معیار کی درستگی۔۔اشفاق احمد

اظہار شخصیت کا خاصا ہے۔ ہر شخصیت اپنے ہونے کا اظہار لازم کرتی ہے۔ بس ادائیں کچھ مختلف ہیں۔ کسی کو بہت کچھ بولنا ہے لہذا اسے سننے والوں  کی تلاش ہے۔ کوئی  اپنے اظہار کے لیے لفظ ڈھونڈ نہیں پاتا تو اسے بولنے اور لکھنے والوں کی تلاش ہے جن کے لفظوں میں وہ خود کو سنتا ہے، پڑھتا ہے اور سمجھتا ہے۔ کچھ ایسے بھی ہیں جن کو دونوں ادائیں رکھنے والوں کی تلاش ہے کہ اپنے بول سے ہمہ وقت انہیں لفظوں کی مالا میں پرو کر خود کی تلاش میں مدد دیں اور ساتھ ہی انہیں سن کر ان کے اندر کے طوفان کو نکلنے کا رستہ دیں۔

ایک صحت مند معاشرے کے لیے ترتیب کچھ یوں بنتی ہے کہ بیک وقت دونوں ادائیں رکھنے والے زیادہ ہوں، صرف سننے والے اس سے قدرے کم اور صرف بولنے والے سب سے کم۔
ہوا یوں ہے کہ ترتیب الٹ گئی  ہے۔ بولنے والے بہت زیادہ، سننے والے بہت کم اور دونوں ادائیں رکھنے والے تو ناپید ہونے کے قریب۔

جب  ہی تو ایک بے ہنگم سا شور پربا ہے کہ کان پڑی آواز سنائی  نہیں دے رہی۔

یہ ترتیب تعداد کے لحاظ سے نہیں بگڑی بلکہ “معیار” کے لحاظ سے بگڑی ہے ۔ معیار محض اشیاء تک محدود نہیں ہوتا بلکہ یہ رویوں اور احساسات کے لیے بڑھ کر مطلوب ہوتا ہے۔ اس سطح پر معیار کی اصل غذا وہ مشترک قدریں ہیں جو کسی بھی معاشرے کی صحت کے لیے درکار ہوتی ہیں۔ سلیقہ، تہذیب، شائستگی اور باہمی احترام، یہ وہ معیارات ہیں جو گر مفقود ہوں تو سچ دھندلا جاتا ہے اور منزل کی جانب سفر بے سمت۔ معیار اگر توجہ کا مستحق ٹھہرے تو ہی اس الٹی ترتیب کو سیدھا ہونے کی کچھ سبیل پیدا ہوگی۔
بس ان لوگوں کے سامنے آنے کی دیر ہے جن میں بیک وقت بولنے اور سننے کی ادائیں انہی مشترک قدروں سے معطر ہوں۔ جو جانتے ہیں کہ کب، کیا اور کیسے بولنا ہے؟ اور ساتھ ہی یہ بھی کہ کیوں سننا ہے؟

Advertisements
julia rana solicitors

بات اگر معیار کی ہے تو پھر ایسے لوگوں کی بہت  زیادہ تعداد بھی ضروری نہیں۔ ان کی قابل ذکر تعداد بھی معاشرے کی درست سمت میں سفر کے آغاز کے لیے کافی ہے۔

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply