بارڈر کا کسان

بارڈر کا کسان
جوانی تو کسی بے جان پہ بھی خوبصورت نظر آتی ہے. لہلہاتی گندم کے خوشوں کے ساتھ نذیر احمد بھی جھوم رہا تھا. اب کی بار قرض بھی اتر جائے گا. رب کی مہر سے اس دفعہ کی فصل زیادہ ہوئی ہے. پھر بارڈر پرپرندے آر پار جاتے دیکھتا ہوا نذیر مال ڈنگر کی خیر خبر لینے چلا گیا. اس دفعہ تو نذیر کی تین بھوریاں. چار کالیاں اسکے ڈیرے کی رونق بڑھا رہی تھیں. گاؤں کے لوگ اس محنتی جیرے کی مثالیں دیتے نہیں تھکتےتھے.جیرے نے گورداسپور سے ہجرت کرکے شکرگڑھ ڈیرے ڈالے تھے. خاندان تو سارا مارا گیا فقط نذیر بچا جسے کچھ زمین کا ٹکڑا عنایت ہوا. اسکے اچھے وقت کے فقط چند سال ہی ہوئے تھے. وہ شکرگزار اور ملک سے محبت کرنے والا انسان تھا.
عشاء کی نماز آج اس نے گھر ہی پڑھی کیونکہ دشمن نے گولہ باری شروع کی ہوئی تھی. اس نے شکرانے کے نوافل کوگھر ،ملک کی حفاظت کے نفل میں بدلنے کی نیت کرتے ہوئے پڑھا. یکا یک ایک خونی گولہ اسکے مال ڈنگر کی چھت پہ گرا۔ اسکے لرزتے دعا مانگتے ہاتھ نیچے گر گئے. بشیراں بھی وظیفہ کرتی شوہر کے پیچھے بھاگی. نذیر احمد کی کالیاں بھوریاں نہیں وہاں اکٹھا گوشت جل رہا تھا. ابھی وہ اس کیفیت سے باہر نہیں تھا نکلا کہ ایک اور گولا بشیراں کے پاس پھٹا. وہ چیختے ہوئے بشیراں کو پیچھے دھکیلتے ہوئے چیخ رہا تھا بھاگو بچاؤ. اسے اب بھوریوں کالیوں کی نہیں گھر کی فکر ہورہی تھی. جہاں وہ ارشد اور ہاجرہ کوسوتا چھوڑ کے آیا تھا. بشیراں زخمی تھی. اسکا خون تھا کہ راوی بنا تھا رکنے کا نام ہی نہیں لے رہاتھا. گاؤں کے عطائی ڈاکٹر نے فرسٹ ایڈ دے کرکہا تھا کہ اب اسے شہر لے جاؤ علاج کے لئے.
مرتا کیا نہ کرتا زخمی بیوی جوان سال بیٹی اور چھوٹے بیٹے کو لئے جب نذیر احمد گھر سے نکلا تو اس کی کل متاع اسکا گدھا تھا باقی مال ڈنگر تو رات کی گولا باری میں تباہ ہو چکا تھا. زخمی بیوی کی کراہ سن کے نذیر احمد لجاجت سے بولا نیک بختے کیوں پریشان ہوتی ہے. حکومت نے ہمارا بندوبست کردیا ہے.
جب نذیر اپنے کھیتوں کے قریب سے گزرا تو اس کا کلیجہ منہ کو آگیا وہ گندم کی کھڑی فصل میں بنتے مورچے اور ٹینک یوں دیکھ رہا تھا جیسے باپ کے سامنے کنواری بیٹی کی کوئی عزت لوٹ رہاہو.وہ بھاگتا ہوا اپنے کھیت کے پاس مٹی جو سونا اگلتی تھی آج بارود کی بو سے بھری ہوئی تھی. فوجی کو دیکھ کے ماتھے پہ ہاتھ رکھ کے بولا مائی باپ یہ میری فصل تھی میں نے کٹائی کرنی تھی دودن بعد. فوجی نے کرخت لہجے کہا تجھے کرنل صاحب سے تین ہزار مل جائے گا تیری فصل کا. اب پیچھے ہٹ ایک تو آپ لوگوں کی حفاظت کرو اور پھر باتیں بھی سنو. ہٹو شکر کرو فصل چلی گئی عزت بچی ہے وہ اپنا ذہن بٹانے کے لئے اپنے چھوٹے بیٹے کے ساتھ سیف الملوک پڑھنا شروع ہو گیا
باغ تیرے دی راکھی کر کر ساری عمر گزاری
جدوں پھل پکن دا ویلا آیا لے گے ہور بپاری
ابھی تو صبح کا زخم تازہ تھا جب اس نے اپنی دو بھوریاں(گائے) صحن میں دفنائیں۔ وہ کتوں گیدڑوں کے حوالے نہیں کرنا چاہتا تھا. شہر میں ایک سرکاری کلرک اندراج کے لئے بیٹھا تھا ۔نذیر نے اندراج کروا کر ایک سرکاری سکول میں ڈیرے ڈال لئے. جاتے ہوئے کلرک صاحب بولے اوئے نذیر احمدا کوئی چیز چاہئیے تو ہاجرہ کو بھیج دینا . نذیر نے ماتھے پہ ہاتھ رکھ شکر ادا کیا اور بولا پتر ہاجرہ شکر اے عزت بچ گئی نہیں تو1947، 1965، 1971میں حرامی ہندؤں نے رات کو حملہ کر کے ہماری عورتیں اٹھا کر لے گیا تھا۔پتر مہر ہے سوہنے رب کی اب ہماری عزت بچ گئی. صبح سویرے نماز کے بعد ہاجرہ روٹی لینے گئی واپس نہیں آئی نذیز احمد پریشان ہو کہ بھاگا. تو دیکھا ایک سکول کے کمرے کے نیچے ہاجرہ گٹھڑی کی طرح پڑی ہے. وہ تو یوں لگ رہی تھی جیسے بھیڑیوں کا بھنبھوڑا گوشت. نذیر نے ابھی ہاتھ ہی لگایا تھاتو چیخ کر بولی ہٹ پیچھے ہندو کتے. نذیر بولا پتر میں تیرا پیو کیوں کملی ہو گئی ہے. بولی ابا چپ ہو جا ہم غلطی سے ہندوستان آگئے ہیں ابا نام مسلمانوں والے ہیں. یہ 1947 سے اب تک نہیں بدلے ابا ساڈی کوئی عزت نہیں بچتی. ابا بول پاکستان مردہ باد ابا زندگی بچا..

Facebook Comments

رانا مدثر علی
میں مدثر علی ایک پی ایچ ڈی سکالر ہوں

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

براہ راست 0 تبصرے برائے تحریر ”بارڈر کا کسان

  1. یہ ایک بارڈر پہ رہنے والے غریب کسانوں کی اصل حالت میں نے بتائی ہے. میں خود ایسے ایک سرکاری سکول میں پڑھتا رہا ہوں جہاں بارڈر کے قرب و جوار کے لوگ شکرگڑھ شہر کے سکول میں ڈیرے ڈالتے تھے. یہ ان تمام دوستوں کے لئے جنہیں جنگ بہت پسند ہے. وہ کبھی ایک دن بارڈر پہ اپنی فیملی سمیت کچھ دن گزاریں…ڈرائنگ روم میں بیٹھ کے تجزیہ نہیں کیا. سچ اصل لکھا ہے. باقی اخلاقی لحاظ سے ہمارے رویے کتنے اعلی ہیں یہ بھی بتانے کی ضرورت نہیں. ماشاءاللہ وہ جعلی دوائیاں. مردار گوشت. قبضہ مافیا. وغیرہ سب خوبیاں ہیں اس قوم میں. معذرت میرے سخت الفاظ پہ

Leave a Reply