سرائیکی کے سو پسندیدہ اشعار/ قسط 3۔۔۔ کامریڈ فاروق بلوچ

سرائیکی کے سو پسندیدہ اشعار کے انتجاب کی تیسری قسط دس اشعار بمع اردو ترجمہ شعر نواز احباب کی خدمت میں پیش ہے. ڈیرہ غازی خان میں جب جب سرائیکی شاعری پہ بات ہو گی تو عزیز شاہد کا نام جوش سے لیا جائے گا. نظم اور غزل کے معاملے میں عزیز شاہد عروج دیکھ چکا ہے. منفرد خیالات سے مالا مال عزیز شاہد کی شاعری ٹھیٹھ تلمیحات کا استعمال بھی عزیز شاہد کا خاصہ ہے. اُن کا ایک میٹھا شعر ملاحظہ فرمائیں:
تیڈے رستے تے جو ٹُر پیوں
ساڈے پیریں تے پھُل پئے گئے

(تیرے راستے پہ جو چلنے لگے
میرے پیروں میں پھول پڑنے لگے)

تحصیل تونسہ کے نوجوان مگر تیکھے لہجے کے بہترین شاعر یوسف سنجرانی کا شعر دیکھیے:

شیشے کوں پتھر نال ٹھکاونڑ دا نتیجہ
معلوم ہووی نین ملاونڑ دا نتیجہ

(شیشے کو پتھر سے ٹکرانے کا نتیجہ
معلوم تو ہے آنکھی‍ں ملانے کا نتیجہ)

عالمی مارکسی رجحان کے جنوبی پنجاب میں رہنما کامریڈ آصف لاشاری کا شعر دیکھیں:

ساڈے متھے تو بدبختی مٹ نئیں سگی
خواہ مخواہ سجدے اندر پیشانیاں گلیئن

(ہمارے ماتھے سے بدبختی مٹ نہیں سکی
خواہ مخواہ سجدے اندر پیشانیاں گل گئیں)
اگر سرائیکی شاعری میں سے مصطفیٰ خادم کو نکال دیا جائے تو سرائیکی کی پوری عمارت دھڑام سے گر جائے. کسی نے خوب کہا کہ خادم کے خیالات نے سرائیکی کی ایسی خدمت کی ہے جس کی مثال ابھی تک ناممکن ہے. سرائیکی کے اِس مہان شاعر کا شعر دیکھیے:

بدن دی بھوئیں تے اکھیں دے ساونڑ کوں ترس آوے تاں نندر آوے
تیڈے نکھیڑے دے ہن تھکیڑے خدا لہاوے تاں نندر آوے

(بدن کی زمین پہ آنکھوں کے ساون کو ترس آئے تو نیند آئے
تمہارے ہجر کی تھکاوٹ ہے جسے خدا ہی اتارے تو نیند آئے)

غلام مصطفیٰ خادم کا ہی ایک دوسرا شعر دیکھیے کہ:

میں تیڈا منتظر ہاں مدامیں کنوں
ایتلا نئیں رسیندا غلامیں کنوں

(میں تیرا منظر ہوں مدتوں سے
اتنا نہیں روٹھتے غلاموں سے)

لیہ کی دھرتی پہ کئی عظیم محقق، اعلی شاعر اور بہترین ادیب پیدا ہوئے ہیں. اُن تمام کی صف میں شفقت بزدار اپنی شاعری کو ہاتھ میں تھامے مسکراتے ہوئے نظر آتے ہیں. لیہ کے لوونگ لیجنڈ کا شعر ملاحظہ فرمائیں:

کلہی جاہ تے کاہیں ویہلے کھل آندی ہئے
ہنج دروکڑی مار کے مل آندی ہئے

(تنہائی میں جب کبھی ہنسی آتی ہے
آنسو دوڑتے ہوئے آن ملتے ہیں)

میانوالی کے مسکراتے ہوئے شاعر خالد ندیم شانی بنیادی طور پر اردو کے طبع آزما ہیں، لیکن اُن کا یہ سرائیکی شعر بہت پیارا ہے، ملاحظہ فرمائیں:

رات اندھاری دے وچ جیکر ڈیوا بالو
یکدم جیہڑا چانن تھیندے، اوہا توں اے

(اندھیری رات میں اگر دیا جلایا جائے
اچانک جو روشنی سی ہوتی ہے، وہ تم ہو)

شاکر تونسوی کا شاگرد، سرائیکی کا معتبر حوالہ، سرائیکی کی عبادت کرنے والا، قلندر مزاج، خودنمائی سے کوسوں دور تونسہ کا ایک محنتی، قابل اور فرض شناس استاد جناب بشیر غمخوار 1951 میں پیدا ہوئے. جنوبی پنجاب کے سرائیکی مشاعروں میں بشیر غمخوار کی شہرت سب سے اوپر ہے. اُن کے شعری مجموعے کا نام سنسکرت کا لفظ اشلوک ہے جس کے معنی بھی اُس شعر کے ہیں جو زبان زد عام ہوں. بشیر غمخوار کی شاعری سرائیکی خطے میں زبان زد عام ہے. اُن کا شعر دیکھیے:

ایں سال نوا حال ہئے لجپال طلب دا
آندے ہیں تیڈے شہر تیڈا کینسے پچھدے

(اے میرے لجپال! اِس مرتبہ طلب کی نئی کیفیت ہے، ہم تیرے شہر میں آکر بھی تیرے بارے میں پوچھتے نہیں)

نوآموز شاعر عارف بلال عارف کا زناٹے دار شعر ملاحظہ فرمائیں:

میں سفری دعا پڑھ کے اوندے جسم تے پھوکم
اوں شخص کوں لگدا ہا میڈے پیر نپیسی

(میں نے سفر کی دعا پڑھ کے اُسکے جسم پہ پھونکی
جس شخص کو یہ لگتا تھا کہ میں اُسکے پیر پکڑوں گا)

سرائیکی کے ایک دوسرے نوجوان شاعر نوشیروان اسفند کا یہ شعر بہت پسند کیا گیا کہ:

ڈاڈے ہوراں ان پڑھ تھی کے موضع دے سردار ہَن
ڈاڈے جیہاں تھیونڑ کیتے میں ہنڑ پڑھدا وداں

Advertisements
julia rana solicitors

(دادا ان پڑھ ہو کر تھے موضع کے سردار تھے
دادا جیسا بننے کے لیے میں اب پڑھنے جاتا ہوں)

Facebook Comments

فاروق بلوچ
مارکسی کیمونسٹ، سوشلسٹ انقلاب کا داعی اور سیاسی کارکن. پیشہ کے اعتبار سے کاشتکار.

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply