سرائیکی کے سو پسندیدہ اشعار/ قسط 5۔۔۔ کامریڈ فاروق بلوچ

سرائیکی کے سو پسندیدہ اشعار کی پانچویں قسط پیش خدمت ہے۔ یہ قسط دس سرائیکی اشعار بمعہ اردو ترجمہ شامل ہیں۔ جہاں احبابِ شعر فہم کی جانب سے تھپکیاں ملیں وہاں ناقدین نے بھی سر اٹھائے ہیں۔ جو بندہ تہنیت سے خوش ہے تو وہ تنقید کو خوش آمدید کہنے کا جگر بھی پیدا کرے۔ اعتراض آیا کہ “کہیں سے بھی کسی سرائیکی شعر کو اٹھا کر انتخاب کے نام پہ شائع کر لینا کون سا تحقیقی کام ہے؟”۔ اب اس ایک اعتراض میں بھی متنوع اعتراضات موجود ہیں۔ مثلاً کہیں سے بھی شعر اٹھا لینے پہ اعتراض ہے۔ تو جواباً عرض ہے کہ شعر کہیں سے ہی تو اٹھائے جاتے ہیں۔ اب ہر شاعر کے پاس جاکر اُس کے منہ سے شعر سن کر منتخب کرنے کی تُک تو نہیں بنتی ہے اور نہ ہی یہ ممکن ہے۔ دوم اب یہ بھی کہاں سے ضروری ہو گیا کہ ہر قاری کا شعری فہم یکساں ہونا چاہیے، یعنی جو شعر مجھے پسند ہے ضروری نہیں کہ وہ آپ سب کو بھی پسند آئے۔ یہ خالصتاً میرا ذاتی انتخاب ہے۔ عین ممکن ہے کسی قاری کو میرے منتخب اشعار یا اُن کے تخلیق کار شاعر سے کوئی مسئلہ ہو، لیکن میرے انتخاب کی بنیادیں یہ معاملات قطعی طور پر نہیں ہیں۔ میرا پسندیدہ شعر وہ ہے جو اچھا ہے، یہاں بتاتا چلوں اچھے شعر کے لیے اچھوتا شعر ہونا بھی ضروری نہیں۔ میرے پسندیدہ شعر کے لیے فقط میری ذاتی پسند ہونا ضروری ہے۔ بہرحال چلیں سرائیکی شعروں کا مزہ لیتے ہیں۔
کسی نے ممتاز ڈاہر کو سرائیکی کا گوتم کہا تو کوئی اُسے سرائیکی کا “باشعور شاعر” کہہ کر پکارتا ہے۔ اندھارے دی رات، کشکول وچ سمندر ، پکھی واس جیسی اعلی ادبی اقدار سے مالا مال کتب کے شاعر ممتاز ڈاہر کا تعلق بھٹہ واہن رحیم یار خان سے تھا۔ جدید لہجے میں اپنی اقدار، فرد کی انا اور شناخت کے موضوع کو اپنی شاعری میں پرویا۔ فرد کی تعظیم، حیات کا مقصد اور تلخ حقائق کو سرائیکی شاعری میں سجانے والے ممتاز ڈاہر کا شعر دیکھیے کہ:
جیڈے وی دید کراں ایہو تماشا لگدے
شہر مقتل اتے ہر آدمی لاشہ لگدے
(جدھر بھی نظر کروں یہی تماشا ہے
شہر مقتل میں ہر آدمی لاشہ ہے)
عاقب جروار کے پاس قلم کی بجائے نشتر ہے جسے وہ سماجی ناسوروں کو چھیلنے کے لیے استعمال کرتا ہے۔ اُس کا شعر ملاحظہ فرمائیں:
کل میں ڈٹھے جتنے بشر اپنڑے اندر کوئی کائنا ہا
ہن معتبر اپنڑی نظر بئے دی نظر کوئی کائنا ہا
(کل میں نے دیکھے جتنے بشر اپنے اندر کوئی نہ تھا
تھے معتبر اپنی نظر دوسرے کی نظر کوئی نہ تھا)
سرائیکی کے قادر الکلام شاعر مرید حسین جنہیں ادبی دنیا قیس فریدی کے نام سے جانتی ہے کا تعلق ضلع رحیم یار خان کے علاقے خانپور سے تھا۔ دس سال کی عمر سے شاعری کرنے والے قیس فریدی نے نظمیں اور غزلیں دونوں میں ایسی مشق کی کہ لوگ بےساختہ واہ واہ کر اٹھے۔ لیکن اُن کی اصل پہچان سرائیکی غزل بنی۔ جدید عہد کا جدید شاعر جدید خیالات کو کیسے سرائیکی کی روایتی شکل میں ڈھال کر غزلیں نظمیں لکھتا ہے، یہ جاننے کے لیے قیس فریدی کو لازمی پڑھنا پڑے گا۔ اُن کا شعر دیکھیے کہ:
جیندا وی منہ کھول تے ݙیکھو ‘ اوہو جبھ کپوائی بیٹھے
اللہ جاݨے کیا منڳ بیٹھن ایں وستی دے راڑے لوڳ
(جس کا بھی منہ کھول کر دیکھو وہ زبان کٹوا کے بیٹھا ہے
اللہ ہی جانے کیا مانگ بیٹھے ہیں اس بستی کے رہنے والے لوگ)
قیس فریدی نے سیاسی جبر کا سامنا بھی کیا۔ سیاسی رہنماؤں اور لیڈروں کی عوام کے ساتھ برتی جانے والی بےوفائیوں پہ کڑھتے تھے۔ عوام کی خاموشی اور سماجی جمود کو توڑنے کی بات کرتے تھے۔ قحط الرجال کا ماتم کرتے تھے۔ مارشل لاء اور سول حکمرانوں کی بداعمالیوں اور غیرجمہوری طریقہ کار پہ بھی کھل کر تنقید کرنے والے قیس فریدی کا دوسرا بہترین شعر ملاحظہ فرمائیں کہ:
نندراں کیا آون ہر پاسوں
چوریں دا دڑکا ہے بچڑا
(نیندیں کیا آئیں جب ہر طرف
چوروں کا خوف ہے میرے بچے!)
جام پور کا ملک غلام رسول ڈاڈا نے تمام عمر جاگیرداروں اور سرداروں کے خلاف غریب پروری کرتے ہوئے مزاحمتی رویہ اور لہجہ اپنائے رکھا۔ اُن کی شاعری عوام کو سر اٹھا کر رکھنے کی تلقین کرتی ہے۔ اُن شعر ملاحظہ فرمائیں:
مرنڑ دا میکوں وی شوق کائنی ایں جگ تے جیواں تاں جی نئیں سگدا
جے زہر پیندا تاں آپ مرداں ، جے کھیر پینداں ضمیر مردے
(مرنے کے مجھے بھی شوق نہیں، اس جہان میں جینا چاہوں جی نہیں سکتا
اگر زہر پیتا ہوں تو خود مرتا ہوں اگر دودھ پیوں صمیر مرتا ہے)
شفقت عابد لیہ میں رومان پرور لہجہ ہے۔ اُن کا پیارا شعر دیکھیے کہ:
شالا تیڈا وی کہیں نال دل لگ ونجے
ول میں پچھساں جو اے مونجھ کیا ہوندی ہئے
(خدا کرے تیرا بھی کسی کے ساتھ دل لگ جائے
پھر می‍ں پوچھوں کہ یہ یاد کیا ہوتی ہے)
ریاست بہاولپور کے علاقے احمد پور شرقیہ کو سرائیکی شاعری کا لکھنو کہا جائے تو غلط نہ ہو گا۔ سرائیکی ادب کے لیے یہ خطہ ہمیشہ سے زرخیز رہا ہے۔ احمد پور شرقیہ سے تعلق رکھنے والے عظیم سرائیکی شاعر سفیر لاشاری کے فرزند انجم لاشاری نے سرائیکی اور اردو ادب میں شاعری، مضامین اور افسانے لکھے جنکو آج قاری عزت کی نگاہ سے پڑھتا ہے۔ نوجوانی میں کراچی منتقل ہو گئے جہاں انہوں نے صحافت میں ماسٹر کیا اور روزنامہ جنگ کے ایڈیٹر بھی رہے مگر 39 سال کی عمر میں برین ہیمریج کی وجہ سے وفات پا گئے۔ انہوں نے سرائیکی شناخت اور سرائیکی خطے کے لیے سیاسی شاعری بھی کی۔ پنجاب اور تخت لاہور کی جانب ایسے دیکھا کرتے تھے جیسے دشمن کو دیکھتے ہیں۔ اُن کا ایک مشہور شعر ملاحظہ فرمائیں جس میں انہوں نے اپنے مغرب میں تختِ لاہور کی طرف اشارہ کرکے اُسکو اپنے علاقے کے مسائل کا سبب بتایا ہے کہ:
بھا چاوݨ آئی چلھ توں بݨ ٻیٹھی گھر دی سئیݨ
ابھے سر دی ݙیݨ، میݙے گھر دیاں خوشیاں کھا ڳئی
(آگ لینے آئی چولہے سے بن بیٹھی گھر کی مالکن
مغربی علاقے کی چڑیل میرے گھر کی خوشیاں کھا گئی)
سرائیکی کو میٹھی زبان کہا جاتا ہے، ڈیرہ غازی خان میں میٹھی سرائیکی کا مطلب عزیز شاہد ہوتا ہے۔ متنوع خیالات کو اپنی مرضی کے روایتی سرائیکی الفاظ عطا کرنا عزیز شاہد کا خاصہ ہے۔ اُن کا شعر دیکھیے کہ:
چِلکدیاں چیڑیاں چنگیاں لگدین تونڑیں کوئی رُت ہووے
اونکوں آکھو چُپ تھی گئی اے کہیں دے نال الاوے
(چہکتی چڑیاں اچھی لگتی ہیں چاہے کوئی بھی رت ہو
اُس کو کہو چپ ہو گئی ہے کسی کے ساتھ بولے)
ڈیرہ غازی خان کے عزیز احسن کا شعر دیکھیے کہ:
لوک اِن جیب اِچ دنیا پا کے ٹردن ہن
ساڈے چولے درزی کھیسا نئیں لایا
(لوگ ہیں جیب میں دنیا ڈال کے چلتے ہیں
ہماری قمیض میں درزی نے جیب نہیں بنائی)
سرائیکی میں مختصر بحر کا تسلی بخش آغاز مظفرگڑھ کے اصغر گرمانی نے کیا تھا۔ پھر دھیمے لہجے میں فنکارانہ ادائیگی نے اُن کی غزلوں کو زبان زد عام بنایا۔ اُن کا شعر دیکھیے کہ:
میڈے بعد آسمان ڈو ڈیکھین
تاریں دے وچ میں وی ہوساں
(میرے بعد آسمان کو دیکھنا
تاروں کے اندر میں بھی ہوں گا)

Advertisements
julia rana solicitors

جاری ہے

Facebook Comments

فاروق بلوچ
مارکسی کیمونسٹ، سوشلسٹ انقلاب کا داعی اور سیاسی کارکن. پیشہ کے اعتبار سے کاشتکار.

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply