سرائیکی کے سو پسندیدہ اشعار/ قسط 2۔۔۔ کامریڈ فاروق بلوچ

سرائیکی شاعری کے سو پسندیدہ اشعار کے سلسلے کی دوسری قسط پیش خدمت ہے. گذشتہ قسط نو جبکہ موجودہ قسط گیارہ سرائیکی اشعار بمع اردو ترجمہ پہ مشتمل ہے. گذشتہ قسط میں منشو بھٹہ کے تعارف میں بتایا تھا کہ وہ لیہ کی تحصیل کروڑ سے تعلق رکھتے ہیں لیکن احباب تصحیح فرما لیں کہ منشو بھٹہ ضلع لیہ کی تحصیل لیہ کے رہائشی ہیں. قسط کا آغاز احمد خان طارق کھوسہ سے کرتے ہیں. سرائیکی خطے میں انہیں دوہڑہ کا بادشاہ بھی کہا جاتا ہے. رومانویت، عشق، ہجر، معروضی جبر، علاقائی محرومی اور مذہبی جبر کو اپنی شاعری کا خاصہ بنانے والے احمد خان طارق ڈیرہ غازی خان کے علاقے شاہ صدر دین سے تعلق رکھتے ہیں. مشہور سرائیکی شاعر عزیز شاہد کے والد نور محمد کے باقاعدہ شاگرد رہنے والے احمد خان طارق کا لازوال شعر دیکھیے کہ:
ہر مسجد مندر رقص کروں پاگل وچ دول نماز پڑھوں
جتھاں طارق! دَڑکے نہ ہووِن اوہا مسجد گول نماز پڑھوں

(ہر مسجد میں ہر مندر میں رقص کر سکوں. گردن میں ڈال کے ڈھول نماز پڑھ سکوں. طارق ایک ایسی مسجد ہونی چاہیے جہاں میں بےخوف نماز پڑھ سکوں)
غربت زدہ ماحول کے غربت زدہ عشرت لغاری کا سچا شعر دیکھیے کہ:

جیندے در تے بھک کولہوں مزدور مر گئے
او‍ں ظالم دیاں روزے نمازاں کیہاں ہن
(جس کے دروازے پہ مزدور بھوک سے مر جائے اُس ظالم کے روزے نمازیں کس کام کی ہیں؟)
سرائیکی کے ایک شاعر، محقق، نقاد، ناول نگار، مترجم، ماہرِ اقبالیات جنہوں نے قرآن مجید کا سرائیکی ترجمہ بھی کیا ہے کا نسب حضرت علی کی غیر فاطمی اولاد سے جا ملتا ہے، جن کا قبیلہ گیارہویں صدی عیسوی میں محمود غزنوی کے ساتھ ہرات سے روانہ ہو کر وادی سون سکیسر میں آباد ہو گیا. سرائیکی کے اُس مہان شاعر کے دادا آج سے تقریباً سو سال قبل اپنے بیٹے غلام محمد کے ہمراہ ریاست بہاولپور چلے آئے اور بہاولپور شہر کے مغرب کی جانب تقریباً اٹھارہ میل کے فاصلے پر کلانچ والا میں رہائش پزیر ہو گئے جہاں ایک قریشی خاندان علم و تدریس کی وجہ سے مشہور تھا. اُسکے دادا نے اپنے اکلوتے بیٹے غلام محمد کو قریشی خاندان کے ایک بزرگ مولوی امام الدین قریشی کی شاگردی میں دے دیا. حافظ غلام محمد نہایت نیک سیرت اور شریف الطبع انسان تھے جن سے استاد امام الدین قریشی اس قدر متاثر ہوئے کہ انہوں نے اُنکی اپنی بیٹی سے شادی کروا کر گھر داماد بنا لیا. یہیں بستی کلانچ والا ریاست بہاولپور میں 24 مئی، 1915ء کو حافظ غلام محمد کے ہاں عطا محمد پیدا ہوئے جنہیں بعد میں ادبی دنیا دلشاد کلانچوی کے نام سے جاننے لگی. ڈاکٹر حمید اُلفت ملغانی لکھتے ہیں: ’’سرائیکی زبان و اَدب کو آگے بڑھانے میں اور سرائیکی اَدب کو دیگر زبانوں تک شناسائی دینے کے سلسلے میں جو کام پروفیسر دِل شاد کلانچوی نے کیا ہے ایسا کام کئی بڑے اِدارے بھی نہیں کر سکے۔‘‘ اُن کا یہ شعر بہت ہی کمال ہے کہ:
عشق وچ ہاں میں اُوں جواری وانگ
جیڑا بازی کوں ہار آندا ہے
(میں عشق میں وہ جواری ہوں جو بازی ہار آیا ہے)

عزیز شاہد کے استاد اور جانباز جتوئی کے شاگرد نوابزادہ غلام سرور خان میرانی کو دنیائے ادب سرور کربلائی کے نام سے جانتی ہے. سِجھ دے سینے اور نغمے نوک سناں دے سرور کربلائی کے دو شعری مجموعے ہیں. اُن کا شعر دیکھیے کہ:
اسمان توں احسان وانگوں رزق جے لہندے
احسان کوں اسمان دو ول بھیڄ ݙويجے
(اگر رزق آسمان سے احسان کی مانند اترتا ہے تو احسان کو آسمان کی طرف واپس بھیج دینا چاہیے)
سرور کربلائی کا ہی ایک دوسرا شعر دیکھیے کہ:
زمیں تے حاکم جڈا‍ں تئیں آسمان رہسی
تیڈی جوانی میڈی غزل رائیگان رہسی
(زمین پہ جب تک حاکمیتِ آسمان ہو گی
تیری جوانی میری غزل رائیگان ہو گی)

سرائیکی ادب میں خواجہ غلام فرید کے بعد وسیب کی حقیقی ترجمانی کرنے والے جانباز جتوئی کی شاعری اقبال سوکڑی، احمد خان طارق، سفیر لاشاری، سرور کربلائی، قیس فریدی، صوفی فیض محمد دلچسپ اور امید ملتانی کی ہمعصر ہے. نہ صرف اپنی ادبی شناخت بنائی بلکہ سرائیکی شاعری میں بہت بڑا نام پیدا کرنا فنکارانہ عروج ہے. عین جوانی میں 1947ء کا غدر اپنی آنکھوں سے دیکھا جس کا کرب آگے چل کر انکی شاعری میں ظاہر ہوا. جانباز جتوئی کی شاعری عموماً جبکہ شعری مجموعہ ”ارداساں“ میں خصوصاً سرائیکی زبان کے مشکل ترین الفاظ کا خاصا استعمال دیکھنے کو ملتا ہے جسے انہوں نے بڑی فنکارانہ مہارت سے اپنے اشعار میں سجایا ہے. آپ کی غزل، کافی، دوہڑے اور قطعات درحقیقت استعارات اور تلمیحات کا خزانہ ہیں. جتوئی صاحب کو صدارتی ایوارڈ سے بھی نوازا گیا. اُن کا شعر دیکھیے کہ:
کُچھ نہ تھیوی ڈھول کڈاھِیں
آ وس میڈے  کول کڈاھِیں
(کبھی کچھ بھی نہ ہو تجھے اے میرے سجن
کبھی میرے پاس بھی بناؤ اپنا مسکن)

غلام یحییٰ خاں تعلیم کے حصول کے بعد کوئٹہ میں بلوچستان کانسٹیبلری میں بطور کلرک تعینات ہوئے، پھر لاہور میں پاکستان ریلوے جوائن کو کیا، پھر واپس اپنے شہر تونسہ میں بطور ٹیچر تعینات ہوۂے. وہاں سے ڈیرہ غازی خان کالج میں لیکچرار، پھر ٹوبہ ٹیک سنگھ کالج میں لیکچرار، اب طویل عرصے سے لیہ میں اردو کے اسسٹنٹ پروفیسر ہیں. غلام یحییٰ خان کو دنیا شفقت بزدار کے نام سے جانتی ہے. اُنکے اشعار طبقاتی سماج میں پیدا ہونے والے مسائل اور محرومیوں کا اظہار ہیں. آپ سرائیکی وسیب میں سچی شاعری کرتے ہیں. آپ ایک بے باک فن کار ہیں جو جابر طبقے کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر شاعری کرتے ہیں. آپ اپنی شاعری میں مظلوم طبقے کے فکر و شعور کو جگانے کی بات کرتے ہیں. آپ عوام کے ولولوں کو بڑھاوا دے کر استحصالی نظام کے خاتمے کی نوید سناتے ہیں. آپ اپنی شاعری میں عوام کو متحد ہو کر جد و جہد کا احساس دلاتے ہیں. شفقت بزدار عوامی انقلاب پہ کامل یقین رکھتے ہیں. اس کے علاوہ شفقت بزدار قلندر مزاج شاعر ہیں جو امارت، کوٹھیوں کاروں، جاگیروں اور دولت کی بجائے محبوب کی چند یادگار نشانیوں اپنی جائیداد مانتے ہیں بلکہ ان کے سہارے زندگی گزارنے کی خواہش کرتے ہیں. شفقت بزدار کا شعر دیکھیے کہ:
شرابی وجد وچ پیوے جگر دا خون حاضر ہے
کہیں کم ظرف کوں انگور دی رس تک نسے ڈیندے
(شرابی اگر وجد میں آکر جگر کا خون بھی پینا چاہے تو ہمارا خون حاضر ہے، لیکن اگر کوئی کم ظرف آکر تقاضا کرے تو انگور کا رس بھی نہیں دیں گے)

شفقت بزدار کا ہی ایک دوسرا میرا پسندیدہ شعر دیکھیے کہ:
اساں روزی وی کیتی ہے  تیڈے رستے وی بھالے ہِن
فقط مسئلہ محبت نئیں   مسائل ڈھیر سارے ہِن
(ہم نے روزگار بھی چلایا ہے تیرے انتظار میں بھی تڑپے ہیں
فقط مسئلہ محبت کا نہیں ہیں یہاں مسائل ڈھیر سارے ہی‍ں)
نور محمد سائل کے فرزند عزیز اکبر المعروف عزیز شاہد اپنے عہد کے طلسماتی شاعر ہیں. وہ عام آدمی سے لے کر سنجیدہ ادب سمجھنے والوں تک میں برابر مشہور ہیں. عزیز شاہد سرائیکی شاعری میں موضوعات کے انتخاب میں گوناگونیت کی زندہ مثال ہیں. انکی شاعری میں دوستی سے لے کر خونی رشتوں کے درمیان عداوت تک سیاسی معاملات اور غربت و بے کسی سمیت ہجر اور وصال کی کیفیتوں کو بلکل ہی منفرد انداز سے شاعرانہ پرویا گیا ہے. اُن كا طرز تقلیدی نہیں بلكہ شعری ترجیحات کو ہی نئی پہچان عطا کرتا ہے. عزیز شاہد کی شاعری میں اپنے ماحول سے ماخوذ بلکل جدید تشبیہات، استعارات اور علامتوں کے استعمال نے انہیں سرائیکی کے صف اول کے شعراء میں لا کھڑا کیا ہے. اُن کا شعر دیکھیے کہ:
کے تئیں درکدی ریل دے اندروں بھجدے منظر ڈیکھوں
دل اہدے ہن گلیاں رُلدے ککھ دا اندر ڈیکھوں
(کب تلک دوڑتی ریل کے اندر سے بھاگتے منظر دیکھیں
دل کہتا ہے اب گلیوں میں بکھرے تنکوں کے اندر دیکھیں)

سادہ مزاجی، انکساری اور ملنساری کو سینے سے لگائے وہوا کا ایک شاعر تین دہائیوں سے اپنی شاعری کے زریعے یہ بتا رہا ہے کہ جبر زدہ نظام زندگی میں جینا کیا معنی رکھتا ہے. وہ زمانے کی خود غرضی اور منافقت پہ کڑھتا ہے. غم جاناں سے زیادہ وسیب کے غم کو اپنا موضوع سخن بنانے والے شاعر جمشید ناشاد کا کمال شعر دیکھیے کہ:
نہ میں او ہاں نہ ہنڑ میڈی اوہا پرواز رہ گٸ ہے
قفس دی کھول تاکی ہنڑ رِہاکیتو تاں کیا کیتو
(نہ میں وہ رہا ہوں نہ میری وہ پرواز بچی ہے
قفس کی کھول کے کھڑکی رہا کیا بھی تو اب کیسی رہائی)
ریاض عصمت گورمانی کی شاعری اُن کے اندرونی و بیرونی احساسات کا اظہار ہے. گو کہ ریاض عصمت گزل گو شاعر ہیں مگر اُن کی غزل لفظی پیچیدگیوں سے بلکل دور ہے. معاشی عدم مساوات کے نتیجے میں  انس، محبت، وفاشعاری اور ہمدردی کے دم توڑتے جذبوں کی آواز ریاص عصمت کا شعر دیکھیے کہ:

معاش مسئلے دے تھل دے اندر میں رل گیا ہیں  تاں قصور کائنی
کوئی خضر میڈے نال ہوندا  او وی صیح گال اے رْل ونجے ھا
(اگر معاش کے مسئلے کے تھل میں کہیں گم ہو گیا ہوں تو میرا کوئی قصور نہیں ہے، درحقیقت اس مسئلے کے صحرا میں اگر کوئی خضر بھی میرے ساتھ ہوتا تو وہ بھی گم ہو جاتا)

Advertisements
julia rana solicitors

جاری ہے

Facebook Comments

فاروق بلوچ
مارکسی کیمونسٹ، سوشلسٹ انقلاب کا داعی اور سیاسی کارکن. پیشہ کے اعتبار سے کاشتکار.

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply