فیشن برانڈز کی سلطنت میں غلام مزدور

فیشن برانڈز کی سلطنت میں غلام مزدور
ناصر منصور
کپاس معیشت کی رگوں میں دوڑتا خون ہے ۔سماج میں موجود رونق اورپھیلی روشنی نظر کے سامنے ہے اس کا ایک اہم سبب کپاس سے بندھی معیشت ہی ہے ۔یہ 65%سے زائد افرادی قوت کو خود میں سمائے ہوئے ہے ۔ہم باہر سے جو کچھ بھی درآمد کرتے ہیں اس کے لیے 60%سے زائد غیر ملکی کرنسی اسی کپاس سے منسلک تجارت عطا کرتی ہے ۔ زراعت کا ایک بہت بڑا حصہ کپاس پر ہی مشتمل ہے لیکن صنعتی پیداور میں بھی اس کا حصہ 70%کے قریب ہے یا یوں کہا جا سکتا ہے کہ ملکی لیبر فورس جو کہ 62ملین یعنی چھ کروڑ بیس لاکھ ہے اس میں سے چار کروڑ کے قریب محنت کش براہ راست کپاس اور اس سے متعلقہ شعبوں سے وابستہ ہیں ۔ کپاس کے کھیتوں سے لیکر ٹیکسٹائل ملز، گارمنٹس ،ہوزری اور فیشن ملبوسات تیار کرنے والی فیکٹریوں تک اس کی کرامات کے جواہر ہر سو پھیلے نظر آئیں گے ۔ یہ ہمہ جہتی شعبہ اپنے اندر گوناگوں طلسمات سمیٹے ہوئے ہے ۔

پاکستان کا شمار دنیا کے چار بڑے کپاس پیدا کرنے اور اس سے تیار ہونے والی مصنوعات برآمد کرنے والے دس بڑے ممالک میں ہوتا ہے ۔ دنیا کے تمام بڑے اور نامور برانڈز ہمارے ہاں سے اپنا مال تیار کرواتے ہیں اور پوری دنیا میں فروخت کر کے بے دریغ منافع کماتے ہیں ۔ہم صرف بین الاقوامی برانڈز ہی کے لیے مال تیار نہیں کرتے بلکہ خود ہمارے اپنے ملک میں کپڑے اور تیار ملبوسات کی مانگ میں زبردست اضافہ ہوا ہے ۔تمام چھوٹے بڑے شہروں میں مقامی برانڈز کے تیار کردہ کپڑے اور ملبوسات کی خریداری کے رحجان نے تیزی سے فروغ پایا ہے اور اس رحجان نے آبادی کے متمول طبقے کو عموماً اور شہری آبادی کے ایک بڑے حصے کو خصوصاً اپنے سحر میں جکڑ لیا ہے ۔ باقاعدگی سے فیشن شوز کا انعقاد اور بڑے پیمانے پر مختلف ذرائع ابلاغ پر تشہیر معاشرے کا چلن ہے ۔ہر موسم کے لیے نئے ڈیزائن مارکیٹ کیے جاتے ہیں جن پرنامور ماڈلز کے ذریعے قبولیت کی مہر ثبت کی جاتی ہے ۔ملک کے بڑے ڈیزائنر انتہائی فخر سے اپنے تخلیق کردہ ملبوسات پر داد وتحسین کے ساتھ ساتھ خوب دولت سمیٹتے ہیں ۔تمام اخبارات فیشن اور ملبوسات سے متعلق کالمز کو نمایاں طور پر شائع کرتے ہیں ۔

جب کہ ملبوسات کے اشتہارات ہر روز نئی دنیا بساتے ہیں ۔ملک کی کئی نامور شخصیات اپنے نام اور شہرت کو ملبوسات کے ذریعے کمائی کا ذریعہ بنائے نظر آتی ہے ۔ سنگر ، نعت خواں ، اداکاراور کھلاڑی وغیرہ اس بہتی گنگا میں نہا رہے ہیں ۔کوئی بھی موقع ہو، گاہکوں کو متوجہ کرنا اور ان کی جیبوں سے پیسہ نکالنے کا گُر کوئی ان سے سیکھے ۔کسی بھی تہوار یا موسم پر ان کی چھاپ اور اجارہ داری دیدنی ہوتی ہے ۔لیکن اس سارے حیرت کدہ حسن، رنگوں کی دھنک اور دولت کی چکا چوند میں کچھ تو ایسا ہے جو مسلسل نظر انداز ہو رہا ہے ۔ کوئی تو ہے جس کا درد اور لاچارگی اس چکا چوند میں دھندلا سی گئی ہے ۔کوئی تو ہے جس کی آہیں ، چیخیں ان کپڑا بُنتی ، رنگتی ،ڈیزائن کرتی ،ملبوسات تیار کرتی بے جان مشینوں کے شور میں دم توڑتی ہوں گی ۔کوئی تو ہے جو گاہک کے ہاتھ میں کپڑا یا تیار لباس آتے وقت یاد نہیں رہتا ،جس کی آرزوئیں ،خواہشات اور تمنائیں ان بڑے بڑے سیل اسٹورز کے باہردم توڑدیتی ہیں ۔یہ وہ مزدورہے جو یہ سب کچھ یعنی فیشن اور ملبوسات کی دنیا تخلیق کرتا ہے ،جو خیال کو حقیقت کا روپ دیتا ہے ۔یہ کپاس کے بیج کو سینچتا ہے ،دھاگہ تیار کرتا ہے ، کپڑا بناتا ہے ، اسے رنگتا ہے ،کاغذ پر بنائے ڈیزائن کو کپڑے پر اتارتا ہے ،مہارت سے کٹائی اور تراش خراش کے بعد لباس تیار کرتا ہے لیکن بے نام رہتا ہے ، ناشاد رہتا ہے اور اپنی شناخت کھو دیتا ہے ۔جب کہ نام اور پیسہ ڈیزائنر ،برانڈ اور ماڈل پاتا ہے ۔یعنی ’’ میری تخلیق ہی رسوائی کا سبب ٹھہری ہے ‘‘

اگر آپ ان ملبوسات کے خریدار ہیں تو ایک سوال جسے آپ نے کبھی اہمیت ہی نہیں دی وہ یہ ہے کہ کیا اس کارگاہِ حسن ورنگ کی حشر سامانیوں سے ہٹ کر آپ نے کبھی کپڑا یا لباس خریدتے ہوئے برانڈ، ڈیزائن اور قیمت کے علاو ہ سستی محنت سے آپ کے قابل بنانے والے مزدور کے شب وروز کے بارے میں کبھی سوچا ہو گا ؟۔یقیناً جواب نفی میں ہو گا ۔کیونکہ یہ بات عمومی طور پر آپ کی ترجیحات کا حصہ نہیں ہے اور یوں آپ اس جرم اور ناانصافی کا بلاواسطہ حصہ بن جاتے ہیں جو اس صنعت اور شعبے سے وابستہ کروڑوں مزدوروں کی زندگیوں پر صدیوں سے مسلط ہے ۔ حالانکہ یہ وہ صنعت ہے جو بیرونی ممالک سے اربوں ڈالرز لیکر آتی ہے، جو ملکی منڈی سے کھربوں روپے کماتی ہے لیکن اس میں کام کرنے والے کروڑوں محنت کش اپنے بنیادی انسانی حق سے محروم ہیں ۔یہ تمام برانڈز چاہے مقامی ہوں یا بین الاقوامی ، مزدوروں کو سرکاری اعلان کردہ کم از کم اجرت نہیں دیتے ۔حالانکہ اعلان کردہ کم از کم اجرت یعنی 15000روپے ماہانہ غیر ہنر مند محنت کش کے لیے ہے لیکن اس صنعت میں کام کرنے والے ہنر مند محنت کشوں کو اتنی بھی اجرت میسر نہیں ہے ۔

ہر بڑے سے بڑا برانڈ اپنے ورکرز سے 12 گھنٹے روزانہ کام لیتا ہے جب کہ قانونی طور پر کام کے اوقات کار آٹھ گھنٹے روزانہ ہے اور ورکرز سے جبراً اوور ٹائم نہیں لیا جا سکتا لیکن ان برانڈز میں ہر ورکر اوسطاً 100گھنٹے ماہانہ جبراً کام کرتا ہے اس کے لیے قانونی طور پر مقررہ ڈبل اوورٹائم نہیں دیا جاتا ۔اتوار کے روز کام لینے پر متبادل چھٹی کے قانون سے محروم رکھا جاتا ہے ۔تمام بڑے ناموں والے برانڈز میں کوئی بھی مزدور سوشل سیکورٹی اور پنشن کے ادارے سے رجسٹرڈ نہیں اگر کوئی ہے بھی تو اس طرح کہ کچھ ورکرز کا کنٹری بیوشن متعلقہ ادارے کے افسران سے ملی بھگت کر کے جمع کرا دیا جاتا ہے لیکن ورکرز کو اس کا علم ہی نہیں ہوتا نہ ہی انھیں کارڈز دیے جاتے ہیں یوں وہ اس سہولت سے استفادہ کرنے سے محروم رہ جاتے ہیں ۔

یہ برانڈز ورکرز سے اپنا تعلق چھپانے کے لیے سالہا سال سے کام کرنے والے ورکرز کو تحریری تقرر نامے یا کوئی دستاویز فراہم نہیں کرتے جو ادارے کے ساتھ ان کی شناخت ظاہر کرسکیں ۔ان ورکرز کو ملازمت سے برخاست کرنے کے لیے گیٹ پر کھڑا ایک چوکیدار ہی کافی ہوتا ہے جو فیکٹری سے اس کے تعلق کے خاتمے کا فیصلہ سناتا ہے ،جس کے خلاف کسی بھی عدالت میں جاکراپنے حق کا پروانہ حاصل کرنا جوئے شیر لانے کے مترداف ہے ۔برانڈزنے اپنی فیکٹریوں میں خوف کا ماحول قائم رکھنے اور ورکرز کو جانوروں کی طرح کام کرنے پر مجبور رکھنے کے لیے ریٹائرڈ فوجیوں کو سیکورٹی یا ایڈمن انچارج بنا نے کا وطیرہ اپنا رکھا ہے جو نہ صرف فیکٹری میں مارشل لاء کا ماحول پیدا کرتے ہیں بلکہ کسی بھی قسم کی مزاحمت کو کچلنے کے لیے اپنے سابقہ ادارے میں تعلقات کوبھی استعمال کرنے سے گریز نہیں کرتے ۔کراچی کے مخصوص حالات میں یہ طریقہ خاصا کارگر رہا ہے۔یوں فیکٹری جمہوریت پر انتظامیہ کی آمریت مسلط کرنے میں یہ سابقہ فوجی اہلکار اہم کردار ادا کر رہے ہیں۔

فیشن برانڈز میں کام کرنے والے ورکرز پرمزدور ڈے، یومِ آزادی، یوم جمہوریہ یا پھر عید کی چھٹیوں سمیت کسی بھی سرکاری اعلان کردہ چھٹیوں کا اطلاق نہیں ہوتا کیونکہ مالکان خود کو ملکی قوانین سے بالاتر تصور کرتے ہیں اور ان چھٹیوں کو عیاشی سے تعبیر کرتے ہیں ،کیونکہ ایسی عیاشی پر صرف برانڈز مالکان اور فیکٹری کے اعلیٰ عہدیداران ہی کا حق ہے ۔پچھلے کچھ عرصے سے خواتین ورکرز کاگارمنٹس اور برانڈزکے لیے مصنوعات تیار کرنے والی فیکٹریوں میں ملازمتوں کے لیے آنے کے رحجان میں زبردست اضافہ ہوا ہے لیکن یہ فیکٹریاں ان کے لیے بندی خانوں کا منظر پیش کرتی ہیں ۔ اجرتیں مردوں کی نسبت کم ہیں ،روزانہ زیادہ گھنٹے کام لیا جاتا ہے ، مشین سے اٹھ کر جانے یہاں تک کہ واش روم جانے کے لیے بھی مخصوص وقت مقرر ہے ۔بیماری میں بھی چھٹی کی اجازت نہیں ، کسی بھی وقت اوور ٹائم کے لیے روکا جاسکتاہے ،انکار پر فی الفور ملازمت سے نکال دیا جاتا ہے۔ ان کے کام پر مامور مرد انچارج کی بدسلوکی وبدتمیزی معمول ہے ،ہراساں کرنے کے واقعات وبا کی طرح پھیلے ہوئے ہیں ۔

خواتین ورکرز دیگر ناانصافیوں کے ساتھ ساتھ صنفی ناانصافی کے دہرے عذاب کا شکار ہیں ۔ ان پر ہونے والا جبر فیکٹری کی چار دیواری میں روز جنم لیتا ہے اور روز ہی خوف کے زور پرموت کی نیند سلا دیا جاتا ہے ۔ اعلیٰ پائے کے ملبوسات تیار کرتی فیکٹریاں جبر کے اڈے ہیں جہاں ورکرز غیر انسانی ماحول میں کام کرتے ہیں ۔کام کے دوران تحفظ کے انتظامات اتنے ناقص ہیں کہ کسی وقت بھی کوئی بڑا حادثہ وقوع پذیر ہو سکتا ہے اور اس سے بچاؤ کے نہ تو کوئی انتظامات ہیں اور نہ ہی کبھی ورکرز کو تربیت دی جاتی ہے ۔پینے کا صاف پانی ، تازہ ہوا ، واش رومز، کینٹین ، ٹرانسپورٹ ، ڈسپنسری ناپید جب کہ ان پر بات کرنا جرم اور ملازمت سے ہاتھ دھونے کے مترادف ہے ۔

عوام کے سامنے روشن چہرہ رکھنے والے ان برانڈز کا مکرہ چہرہ اس وقت عیاں ہوتا ہے جب یہ لیبر قوانین کے اطلاق سے بچاؤ کے لیے گھناؤنے طریقے استعمال کرتے ہیں ۔ملبوسات اور دیگر صنعتوں سے وابستہ مالکان اپنے مفادات کے تحفظ کے لیے خود کو منظم کرتے ہیں، اپنی تنظیمیں بناکر رجسٹرڈکرواتے ہیں۔یہ آل پاکستان ٹیکسٹائل ملز ایسوسی ایشن ،ہوزری گارمنٹس مینو فیکچرنگ ایسوسی ایشن ، چیمبر آف کامرس اینڈ انڈسٹری ، سائیٹ ایسوسی ایشن ، کورنگی ایسوسی ایشن آف ٹریڈ اینڈ انڈسٹری کے علاوہ کئی ایک شعبہ جاتی تنظیمیں بناتے ہیں ،ان کے ذریعے دباؤ ڈال کر حکومت سے مراعات حاصل کرتے ہیں ،یہ ان کا جمہوری اورآئینی وقانونی حق ہے جس کو یہ بخوبی استعمال کرتے ہیں لیکن یہی صنعتکار ورکرز کو تنظیم سازی یعنی یونین بنانے کا جمہوری ، آئینی وقانونی حق نہیں دیتے بلکہ ایسا کرنے والوں کے راستے میں رکاوٹیں پیدا کرتے ہیں ، ہراساں کرتے ہیں، یہاں تک کہ دہشت گردی کے تحت مقدمات قائم کرتے ہیں ۔

صرف اسی پر اکتفا نہیں کیا جاتا بلکہ آگے بڑھ کر خود ورکرز کی جعلی یونینیں رجسٹرڈ کرواتے ہیں ۔یہ گھناؤنا عمل اس لیے کیا جاتا ہے کہ ورکرز اپنی آزاد یونین نہ رجسٹرڈ کروا سکیں ۔ اس غیر قا نونی دھندے میں لیبر ڈپارٹمنٹ مقامی سطح پر اور نیشنل اندسٹریل ریلیشن کمیشن (NIRC)وفاقی سطح پر مالکان کا دستِ راست اور رہنما بنتا ہے ۔یہ شرمناک حقیقت ہے کہ نجی شعبے خصوصاََ ملبوسات کے شعبے میں رجسٹرڈ ہونے والی 90%یونینزNIRCنے بھاری رقومات رشوت کے طور پر لیکر مالکان کے کہنے پر رجسٹرڈ کی ہیں جو کہ پاکٹ یونینز ہیں تاکہ ورکرز کی آزادانہ جمہوری یونین کی رجسٹریشن کو غیر قانونی طور پر قانون کو استعمال کر کے روکا جا سکے۔ ہائی کورٹس یا پھر سپریم کورٹ یہ سارا ریکارڈ طلب کر کے اس لاقانونیت کا پردہ چاک کر سکتی ہے ۔

NIRCجو کہ وفاق میں ورکرز کے حقوق کے تحفط کے لیے بنایا گیا ادارہ تھا وہ مالکان کی ورکرز کے خلاف سازشوں کی آماجگاہ بنا ہوا ہے ۔اس کے تمام اہلکار ( اوپر سے لیکر نیچے تک) روزانہ کی بنیاد پر منڈی لگاتے ہیں اور سپریم کورٹ اور پارلیمنٹ کی ناک کے نیچے انصاف اور قانون بیچتے ہیں ، انھیں کوئی روکنے ٹوکنے والا نہیں کیونکہ اس منڈی میں خریدار صنعت کار اور برانڈز کے مالکان ہو تے ہیں جن کی پشت پر حکومت کھڑی ہوتی ہے ۔دیگر صنعتی اداروں کی انتظامیہ کی طرح برانڈز کے مالکان بھی لیبر قوانین کو دولت کے زور پر اپنی ضرورت کے مطابق استعمال کرتے ہیں۔ 18ویں آئینی ترمیم کے بعد لیبر کے شعبے میں قانون سازی کا مکمل اختیار صوبوں کے پاس ہونے کے باوجود NIRCکے وسیع اختیارات آئینی شقوں کی کھلی خلاف ورزی اور توہین کے زمرے میں آتے ہیں ۔

اس آئینی انحراف کے نتیجے میں برانڈزاپنی تمام فیکٹریاں ایک صوبے میں ہونے کے باوجود کسی دوسرے صوبے میں اپنا ایک دفتر یا گودام دکھاکر خود کو بین الاصوبائی ادارہ قرار دیتے ہیں یوں خود کو صوبائی لیبر کے ادارے کی دسترس سے باہر کر لیتے ہیں اور پھر دو یا دو سے زائد صوبوں سے ممبر شپ ظاہر کر کے دو جعلی یونینز رجسٹرڈ کرا لیتے ہیں ۔کیونکہ قانونی طور پر تیسری یونین بنانے کے لیے فیکٹری کے تمام ملازمین کے 1/5حصے کا یونین میں ممبر ہونا ضروری ہو جاتا ہے جس کا حصول ایسی صورت میں تقریباََ ناممکن ہو جاتا ہے ۔NIRCمیں موجود بکاؤ مال انتظامیہ مالکان کی جانب سے داخل کی گئی یونین رجسٹریشن درخواست پر انتہائی تیزی سے کارروائی کرتی ہے کیونکہ اس میں انھیں رشوت کی مد میں خطیر رقم اور دیگر مراعات دی جاتی ہیں جبکہ ورکرز اگر یونین کی رجسٹریشن کے لیے درخواست دیتے ہیں تو اس پر اتنے اعتراضات لگائے جاتے ہیں کہ ورکرز تھک ہار کر یونین سے لاتعلق ہوجاتے ہیں ۔جب کہ صوبائی لیبر ڈپارٹمنٹ جس کے ذمہ لیبر قوانین کے اطلاق کو یقینی بنانا ہے وہ عملاََ فیکٹریوں کا تنخواہ دار ملازم بنا ہوا ہے ۔ ہر فیکٹری سے ماہانہ بھتہ وصول کیا جاتا ہے جو پورے ادارے میں اوپر تک بدرجہ مراتب تقسیم ہوتا ہے ۔

یہی صورتحال سوشل سیکورٹی ،EOBIکے کرتا دھرتاؤں کی ہے جو اپنے حصے کا مال توڑ کر کروڑوں محنت کشوں اور ان کے خاندانوں کو علاج اور بڑھاپے میں پینشن جیسے حق سے محروم کر دیتے ہیں ۔مزدور حقوق خصوصاََ نجی شعبے سے وابستہ مزدور کی آواز کو دانستہ طور پر میڈیا پر نشر یا پرنٹ ہونے سے روکا جاتا ہے۔اور اکثر اوقات حالات نے ثابت کیا ہے کہ یہ نشر واشاعت کے ادارے نجی شعبے میں ورکرز سے ہونے والی ناانصافیوں اور لاقانونیت پر مجرمانہ حد تک خاموشی اختیار کیے رہتے ہیں ۔نجی شعبہ خصوصاََ ٹیکسٹائل ،گارمنٹس اور برانڈز میں ہونے والی زیادتیوں اور لیبر قوانین کی خلاف ورزی پر ورکرز کے احتجاج کو شعوری طور پر میڈیابلیک آؤٹ کرتاہے ۔میڈیا ہاؤسز کارپوریٹ مالی مفادات اور اشتہارات کو بنیاد بنا کر صحافتی اخلاقیات اور معیارات سے انحراف کرتے ہیں۔ اکثر ایسا ہوتا ہے کہ مزدور تنظیمیں نجی شعبے میں ہونے والی لیبر قوانین شکنی پر آواز اٹھاتی ہیں، احتجاج کرتی ہیں اور اس سے میڈیا کو باضابطہ طور پر آگاہ بھی کرتی ہیں لیکن میڈیا ہاؤسز کی اعلیٰ انتظامیہ نجی شعبے کے جرائم پر پردہ ڈالنے کے لیے ان خبروں کو دبا دیتی ہیں۔اس کی بنیادی وجہ یہ ہے کہ یہ میڈیا گروپس خود اپنے اداروں میں ان جرائم کا ارتکاب کرتے ہیں اور یوں وہ ان احتجاجات کو شعوری طور پرخود پر حملہ تصور کر رہے ہوتے ہیں ۔

اس پس منظر میں کھادی برانڈ کے ورکرز کی حالیہ بہادرانہ جدوجہد نے ایک طرف جہاں لیبر ڈپارٹمنٹ ، سوشل سیکورٹی انسٹیٹیوٹ ،EOBIاورNIRCکی مزدوردشمنی کو عیاں کیا ہے وہاں الیکٹرانک و پرنٹ میڈیا کی بے حسی ،اشتہارات کی ہوس اور کارپوریٹ منافقت کا پردہ بھی چاک کیا ہے ۔ورکرز مسلسل احتجاج کرتے رہے ،لیبر ڈپارٹمنٹ کو مدد کے لیے پکارتے رہے ، وزیر محنت سے لیکر ادارے کے سیکریٹری کو مزدوروں پر گزرنے والی قیامت کا احوال سناتے رہے لیکن کوئی سننے کو تیار نہ تھا ۔ ورکرز اور ان کی تنظیمیں ناانصافی کے خلاف سراپا احتجاج بنی رہیں لیکن ان کی آواز ٹیلی ویژن چینلز اور اخبارات میں جگہ پانے میں دانستہ ناکام بنائی گئی ،کراچی جیسے شہر میں جو میڈیا کا مرکز ہے 6000مزدور ایک جرم اور جبر کے خلاف لڑتے رہے لیکن قلم وکیمرہ پر قابض مافیہ نے مالکان کی ساکھ بچانے کے لیے لاقانونیت کا ساتھ دیا ۔

اس صورتحال کے تدارک کے لیے مزدور دوست نظریاتی کارکنوں نے نئی راہ اختیار کی ۔انہوں نے مزدور احتجاج سے یکجہتی کے لیے خود احتجاج کرنے کا سلسلہ شروع کیا، کھادی انتظامیہ کے مزدور دشمن بیانیے کے جواب میں مزدوروں کا متبادل نقطہ ء نظر پیش کیا ،اس کی نہایت منظم انداز میں سوشل میڈیا پر تشہیر کا آغاز کیا اورمزدوروں کے انٹرویوز پوسٹ کیے گئے ۔ صرف ایک انٹر ویو کو دیکھنے اور شیئر کرنے والوں کی تعداد لاکھوں تک پہنچ گئی جس نے کھادی انتظامیہ کو گھٹنے ٹیکنے پر مجبور کر دیا ۔ سوشل میڈیا پر ورکرز کے احتجاج ، مطالبات اور نجی شعبے خصوصاََبرانڈز کی لاقانونیت اور غیر انسانی رویے کی تشہیر نے سماجی جمود کو توڑا ہے اور برانڈز کی بربریت کو عیاں کیا ہے ۔ سوشل میڈیا پر ورکرز کے مسائل اور تحریک کا نتیجہ ہے کہ عام گاہک اور عوام اس کا حصہ بن گئے۔سوشل میڈیا پراس تشہیر کے دباؤ اور کچھ بہادر نوجوان صحافیوں کے ڈٹ جانے کے نتیجے میں چند اخبارات نے مزدوروں کے احتجاج کی خبر شائع کیں یوں نتیجے کے طور پر کھادی انتظامیہ نے مزدوروں کے حقوق کا تحریری عہد کیا جو ایک بڑی فتح ہے ۔

Advertisements
julia rana solicitors london

اس جدوجہد کا روشن پہلو اور سبق یہ ہے کہ مربوط اور منظم جدوجہد جو کہ متعین اہداف رکھتی ہو اس وقت کامیابی سے ہمکنار ہو سکتی ہے جب اس میں حصہ لینے والے تمام عناصر اپنے اپنے حصے کا کام بروقت سرانجام دے رہے ہوں ۔ اس تحریک کی وقتی کامیابی دیگر فیشن ملبوسات کے برانڈز کے لیے شاید بری خبر ہو کہ آنے والے دنوں میں ان کی فیکٹریوں میں کام کرنے والے مزدور بھی غلامی کے خلاف نعرہ زن ہوں گے لیکن یہ کمزور مزدور تحریک کے لیے نئی توانائی کی نوید بنے گی ۔

Facebook Comments

مہمان تحریر
وہ تحاریر جو ہمیں نا بھیجی جائیں مگر اچھی ہوں، مہمان تحریر کے طور پہ لگائی جاتی ہیں

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply