سرائیکی کے سو پسندیدہ اشعار/ قسط 6۔۔۔ کامریڈ فاروق بلوچ

سرائیکی شاعری جہاں مسدس اور ڈوہڑا بنیادی اصناف ہیں لیکن اِس زبان میں غزل کے تجربے کی تابناکی اور بے باکی بھی کئیوں کو متاثر کر چکی ہے۔ اسی طرح جہاں تحصیل تونسہ نے جدید شعراء کی کھیپ مہیا کی وہیں تونسہ کے غزل گو شعراء نے بھی ہر دور میں خود کو منوایا ہے۔ کوئی بھی عہد ہو کوئی بھی دبستان ہو سرائیکی غزل نے اپنی روشنی سے کئی شعراء کے چہرے روشن کیے ہیں لیکن جمشید ناشاد نے سرائیکی غزل کی آبیاری اور نمو کے لیے ایسے ایسے سہارے دئیے ہیں کہ جن کے دم سے سرائیکی غزل کو دیگر اصنافِ شاعری میں ایک معتبر مقام ملنا شروع ہوا ہے۔ جمشید ناشاد کی بے مثال غزلوں نے اپنے عہد میں سرائیکی غزل کی روایت کو مضبوط تر اور معتبر بنایا ہے۔ جمشید ناشاد اپنی غزلوں میں متنوع موضوعات کے سبب اپنی زندگی میں ہی اپنا حوالہ بن چکے ہیں۔ وہ سرائیکی غزل کی روایت کو ثروت مند بنانے والی تونسوہ شعراء کی موجودہ کھیپ کے میرے نزدیک سب سے نمایاں شاعر ہیں۔ ایک ایسا شاعر جو غزل کے روایتی دائروں میں رہتے ہوئے تازہ مضامین کو زیر بحث لا رہا ہے اور غزل بہ غزل فنکارانہ بلندیوں کی طرف گام زن ہے۔ تونسہ کے جمشید ناشاد یقیناً اپنی نسل کے مقبول ترین شاعروں میں ہیں، اُن کا یہ شعر ملاحظہ فرمائیں کہ:
ہولیں ہولیں اندھارا دھرتی کوں ویڑھ ویسی
ہولیں ہولیں اے سجھ کجیندا پۓ لوک چُپ ہن
(آہستہ آہستہ اندھیرا دھرتی سے لپٹ جائے گا
آہستہ آہستہ یہ سورج چھپ رہا ہے، لوگ چپ ہیں)
ایسے ایسے موضوعات کہ جن پہ بولتے بولتے بڑے بڑے عالم بھی گردن کی رگیں پُھلا کر بولتے پائے جائیں، ایسے ایسے فقرے کہ جن کی ادائیگی کے لیے عظیم فنکار بھی صوتی زیروبم پہ قابو کھو دیتے ہوں، ایسی ایسی باتیں کہ جن کے بیاں کے لیے درشتیِ اظہار لازم پاتا ہو، لیکن وہاں جب عصمت گرمانی کا نام آتا ہے تو یہ بندہ اُن مضامین کو ایسے نرمی سے شعری پہناوا پہناتا ہے کہ گداز بھی شرما جاتا ہے۔ عصمت گرمانی کے قلم نے سماج ناسوروں کو ایسے چھیلا ہے کہ احساسِ درد پہ احساسِ گداز حاوی ہو جاتا ہے۔ جہاں وہ غربت، جہالت اور بیماریوں سے تنگ انسان کا نوحہ لکھتا ہے وہاں منافقت، جھوٹ اور دھوکے بازی جیسے انسانی جرائم کا مرثیہ بھی لکھا ہے۔ دلپزیر لہجے کے سرائیکی شاعر عصمت گرمانی کا شعر دیکھیے کہ:
سیندھ سنوری نسے کپڑے پاتے نسے
عید کیتی تاں نئیں بس گزاری ہسے
(مانگ سنواری نہیں کپڑے بدلے نہیں
عید کی تو نہیں، بس گرازی گئی ہے)
ݙبھاری یا رچناوی سرائیکی، ٻاری سرائیکی، جھنگوی سرائیکی یا جھانگلی/جانگلی جو جھنگ، ساہیوال، پاکپتن، اوکاڑہ، تاندلیانوالا، کمالیہ، پیرمحل، چنیوٹ، سرگودھا، منڈی بہاؤالدین، بہاولنگر، تحصیل حاصل پور (ضلع بہاولپور)، وہاڑی، میلسی اور خانیوال میں جھنگوی سرائیکی بولی جاتی ہے جسے چند پنجابی زدہ لوگوں نے الگ زبان یا پنجابی کا لہجہ سمجا ہوا ہے۔ سرائیکی کے اِس لہجے میں غزل، ڈوہڑہ اور گیتوں نے کمالات دیکھائے ہیں۔ قاری اور سامع پہ کیفیت طاری کر دینے والی جھنگوی سرائیکی کے ممتاز اور نوجوان شاعر منیر بلوچ کا زندہ شعر ملاحظہ فرمائیں کہ:
اُوویں بے شک بُلکھڑ ہیں زمانے دے لفنگے ہیں
منیرا ساکوں سجنڑاں دی مگر پہچانڑ باقی ھے
(ویسے بیشک بُھلکڑ ہیں زمانے کے لفنگے ہیں
منیر ہمیں سجنوں کی مگر پہچان باقی ہے)
بشیر حسین غمخوار عام آدمی سے لے کر سنجیدہ سمجھے جانے والوں تک میں مقبول سرائیکی شاعر ہیں۔ سرائیکی شاعری میں اگر کوئی ایک شاعر ذہین، فطین اور کرشماتی بنانا پڑ جائے تو وہ غمخوار کے سوا کون ہو گا؟ لمحۂ موجود میں جیتے ہوئے اپنی شاعری کے موضوعات آس پاس کے واقعات سے اخذ کرنے والے بشیر حسین غمخوار کا زندہ شعر ملاحظہ فرمائیں کہ:
توں میکوں اوہو غمخوار سمجھی ودیں
وقت دے نال میں وی بیا تھی گیاں
(تم مجھے وہی غمخوار سمجھ رہے ہو
وقت کے ساتھ میں بھی اور ہو گیا)
کچھ مضامین، کئی خیالات اور بعض استدلال ایسے ہیں کہ جو بشیر غمخوار کے سوا نہ کوئی سرائیکی شاعری میں بیاں کر سکا اور نہ ہی شاید کر سکے گا۔ بشیر حسین غمخوار کا مشہور عام شعر دیکھیے کہ:
غمخوار دل کڈوکڑنڑاں پتھرا تھیا ودے
ڈیکھوں تیڈا کمال کوئی زخم ڈے کے ونج
(غمخوار دل کب سے پتھرا ہوا پھر رہا ہت
دیکھیں تیرا کمال کوئی زخم دے کے جا)
میانوالی کے سید نسیم بخاری نے کیا ہی بہترین شعر لکھا ہے کہ بےساختہ منہ سے واہ واہ نکلتی ہے:
اللہ جانڑے جیونڑ دی اے خواہش کیوں نئیں مردی
چنگی طرحاں پتائے ہر شئے فانی پیدا تھئی اے
(اللہ جانے جینے کی یہ خواہش کیوں نہیں مرتی
اچھی طرح معلوم ہے ہر شے فانی پیدا ہوئی ہے)
علی پور کے نسیم علی پوری کا شعر ملاحظہ فرمائیں:
میکوں خود حسن مرضی نال آپڑاں راز داں جوڑیے
میں کیوں جنت خریداں، حور دیاں قسماں ودا کھاواں
(مجھے خود حسن نے مرضی سے اپنا رازداں بنایا ہے
میں کیوں جنت خریدوں حوروں کی قسمیں اٹھاتا پھروں)
دو مرتبہ صدارتی تمغہ حاصل کرنے والے سرائیکی شاعر شاکر شجاع آبادی نے لہجہ سہل میں بیانِ کٹھن کو یقینی بنایا۔ اُن کا لازوال شعر ملاحظہ فرمائیں کہ:
نجومی نہ ڈراوے دے اساکوں بدنصیبی دے
جڈاں ہتہاں تے چھالے تھئے لکیراں خود بدل ویسن
(نجومی نہ ڈراؤ ہمیں بدنصیبی سے
جب ہاتھوں پہ چھالے ہوئے لکیریں خود بدل جائیں گی)
اپنے مرید خاص نواب آف بہاولپور نواب صادق محمد رابع عباسی کو یہ نصیحت کرنے والے کہ” زیر تھی، زبر نہ بن، متاں پیش امدی ہووی” کے خالق خواجہ غلام فرید کا شعر دیکھیں کہ:
دلڑی لٹی تئاں یار سجن
کدیں موڑ مہاراں تے آ وطن
(دل لوٹ لیا تم نے یار ساجن
کبھی موڑو مہار اور آؤ وطن)
قربان کلاچی جو خدا کے سامنے انسانی مسائل لیکر پیش ہو جاتا ہے اور جرات کے ساتھ اپنا مقدمہ پیش کرتا ہے، الجھتا ہے، منتوں سماجتوں کی اپنی تاریخ بیان کرتا ہے، دامن یوں تھامتا ہے جیسے گریبان پکڑا جاتا ہے۔ تونسہ کی غربت زدگی کا بیاں ہو کہ محنت کش کی تکالیف کا ماتم ہو، افراد کی بدبختیوں کا ذکر ہو کہ اجتماع میں پنپتے ناسوروں کو عیاں کرنا ہو، فرد کے لیے خدا سے الجھنا ہو تو سرائیکی میں قربان کلاچی سے پہلے پہنچے گا۔ قربان کلاچی کا شعر دیکھیے کہ:
حیاتی او حشر کیتن
حشر دی گالھ بھل گئی ہے
(زندگی نے وہ حشر کئے ہیں
حشر کی بات بھول گئی ہے)

Facebook Comments

فاروق بلوچ
مارکسی کیمونسٹ، سوشلسٹ انقلاب کا داعی اور سیاسی کارکن. پیشہ کے اعتبار سے کاشتکار.

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply