سرائیکی کے سو پسندیدہ اشعار/ قسط 9۔۔۔ کامریڈ فاروق بلوچ

احباب سرائیکی کے سو پسندیدہ اشعار کی نئی قسط حاضر خدمت ہے۔ آغاز سرائیکی کے مہان شاعر اور اختتام ایک نوآموز شاعر کے شعر سے کیا گیا ہے۔ سرائیکی شاعری کا مستقبل خصوصاً غزل کی صنف کا سرائیکی مستقبل بہت شاندار دیکھائی دے رہا ہے۔ عہد ساز ارتقائی سفر یوں ہو رہا ہے کہ ہمہ قسمی سامع مطمئن دیکھائی دیتا ہے۔ میرے دعوے کو سچ ثابت کرنے والی مثالیں درج ذیل شعر ہیں۔
سیاست میں سرائیکی شاعری کرنے والے اور شاعری میں سرائیکی سیاست کرنے والے عاشق بزدار اپنی ذات میں انجمن تھے۔ اُن کی ذات سرائیکی شعور کا انسائیکلوپیڈیا تھی اور نوخیزانِ سرائیکی کیلیے اکیڈمی تھی۔ اپنے آبائی علاقے مہرے والا راجن پور میں سرائیکی میلہ کی ایک طویل تاریخ مرتب کی جس نے سرائیکی شعور میں جدوجہد اور مزاحمت کو پروان چڑھایا۔ وسیب کی محرومیوں پہ ہمیشہ احتجاج کرتے پائے گئے۔ اُن کے کئی لفظ اور مصرعے سرائیکی قومی تحریک میں نعروں کا درجہ رکھتے ہیں۔ تخت لاہور کو نشانے پہ رکھنے والے عظیم سرائیکی دانشور نے اپنی نثر کا بھی لوہا منگوایا۔ اسا‍ قیدی تخت لاہور کے خالق نے ایک شعوری مزاحمت کو سرائیکی شاعری میں شامل کیا اور یوں شامل کیا کہ سامع کھڑا ہو کر داد دینے لگا۔ پاکستان اور عاشق بزدار دونوں 14 اگست 1947 کو پیدا ہوئے۔ پاکستان کا ہم عمر شاعر “سرائیکی پاکستان” میں سیاسی شعور کا سرخیل ہے۔ اٌن کا ایک انقلابی شعر ملاحظہ فرمائیں کہ:
دھرتی پئی اے جاگدی توں وی نندراں چھوڑ
توں گبرو ایں گر دیس دا توں وزبر توں شہ زور
(دھرتی ہے جاگ رہی تو بھی نیندیں چھوڑ
تو بیٹا ہے اگر دیس کا، تو زور آور تو شہہ زور)
سرگودھا کے مشہور شاعر عرفان محمد سامعین کی وسیع پرت سے داد وصول کر رہے ہیں۔ عرفان محمد سرائیکی شاعری میں جن موضوعات کو زیرِ بحث لا رہے ہیں اُن کے سبب وہ اپنے شہر کے بڑے شاعر بن جائیں گے۔ عرفان محمد کے بعض دوہڑے اور کچھ غزلیں تو سرگودھا میں سرائیکی شاعری کے ارتقاء کا ثقافتی سروے کر رہی ہیں۔ جبکہ اُن کے کچھ اشعار تو یوں زبان زد عام ہوئے ہیں کہ شاعر موصوف مقبولیت کی اوج پہ آن بیٹھے ہیں۔ راقم کا پسندیدہ شعر ملاحظہ فرمائیں کہ:
شاہراں دے وچ مر نہ ونجوں، جنگل ملے ساول ملے
دریا ملے، بیڑی ملے، پتنڑاں دے شوقی ہیں اساں
(شہروں میں مر نہ جائیں، جنگل ملے سبزہ ملے
دریا ملے، کشتی ملے، دریا کناروں کے شوقین ہیں ہم)
شاہ صدر دین ڈیرہ غازی خان کے قصبے میں سرائیکی شاعروں کا ایک انبوہ ہے اور ہر شاعر یوں خیال آرائی کرتا ہے کہ سامعین کو معیاری شاعری کی دستیابی مسلسل جاری ہے۔ محمد یوسف منصف انہی شاعروں کی فہرست کا نوجوان نام ہے۔ اُن کا شعر دیکھیے کہ:
کاہیں دے کیتے زندگی آپنڑی
رول ڈتی سے پاگل تھئے سے
(کہیں کی خاطر زندگی اپنی
برباد کی ہے پاگل بنے ہیں)
جھنگ کے رئیس اعظم سرائیکی شاعری میں دلپزیر لہجے کے طور پر اپنی پہچان بنا رہے ہیں۔ آجکل ملتان میں رہائش پزیر ہیں۔ ڈیرہ اسماعیل خان میں بھی کافی عرصہ مقیم رہے۔ لہذا جھنگ، ڈیرہ اسماعیل خان اور ملتان کی مختلف سرائیکی سے بھی مستفید ہو چکے ہیں۔ اچھے شعر کہہ رہے ہیں، امید ہے ایسے ہی زور قلم میں اضافہ ہوتا رہے گا۔ رئیس اعظم کا شعر دیکھیے کہ:
چھوڑ ڈیونڑ وی مار ڈیونڑ ہے
توں چُھڑیندیں تاں تیڈی مرضی اے
(چھوڑ دینا بھی مار دینا ہے
تم چھوڑ رہے ہو تو تمہاری مرضی ہے)
ڈیرہ اسماعیل خان کے امتیاز ساغر کا پیار بھرا شعر ملاحظہ فرمائیں کہ :
نسے لکھ سنگے اوندے اکھیں تے اج تئیں
زمانہ گزر گئے غزل لکھدیں لکھدیں
(نہیں لکھ سکے اسکی آنکھوں پہ آج تک
زمانہ گزر گیا ہے غزل لکھتے لکھتے)
تحصیل تونسہ کی بستی ہیرو کے ندیم کامل سرائیکی کے “دبستان تونسہ” کا کامل شاعر ہے۔ ندیم کامل کے شعروں میں سرائیکی کی مخصوص سادگی دیکھی جا رہی ہے۔ اِس کے شعروں میں جاناں کے قصے بھی ہے اور غم دوراں کا ماتم بھی ہے اور دونوں اس طرح ایک دوسرے میں پیوست ہیں کہ وہ ایک دوسرے سے الگ نہیں کیے جاسکتے۔ انہی خوبیوں کے حامل ندیم کامل کا شعر دیکھیے کہ:
نفرت دے ایں کالے اندھ اچ
ہر کوئی کانو کان نظردے
(نفرت کی اس کالی آندھی میں
ہر کوئی بیگانہ نظر آتا ہے)
راجن پور کے ریاض بیدار ایسے ایسے شعر کہہ جاتے ہیں کہ داد کمتر لگتی ہے۔ اُن کا شعر دیکھیے کہ:
اتھاں نفرت دا ناں وی کائناں ہا
اتھ محبت دی گال ہوندی ہئی
(اِدھر نفرت کا نام بھی نہیں تھا
اِدھر محبت کی بات ہوتی تھی)
اپنے شعروں کو اپنے دوستوں کی نذر کرنے والے ضلع ڈیرہ غازی خان کے شاعر امیر راول نے کچھ شعر تو لازوال کہے ہیں۔ اُن کا ایک معیاری شعر ملاحظہ فرمائیں کہ:
تیڈا اینجھا تھیواں تئیں جیہاں تھی ونجاں
تیکوں آکھاں نہ کجھ بےزباں تھی ونجاں
(تمہارا ایسا ہو جاؤں تمہارا بیاں ہو جاؤں
تمہیں کہوں نہ کچھ، بے زباں ہو جاؤں)
چولستان بہاولپور سے سرائیکی عوام کے عمومی حالات پہ نوحہ کنائی کرنے والی آواز ‘جہانگیر مخلص’ عام سرائیکی کی محبت کا معصومیت بھرا شاعر بھی ہے۔ اپنے فنکارانہ تخلیقی مواد پر حیرت انگیز حد تک مضبوط گرفت رکھتا ہے۔ جہانگیر مخلص کی شاعری ایک ایسے شاعر کی شاعری ہے جو مقلدین کی محفل میں سوچنا، بےحسی کے رواج میں محسوس کرنا اور گونگے قبیلے میں بولنا جانتا ہے۔ بہاولپور میں سرائیکی شاعروں کی موجودہ نسل کے سنجیدہ ترین شاعر جہانگیر مخلص کا قابل داد شعر دیکھیے کہ:
تئیں تاں مڑ کے ولا ساڈو ڈٹھا وی نئیں
خالی بانہہ نال بوچھنڑ اچھالے اساں
( تم نے تو مڑ کے پھر ہمیں دیکھا بھی نہیںخ
الی بازؤں کے ساتھ دوپٹے اچھالے میں نے)
سرائیکی کے باغی شعراء میں تازہ ترین اضافہ نوجوان شاعر جہانگیر چاند کا نام ہے۔ اُن کا شعر دیکھیے کہ:
ہک وار نئیں اساں کئی وار ڈٹھی سے
گودے اگوں مزدور دی دستار ڈٹھی سے
( ایک بار نہیں ہم نے کئی بار دیکھی ہے
سردار کے آگے مزدور کی دستار دیکھی ہے)

Facebook Comments

فاروق بلوچ
مارکسی کیمونسٹ، سوشلسٹ انقلاب کا داعی اور سیاسی کارکن. پیشہ کے اعتبار سے کاشتکار.

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply