ایک زمانہ تھا لوگ اونٹ سے پوچھا کرتے تھے کہ اونٹ رے اونٹ تیری کون سی کل سیدھی؟ آج کل وہ یہی سوال پی ڈی ایم سے پوچھ رہے ہیں۔ دو دن ہی کی تو بات ہے سمندر کی لہروں نے پیاسوں کے لیے شبنم اچھالی اور جناب بلاول حضرت مولانا سے جا کر ملے۔ خلق خدا کو یہ نوید سنائی گئی کہ ’’ اب ہم پارلیمان میں حکومت کو ٹف ٹائم دیں گے‘‘۔آج مگر پارلیمان کے مشترکہ اجلاس میں حکومت نے اپنے سارے بل منظور کروا لیے ہیں اور حزب اختلاف ز بان حال سے یہ کہتے ہوئے واک آئوٹ کر گئی ہے کہ یہ ہے ہماری پی ڈی ایم اور یہ ہم حکومت کو ٹف ٹائم دے رہے ہیں۔ جمہوریت کے یہ غازی جو غلطی ہائے مضامین کی صورت پی ڈی ایم کے پرچم تلے موقع کی تاک میں ہیں، اب تک پارلیمان میں کیا حکومت کو حافظ جی کا حلوہ اور کینڈی لینڈ کے چاکلیٹ دے رہے تھے جو اب جلال میں آ کر حلوے اور چاکلیٹ کی بجائے ’ ٹف ٹائم ‘ دیں گے؟ تین سال حکومت کے بیت گئے۔ تین سالوں کا جلال اور مصلحتیں اوڑھ کر حزب اختلاف کے دو عالی قدر رہنما مل بیٹھے تو اعلان کیا ہوا: ’’ حکومت کو پارلیمان میں ٹٖف ٹائم دیں گے‘‘۔ معلوم نہیں تہتر کے آئین کے تناظر میں وزن پارلیمان پر تھا یا ٹف ٹائم پر۔ ہمارے جیسے طالب علم یہ فیصلہ کرنے سے قاصر ہیں کہ قائدین جمہوریت کہنا کیا چاہ رہے تھے۔کیا وہ اب تک گوالمنڈی اور چک جھمرہ میں حکومت کو ٹف ٹائم دیتے پھر رہے تھے اور اب وہ یہ ٹف ٹائم پارلیمان میں دیں گے یا وہ پارلیمان میں اب تک حکومت کو دھریمہ کے ناجر علی قلفی فروش کی قلفیاں دیتے آئے ہیں اور اب وہ قلفیوں کی جگہ ٹف ٹائم دیں گے۔ اکابرین جمہوریت ، معلوم نہیں سادہ بہت ہیں یا ہشیار بہت۔ انہیں خود کے افلاطون ہونے کا زعم ہے یا یہ عوام کو انور مسعود کی بھولی مجھ سمجھتے ہیں جسے اس دور میں بھی انار کلی دیاں شاناں کے بارے میں کچھ معلوم نہیں۔ سیدھی سی بات ہے کہ حزب اختلاف کا بنیادی کام ہی حکومت کو ٹف ٹائم دینا ہوتا ہے۔ ایوان میں بھی اور ایوان سے باہر بھی۔ یہ کیسی سعادت مند حزب اختلاف ہے جو تین سال ہر اہم قانون سازی کے موقع پر بن بلائے حکومتی بل کو ووٹ دینے کے بعد یہ فیصلہ کر رہی ہے کہ اب حکومت کو پارلیمان میں ٹف ٹائم دینا ہے۔ جان کی امان ملے تو ان قائدین سے کوئی پوچھے ’’ اللہ کے بندو !تمہارا صابن سلو ہے کیا؟تین سال کے بعد تمہیں اب یاد آیا کہ پارلیمان میں ٹف ٹائم دینا ہوتا ہے‘‘۔اب تک کیا تم میر درد کی شاعری میں درد کے عنصر پر تحقیق کر رہے تھے۔ ملاقات کے اگلے روز اخبارات کو خبر جاری ہوئی کہ ہم عدم اعتماد لائیں گے۔ پہلے چیئر مین سینیٹ کے خلاف اور اس کے بعد سپیکر قومی اسمبلی کے خلاف۔ یہ اعلان پڑھا تو ملا نصر الدین یاد آ گئے۔ روایت ہے کہ ملا صاحب ایک رو ز چابی گم کر بیٹھے اور گھر میں اسے ڈھونڈنا شروع کر دیا۔ کافی تلاش کے بعد بھی جب چابی نہ ملی تو کسی نے پوچھا مُلا جی چابی گم کہاں ہوئی تھی؟ فرمانے لگے کہ گُم تو گلی میں ہوئی تھی۔پوچھنے والے نے حیرت سے پوچھا کہ جب چابی گُم گلی میں ہوئی ہے تو گھر میں کیوں تلاش کر رہے ہو؟فرمانے لگے : احمق تم دیکھ نہیں رہے کہ گلی میں اس وقت بہت اندھیرا ہے۔ حزب اختلاف کا جھگڑا عمران خان سے ہے۔ اختلاف عمران خان سے ہے۔ نجات عمران خان سے حاصل کرنی ہے۔ لیکن عدم اعتماد انہوں نے چیئر مین سینیٹ اور سپیکر قومی اسمبلی کے خلاف لانی ہے۔ کیونکہ گلی میں اندھیرا بہت ہے۔ حزب اختلاف کے دعوے یوں ہیں کہ جیسے جوش بادہ سے شیشے اچھل رہے ہوں لیکن عمل کی میزان میں یہ جاڑے کی بطخ کی طرح دبک جاتی ہے۔گاہے معلوم یہ ہوتا ہے کہ اس کا جھگڑا یہ نہیں کہ ملک میں سلیکٹڈ کی حکومت ہے یا الیکٹڈ کی۔ ان کی تکلیف یہ ہے کہ ’’ سلیکٹڈ‘‘ کے منصب پر ہم کیوں نہیں۔ان کا جھگڑا سلیکشن کمیٹی کے مینڈیٹ سے نہیں ہے ، ان کا گریہ ہے کہ سلیکشن کمیٹی کے تو ہم بھی خانہ زاد تھے ، ہمیں خدمت کا موقع کیوں نہیں دیا گیا۔ ترکوں کے ڈرامے آج کل پاکستان میں بہت مقبول ہیں۔ ایسے ہی ایک ڈرامے کا نام Magnificient Century ہے۔ اس میں کوئی کنیز بادشاہ کی نگاہ التفات سے محروم ہو جائے تو اگلے بلاوے تک وہ حرم میں ’’ حزب اختلاف‘ ‘ بن جاتی ہے اور جیسے ہی بادشاہ کی نگاہ ناز اس کی طرف اٹھتی ہے حزب اختلاف کی گانٹھ ایسے کھلتی ہے کہ پورے حرمِ شاہی کا دم نکل جاتا ہے۔ حزب اختلاف میں کوئی رہنما حزب اختلاف جیسے تیور رکھتا ہے تو وہ مولانا فضل الرحمن ہیں۔ بلاول صاحب تو مستقبل کے امکانات کی کوہ گری میں مصروف ہیں اور شہباز شریف صاحب کے حصے میں صرف یہ تہمت آئی ہے کہ وہ قائد حزب اختلاف ہیں ۔ ان کی سعادت مندی تو پکار پکار کر یہ کہہ رہی ہے کہ آپ مجھے وفاقی وزیر برائے حزب اختلاف بھی کہہ سکتے ہیں۔حزب اختلاف میں کسی بھی معاملے پر کوئی یکسو نہیں۔ سب کی ترجیح یہ ہے کہ کسی طرح نیک چلنی کا یقین دلا دیا جائے اور آئندہ کے سیاسی امکانات کی کوئی کھڑکی اپنے لیے بھی کھول لی جائے۔جو رویہ مولانا فضل الرحمن کا اس وقت تھا جب صوبہ سرحد میں ان کی حکومت تھی اور وہ مشرف دور میں مستعفی ہونے کو تیار نہ تھے ، وہی رویہ اب بلاول زرداری صاحب کا ہے کہ سندھ میں ان کی حکومت ہے۔اصول ایک ہی ہے کہ اصول کوئی نہیں۔اس اصول پر عمل کرتے ہوئے کردار بدلتے رہتے ہیں۔کہانی ایک سی ہی رہتی ہے۔ پارلیمان کے مشترکہ اجلاس میں جو بل پاس ہوئے ، ان میں بہتری کی بہت گنجائش ہے اور بد گمانی کی بھی۔ کچھ پہلو تو خاصے پریشان کن ہیں ۔ قانون سازی کا تعلق پورے سماج سے ہوتاہے اورکسی بھی رائے کو قانون کا درجہ دینے سے پہلے اس پر تمام متعلقہ طبقات یعنی ’’ سٹیک ہولڈر ز‘سے با معنی مشاورت ضرور کر لینی چاہیے۔ آرڈی ننسوں کے ذریعے طے شدہ قانونی معاملات کو بدل کر نئے قانون بنا لینا بھی پسندیدہ کام نہیں اور محض عددی برتری کی بنیاد پر قانون سازی بھی کوئی مستحسن عمل نہیں ہے۔ جمہوریت ایک طرزعمل کا نام ہے ، اکثریت کی آمریت کا نام جمہوریت نہیں ہوتا۔حیات اجتماعی کے معاملات میں اگر حکمران جماعت محض اس وجہ سے مرضی کی قانون سازی کا انبار لگا دے کہ وہ پارلیمان میں اکثریت کی بنیاد پر قانون سازی کی قدرت رکھتی ہے تو یہ کام قانونی اعتبار سے بھلے درست ہو اس کی اخلاقی حیثیت اور اس کی افادیت دونوں ایک سوالیہ نشان بنے رہتے ہیں۔بلڈوزر کے ذریعے قانون سازی ماضی میں بھٹو صاحب نواز شریف صاحب نے بھی کی اب عمران خان صاحب بھی شوق پورا کر لیں ۔لیکن یہ طے شدہ بات ہے کہ سماج کے لیے ایسے ایڈوینچرز میں خیر کم اور مسائل زیادہ ہوتے ہیں۔
Facebook Comments
بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں