موسیقی اور محبت کی کوئی سرحد نہیں ہوتی۔۔مرزا یاسین بیگ

لتا جی نے 92 سال کی زندگی پائی، جبکہ انڈین فلم انڈسٹری کے 100 سال میں سے 71 سال ان کے تھے۔ اب وہ ہمیشہ کیلۓ امر ہوگئیں۔ ان کی زندگی کی خاص خاص باتیں۔۔

* لتا جی نے 36 ہندوستانی زبانوں میں 30 ہزار سے زیادہ گانے گائے۔ گینیس ورلڈ ریکارڈ بک میں اپنا نام درج کروایا۔ وہ محض ایک گلوکارہ نہیں بلکہ ہمارے روزمرہ کی زندگی کا حصہ بن چکی ہیں۔

*لتا منگیشکر کےآنند دھن نام کے موسیقار کے ساتھ قریبی تعلقات تھے۔ آنند دھن نے ساٹھ کی دہائی میں چار مراٹھی فلموں کا میوزک دیا تھا ،یہ کوئی اور نہیں بلکہ خود لتا منگیشکر تھیں جنھوں نے نام تبدیل کر کے میوزک دیا تھا۔ 1950 کی دہائی میں انھوں نے اپنے نام سے بھی ایک مراٹھی فلم سادھی مانس کا بھی میوزک دیا تھا، اور بہترین میوزک ڈائریکٹر کا اعزاز حاصل کیا تھا۔

*انڈیا کے پہلے وزیر اعظم جواہر لال نہرو کے بارے میں مشہور تھا کہ، وہ نہ تو کھلے عام روتے تھے اور نہ ہی کسی کا رونا پسند کرتے تھے لیکن 27 جنوری 1963 کو جب لتا نے نغمہ نگار پردیپ کا لکھا نغمہ اے میرے وطن کے لوگو، گایا تو نہرو اپنے آنسو نہیں روک پائے۔

*لتا کی آواز کے سریلے پن کے ساتھ ساتھ، اُردو کے ان کے بہترین تلفظ نے بھی لوگوں کی توجہ حاصل کی اور اس کا سہرا ایک طرح سے دلیپ کمار کے سر جاتا ہے۔ ہریش بھیمانی اپنی کتاب میں لکھتے ہیں کہ ایک دن انل بسواس اور لتا لوکل ٹرین سے گڑگاؤں جا رہے تھے۔ اتفاق سے اسی ٹرین میں باندرہ اسٹیشن سے دلیپ کمار بھی چڑھے۔ اب انل بسواس نے اس نئی گلوکارہ کا تعارف دلیپ صاحب سے کروایا، تو وہ بولے کہ مراٹھی لوگوں کے منھ سے دال بھات کی مہک آتی ہے وہ اُردو کا بگھار کیا جانیں؟ اس بات کو لتا نے ایک چیلنج کے طور پر لیا۔ اس کے بعد شفیع صاحب نے ان کے لیے ایک مولوی استاد کا بندوبست کیا، جن کا نام محبوب تھا۔ لتا نے اُن سے اُردو سیکھی۔

*لتامنگیشکر اور نور جہاں کے درمیان بہت گہری دوستی تھی ،ملک کی تقسیم کے بعد نور جہاں پاکستان چلی گئی تھیں۔ سنہ 1952 میں جب ایک بار لتا امرتسر گئیں تو ان کا دل چاہا کہ نور جہاں سے ملاقات کی جائے،جو کہ صرف دو گھنٹے کی دوری پر لاہور میں رہتی تھیں۔ لتا نے نور جہاں کو فون کیا اور ایک گھنٹے تک بات ہوتی رہی ،بعد میں دونوں نے واہگہ سرحد پر ملاقات کرنے کا فیصلہ کیا۔مشہور موسیقار سی رام چندرن اپنی سوانح حیات میں لکھتے ہیں کہ میں نے اپنے تعلقات کا استعمال کر کے یہ ملاقات اس جگہ کروائی جسے فوج کی زبان میں نو مین لینڈ کہا جاتا ہے۔

جیسے ہی نورجہاں نے لتا کو دیکھا، وہ دوڑتی ہوئی آئیں اور لتا کو زور سے گلے لگا لیا۔ دونوں کی آنکھوں سے آنسو بہہ رہے تھے اور ہم لوگ بھی جو یہ نظارہ دیکھ رہے تھے اپنے آنسو نہیں روک پائے، یہاں تک کہ دونوں طرف کے فوجی بھی رونے لگے۔نور جہاں لتا کے لیے لاہور سے مٹھائی اور بریانی لائی تھیں، نور جہاں کے شوہر بھی ان کے ساتھ تھے اور لتا کے ساتھ ان کی بہنیں اوشا اور مینا بھی تھیں۔

*لتا نے جب یش چوپڑا کی فلم ویر زارا کے لیے گانے گائے، تو ان سے یہ کہہ کر پیسے لینے سے انکار کر دیا کہ وہ ان کے بھائی کی طرح ہیں، لیکن جب فلم ریلیز ہوئی تو چوپڑا نے ایک مرسڈیز اُنھیں بطور تحفہ بھجوائی تھی۔ زندگی کے آخری دنوں تک ،لتا اسی کار میں سواری کرتی تھیں۔

*لتا منگیشکر نے استاد سلامت علی خاں سے ٹوٹ کر محبت کی اور انھیں شادی کی پیشکش بھی کی تھی، لیکن ہر لازوال محبت کی طرح اس کا انجام بھی ناکامی ٹھہرا تھا۔

*لتا کو ہیروں کا شوق تھا اور 1948 میں 700 روپے میں اُنھوں نے اپنے لیے ہیرے کی انگوٹھی بنوائی تھی ،جو وہ ہمیشہ پہنا کرتی تھیں۔ وہ سونے کی پائل پہنا کرتی تھیں۔لتا کو جاسوسی رسالے پڑھنے کا بھی شوق تھا۔ ان کے پاس شرلاک ہومز کی کتابوں کا ذخیرہ تھا۔ مٹھائیوں میں لتا کو جلیبی پسند تھی اس کے علاوہ اُنھیں دہی بڑے، گلاب جامن، اور سمندری جھینگے بھی پسند تھے۔

*لتا کے ہاتھ کا مٹن پسندہ جس نے بھی کھایا وہ کبھی بھول نہیں پایا۔ وہ سموسے بہت پسند کرتی تھیں لیکن قیمے کے۔ اُنھیں لیموں کا اچار اور جوار کی روٹی بھی پسند تھی۔

Advertisements
julia rana solicitors

*جاوید اختر نے لتا جی کے بارے میں کہا کہ ،اس کرہ ارض پر صرف ایک سورج، ایک چاند اور ایک لتا ہے۔

Facebook Comments

مکالمہ
مباحثوں، الزامات و دشنام، نفرت اور دوری کے اس ماحول میں ضرورت ہے کہ ہم ایک دوسرے سے بات کریں، ایک دوسرے کی سنیں، سمجھنے کی کوشش کریں، اختلاف کریں مگر احترام سے۔ بس اسی خواہش کا نام ”مکالمہ“ ہے۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply