ لیتا تھا۔ جب ترنم میں اپنا کلام پیش کرتا تو مجمع کا مجمع اٹھ کھڑا ہوتا تھا۔ اُن کا شعر دیکھیے کہ:
اساں بےفیض ساونڑ توں کوئی سوغات نئیں منگدے
جیندی واچھڑ پٹے ایرے اوجھیں برسات نئیں ننگدے
(ہم بے فائدہ ساون سے کوئی سوغات نہیں مانگتے
جس کی تیز رَو بنیاد ہلا دے وہ برسات نہیں مانگتے)
شاہ صدر دین کا سجاد عارض ویسے تو پانچ پاس ہے مگر کتاب بینی کی عادت فریڈرک اینگلس اور کارل مارکس تک لے گئی۔ اس لیے اشعار میں نظام سے بغاوت اور اشتراکیت کی جہلک بدرجہ اتم دیکھائی دیتی ہے۔ رواج سے بےزاری اور خاموشی سے گریز سجاد عارض کی شاعری کا خاصہ ہے۔ کچھ اشعار تو داد سے بالاتر کہے ہیں۔ بہرحال اِس نوجوان شاعر کا شعر دیکھیے کہ:
ڈکھ نئیں میکوں کنڈھ تے لگے تیر دا
میں تاں خوش ہاں چلو کنڈھ سنجاتی میڈی
(دکھ نہیں مجھے پشت پہ لگے تیر کا
میں تو خوش ہوں اس بہانے پشت پہچانی میری)
تحصیل تونسہ کے صاف لہجوں میں ایک صاف لہجہ جاوید ماکلی کا ہے، اُن کا شعر دیکھیے کہ جس میں روایتی سرائیکی عشق میں خود سپردگی کی کہانی بیان ہو رہی ہے:
اکھیں جاوید بند کر کے اساں تاں جام کوں پیسوں
اوندی مرضی مریضیں کوں زہر ڈیووے دوا ڈیووے
(آنکھیں جاوید بند کرکے ہم تو جام اٹھائیں گے
اُس کی مرضی مریضوں کو زہر دے دوا دے)
شاکر شجاع آبادی، مشتاق سبقت، اقبال سوکڑی اور احمد خان طارق کا طوطی بول رہا ہے تو سناواں سے ایک شاعر نمودار ہو کر سرائیکی کے افق پہ چمکنے لگتا ہے۔ مجھے شاکر مہروی کو پہلی مرتبہ جماعت اسلامی کے صوبائی امیر میاں مقصود احمد اور عبدالوہاب نیازی کی سرپرستی میں تونسہ میں ہونے والی ایک تقریب میں سننے کا موقع ملا۔ وہاں لاہور اور کراچی سے آئے ہوئے مہمانوں کو بےلاگ داد دیتے دیکھ کر حیران رہ گیا۔ شاکر مہروی جہاں تنگ دستی کا سامنا کر رہے تھے تو اُنہی دنوں اُنکے گیت اُنکی اجازت کے بغیر گا کر سی ڈیز ریلیز ہوتی تھیں جس سے لاکھوں کمائے جاتے تھے۔ ہونٹوں کے حلاوت کی بجائے زماں و مکاں کی الجھنوں پہ شاعری کرتے شاکر مہروی ایک معتبر حوالہ ہیں۔ اُن کا شعر دیکھیے کہ:
زندگی ایں تھئی اے جیویں کاہیں دا ڈاج کھسیج ویندے
جیویں پھُل کوئی سہرے توں ڈیہہ پیریں وچ لتڑیج ویندے
(زندگی یوں تھی کہ جیسے کسی کے جہیز پہ ڈاکہ پڑ جائے
جیسے پھول کوئی سہرے سے گر کر پیروں میں روندے جائیں)
شاکر مہروی کا دوسرا اعلی شعر ملاحظہ فرمائیں:
اپنڑے آپ دی سُدھ نئیں ہوندی شاکر کوں
یار بھانویں اوروار کلہیپا نال ودے
(اپنے آپ کا ہوش نہیں رہتا شاکر کو
یار بیشک ہمارے شہر میں ہو، تنہائی پھر بھی ہمراہ ہے)
تحصیل تونسہ کے ہی خادم مسرانی کا شعر ملاحظہ فرمائیں جو فلسفہ بیگانگی بیان کر رہا ہے کہ:
او جے خود توں نکھڑھ پیا ہوسی
اپنڑی وحشت توں چِڑھ پیا ہوسی
(وہ اگر خود سے بچھڑ گیا تھا
اپنی ہی وحشت سے چڑ گیا تھا)
صوفی فیض محمد دلچسپ کے دیرہ دوست محمد ظاہر پیر ضلع رحیم یار خان میں ایک شاگرد رومانویت اور احتجاج کا حسین امتزاج ہیں۔ امان اللہ ارشد سرائیکی شاعری کے آسمان کا تابدار ستارہ ہیں۔ اُن کی شاعری زبان زد عام ہے۔ سرائیکی وسیب کی محرومیوں کا ماتم اور عام لوگوں کے دکھ درد کی بیان امان اللہ ارشد کی شاعری کا خاصہ ہے۔ اُن کا بہترین شعر دیکھیے کہ:
او قتل کرتے اندھاری رات اچ ہے مطمعئن جو گواہ کائنی۔
اونکوں خبر نہیں جو قاتلیں دے کڈاھیں خنجر وی بول پوندن
(وہ قتل کرکے اندھیری رات میں ہے مطمئن کہ گواہ نہیں ہے کوئی
اسے خبر نہیں کہ قاتلوں کے کبھی کبھار خنجت بھی بول پڑتے ہیں)
امان اللہ ارشد کا ہی ایک دوسرا شعر ملاحظہ فرمائیں کہ:
یقین کر جو میں جیندے قد کوں سہارے ڈے ڈے بلند کیتے
شعور پکڑیس تاں نال میڈے او قد کچھاونڑ تے آگیا ہے
(یقیں کرو کہ میں نے جس جس کے قد کو سہارے دے دے کر بلند کیا
شعور پا کر تو ساتھ میرے وہ قد ماپنے پہ آ گیا ہے)
منفرد، دلیرانہ اور جدید خیالات سے مالا مال ضلع ڈیرہ غازی خان کے نوجوان شاعر حاتم بلوچ کا شعر بھی قابل داد ہے کہ:
کوئی تاں ہووے اوں وسبے دا پتہ ڈسے ساکوں
جتھاں کھیڈدیاں کھلدیاں بھینڑیں بھینڑیں سمجھیا ویندن
(کوئی تو ہو جو اُس قصبے کا پتہ بتائے ہمیں
جہاں کھیلتی ہنستی بہنیں، بہنیں سمجھی جاتی ہیں)
میانوالی کے محمد مظہر حیات خان کو دنیائے ادب مظہر نیازی کے نام سے جانتی ہے۔ سادہ مزاج اور خوش گفتار آدم زاد ہیں۔ پاکستان تحریک انصاف کے مشہور گیت “بنے گا نیا پاکستان” کے خالق ہیں۔ میانوالی کے نامور شاعر، گیت نگار اور افسانہ نویس ہیں۔ سرائیکی اور اردو دونوں زبانوں میں مشق کرتے ہیں۔ دس سے زائد کتب کے تخلیق کار ہیں۔ اُن کا اعلی سرائیکی شعر پڑھیے کہ:
وڈے بندے مر نئیں ویندے
ڈو بُک مٹیاں پاونڑ نال
(بڑے بندے مر نہیں جاتے
دو مٹھیاں مٹی ڈالنے سے)
جاری ہے
Facebook Comments
بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں