ورجینیا وولف کی اک تقریر۔۔ ماذر بلوچ

انگریزی ادب کی معروف ادیبہ اور حقوقِ نسواں کی علم بردار ورجینیا وولف نے 1931 عورتوں کی ایک انجمن کی دعوت پر ایک یادگار تقریر کی تھی۔ جو درج ذیل ہے۔

جب آپ کی سیکرٹری نے مجھے فون کیا تو اس نے مجھے بتایا کہ آپ کی سوسائٹی عورتوں کی ملازمتوں اور پیشوں میں دلچسپی رکھتی ہے اور اس نے مشورہ دیا کہ میں آپ لوگوں کو اپنے پیشہ ورانہ تجربات کے بارے میں کچھ بتاؤں۔  یہ بات بجا کہ میں ایک عورت ہوں اور میرا ایک پیشہ بھی ہے لیکن اس پیشے کے تجربات کیا ہیں؟ یہ ایک مشکل سوال ہے۔ میرا پیشہ ادب ہے اور اس پیشے میں ایسے تجربات بہت کم ہیں جو صرف عورتوں کے لیے مخصوص ہیں۔ میں نے جس راہ پر چلنا شروع کیا اسے مجھ سے پہلے فینی برنی‘ ایفرابین‘ ہیریٹ مارٹینو‘ جین آسٹن‘ جارج ایلیٹ کے علاوہ بہت سی اور عورتوں نے‘ جن میں سے بعض مشہور ہوئیں اور بعض یا تو نام نہ پیدا کر سکیں یا بھلا دی گئیں‘آسان کر رکھا تھا۔ اس میں میری باری آنے تک راہ کافی حد تک ہموار ہو چکی تھی۔ ادب ایک با ادب اور بے ضرر پیشہ بن چکا تھا۔ قلم سے چند لکیریں کھینچنے سے خاندان کا امن و سکون خطرے میں نہ پڑتا تھا۔ خاندان کی مالی حالت بھی متاثر نہ ہوتی تھی۔ چند سکوں سے اتنے کاغذ خریدے جا سکتے تھے کہ شیکسپیر کے سارے ڈرامے لکھے جا سکیں۔ ۔ ۔ اگر کوئی لکھنا چاہے تو۔ میرے خیال میں کاغذ کی ارزانی عورتوں کی لکھنے کی طرف مائل ہونے کی اہم وجہ ہے۔ دوسرے فنون اور پیشوں کو اختیار کرنے کے لیے بہت سی رقم کی ضرورت ہے۔

اگر میں آپ کو اپنی ذاتی کہانی سنانا چاہوں تو وہ بہت سیدھی سادہ ہے۔ آپ ایک لڑکی کا تصور کریں جو اپنی خوابگاہ میں قلم لیے بیٹھی ہے۔ وہ دن کے دس بجے سے ایک  بجے تک اس کاغذ پر بائیں  سے دائیں قلم چلاتی ہے پھر اسے خیال آتا ہے کہ اس نے جو چند صفحے کالے کیے ہیں انہیں ایک لفافے میں ڈال کر کونے کے لیٹر بکس میں ڈال دے۔ اس طرح میں ایک جرنلسٹ بن گئی اور مہینے کی پہلی تاریخ کو مجھے ایک ایڈیٹر کا خط اور ساتھ  ہی ایک پاؤ نڈ  دس شلنگ اور چھ پنس کا ایک چیک ملا جو میری مزدوری تھی۔ میں خوشی سے بے حال تھی۔  مجھے اپنی محنت کا پہلا معاوضہ ملا تھا۔ لیکن میں سوچتی ہوں کہ کیا میں اپنے آپ کو پروفیشنل عورت کہہ سکتی ہوں؟ مجھے زندگی کی تلخ حقیقتوں سے کتنا تعلق ہے؟ میں نے اپنی پہلی تنخواہ سے نہ تو کھانے پینے کی چیزیں خریدیں‘ نہ گھر کا کرایہ ادا کیا‘ نہ جوتے خریدے اور نہ ہی قصائی کا بل ادا کیا۔ ۔ ۔ ۔ بلکہ بازار جا کر ایک خوبصورت بلی خرید لائی۔ ۔ ایک پرسٹین بلی، جس نے جلد ہی میرے تعلقات میرے ہمسایوں سے کشیدہ کر دیے۔

مضامین لکھنا اور پھر ان کی آمدنی سے بلیاں خریدنا بظاہر ایک آسان کام لگتا ہے لیکن ذرا ایک لمحہ ٹھہریے۔ مضامین لکھنے سے پہلے یہ جاننا ضروری ہے کہ وہ مضامین کن موضوعات کے بارے میں ہوں گے۔ مجھے یاد ہے کہ میرا پہلا مضمون ایک مشہور آدمی کے ناول کے بارے میں تھا۔ جب میں اس ناول پر تبصرہ لکھ رہی تھی تو مجھے احساس ہوا کہ اگر مجھے تبصرے لکھنے ہیں تو مجھے ایک آسیب سے نبردآزما ہونا پڑے گا اور وہ آسیب ایک عورت تھی اور جب میں نے اس آسیب زدہ عورت کو قریب سے دیکھا تو اسے ایک مشہور نظم کی ہیروئن کی یاد میں ’ گھریلو فرشتہ‘ کے نام سے پکارنا شروع کر دیا۔ وہ آسیب زدہ عورت میرے اور میری تحریروں کے درمیان حائل رہتی۔ وہ میرے کام میں مزاہمت پیدا کرتی۔ میں اس سے اتنی تنگ آئی کہ بالآخر میں نے اس کا گلا گھونٹ دیا۔ وہ عورتیں جو مجھ سے ایک نسل بعد پیدا ہوئی ہیں شاید اس کردار سے واقف نہ ہوں۔ آئیں میں آپ کا اس کردار سے مختصر سا تعارف کرواتی ہوں۔ اس کردار میں بہت سی خوبیاں تھیں۔ وہ بہت ہمدرد دلچسپ اور بے غرض تھی۔ وہ قربانی کی بہت دلدادہ تھی۔ وہ ہمیشہ اوروں کا خیال رکھنے میں مصروف رہتی۔ اس کی اپنی نہ کوئی خواہش تھی اور نہ نظریہ۔ مختصر یہ کہ وہ بہت پاکباز اور مقدس تھی اور یہی اس کی سب سے بڑی خوبصورتی سمجھی جاتی تھی۔ ملکہ وکٹوریا کے آخری دنوں میں یہ آسیب‘ یہ گھریلو فرشتہ‘ یہ عورت ہر گھر میں بستی تھی۔

جب میں نے لکھنا شروع کیا تو بہت جلد میری اس سے مڈ بھیڑ ہوئی۔ مجھے کاغذ پر اس کے پروں کی پرچھائیاں نظر  آتیں اور کمرے میں اس کے قدموں کی چاپ سنائی دیتی۔ جب میں نے ایک مشہور مرد ناول نگار کے ناول پر تبصرہ لکھنا شروع کیا تو اس نے سرگوشی کی ’میری پیاری! تم ایک نوجوان عورت ہو۔ تم ایک ایسی کتاب پر قلم اٹھا رہی ہو جو ایک مرد کی تحریر کردہ ہے۔ احتیاط سے کام لینا۔ تھوڑی سی تعریف‘ تھوڑی سی غلط بیانی اور اپنی جنس کا بہت سا عشوہ و انداز و ادا استعمال کرنا۔ کبھی کسی پر یہ ظاہر نہ ہونے دینا کہ تمہارا اپنا ایک نظریہ حیات ہے اور سب سے مقدم یہ کہ طہارت کا لبادہ اوڑھے رکھنا۔ اس نے میری قلم کی رہنمائی کرنی چاہی۔ اس مرحلے پر میں ایک لحاظ سے خوش قسمت تھی ۔ میرے آبا و اجداد نے میرے لیے اتنی رقم چھوڑی تھی کہ مجھے سال کے پانچ سو پونڈ مل جاتے تھے اس لیے میری زندگی کا دارومدار میری تحریروں اور عشوہ و اندازو ادا پر نہ تھا۔ میں نے بڑھ کر اسے گلے سے دبوچ لیا اور اسے جان سے مارنے کی پوری کوشش کی۔ اگر کوئی مجھے عدالت کے کٹہرے میں کھڑا کر دیتا تو میں کہتی کہ وہ اقدامات میں نے اپنی ذات کے دفاع کے لیے کیے تھے۔ اگر میں اسے قتل نہ کرتی تو وہ مجھے قتل کر دیتی۔ وہ میری تحریروں سے ان کا دل نوچ لیتی۔ ان کی روح چھین لیتی۔

مجھے احساس ہو گیا تھا کہ کسی کے ناول پر بھی رائے دینا اتنا آسان نہیں۔ جب تک انسان کا اپنا کوئی نظریہ نہ ہو انسانی تعلقات‘ اخلاقیات‘ جنسی روابط کے بارے میں رائے نہ ہووہ چھوٹی سی تحریر بھی ٹھیک سے نہیں لکھ سکتا۔ ’گھریلو فرشتے‘ کی نظر میں عورتیں یہ کام نہیں کر سکتیں۔ اس کے خیال میں اگر عورتوں کو ترقی کرنی ہے تو انہیں تصنع اور جھوٹ کی زندگی گزارنی ہوگی۔ اس لیے جب بھی مجھے کاغذ پر اس کے پروں کا عکس یا پرچھائیاں نظر آئیں میں نے وہیں سیاہی کی دوات الٹ دی۔ اس نے سسک سسک کر جان دے دی۔ ایک آسیب کا قتل ایک حقیقت کے قتل سے کہیں زیادہ دشوار ہے۔ وہ چھپ چھپ کر میری تحریروں میں رینگ آتی ہے۔ یہ علیحدہ بات کہ بالآخر میں اسے ختم کرنے میں کامیاب رہی لیکن مقابلہ بہت سخت تھا۔ میں نے جو وقت اس کے ساتھ نبردآزما ہونے میں صرف کیا وہ میں کہیں بہتر کاموں میں صرف کر سکتی تھی۔ میں یونانی سیکھ سکتی تھی۔ میں زندگی کے کئی اور معرکے سر کر سکتی تھی لیکن مجھے اس سے جنگ  کیے بغیر چارہ نہ تھا اور صرف مجھے ہی نہیں اس دور کی ہر مصنفہ کو اس ’گھریلو فرشتے‘ سے مقابلہ کرنا ضروری تھا بلکہ اسے قتل کرنا مصنفہ بننے کے پیشے کے لیے اہم تھا۔

اور پیشوں میں نہ بکھیر دیے جائیں جو انسان نے آج تک سیکھے ہیں۔ اسی لیے میں آج آپ سب کے سامنے حاضر ہوئی ہوں۔ احترام کے ساتھ۔ آپ وہ عورتیں ہیں جو اپنے تجربات اور اپنی ناکامیوں اور اپنی کامیابیوں کے ساتھ اس خاکے میں رنگ بھریں گی جس سے عورت کی حقیقت اور تشخص اجاگر ہوگا۔

میں اپنے پیشہ ورانہ تجربات کی کہانی کو ایک قدم آگے بڑھاتی ہوں۔ مجھے پہلے اپنے مضمون پر جو تھوڑی سی رقم ملی میں نے اس کی بلی خرید لی۔ ایک بلی بہت اچھی چیز ہے لیکن کافی نہیں۔ ’مجھے ایک موٹر کار خریدنی چاہیے‘ یہ سوچا تو میں نے ناول لکھنے شروع کیے۔ یہ عجیب بات کہ آپ لوگوں کو کہانی سنائیں اور وہ آپ کو کار خریدنے کا موقع دیں اور اس سے بھی عجیب تر یہ کہانیاں سنانے سے زیادہ دلچسپ اور کوئی بات نہیں۔ کسی کے ناول پر تبصرہ لکھنے سے کہیں زیادہ دلچسپ۔

اب اگر میں آپ کی سیکرٹری کا مشورہ مانوں اور اپنے پیشہ ورانہ تجربات سے آگاہ کروں تو مجھے آپ کو وہ عجیب و غریب تجربہ سنانا پڑے گا جو ناول لکھنے کے دوران مجھے پیش آیا۔ اس تجربہ کو سمجھنے کے لیے آپ کو ایک ناول نگار کے ذہن کو تصور کرنا پڑے گا۔ مجھے امید ہے کہ میں ناول نگاروں کے پیشہ ورانہ رازوں سے پردہ نہیں اٹھا رہی۔ ایک ناول نگار کی یہ خواہش ہوتی ہے کہ وہ جتنا تحت الشعور میں رہے بہتر ہے۔ وہ ایک لامتناہی ہستی کا خیر مقدم کرتا ہے اور وہ چاہتا ہے کہ زندگی ایک خاص رفتار سے آگے بڑھتی رہے

خاموشی کی فضا نہ ٹوٹے۔ اس کے ذہن میں چہروں‘ کتابوں اور واقعات کی جو فلم چل رہی ہے اس میں خلل نہ پڑے۔ اس کے تصور کے تہہ خانوں سے جو ہیرے اور موتی سطح پر آنے والے ہیں اور سمندر کی گہرائیوں سے جو چیزیں نکل کر ساحل پر بکھرنے والی ہیں اس عمل میں فرق نہ آئے۔ یہ عمل مردوں اور عورتوں کے لیے یکساں ہے۔ ناول لکھنا ایک خواب کی حالت میں زندہ رہنے کی طرح ہے۔ ایک ایسی لڑکی کا تصور کریں جو اپنے کمرے کی میز پر کاغذ اور قلم لے کر منٹوں کیا گھنٹوں   بیٹھی رہتی ہے اور قلم کو دوات میں نہیں ڈبوتی۔ اس لڑکی کے تصور سے ،میرے ذہن میں اس مچھیرے کا خیال آتا ہے جو اپنے خوابوں کی جھیل میں کانٹا ڈالے ساحلِ زیست پر مدتوں بیٹھا ہے اور اپنے تصور سے پانی کی گہرائیوں کو چھونا چاہتا ہے۔

اس موقع پر ایک ایک ایسا تجربہ ظہور پذ یر ہوتا ہے جو مردوں کی نسبت عورتوں کو زیادہ میسر آتا ہے۔ لڑکیوں کی انگلیوں سے قلم نکل جاتا ہے۔ اس کا تصور بھاگنے لگتا ہے۔ وہ لاشعور کی گہرائیوں میں پتھروں اور چٹانون سے ٹکراتا ہے جھاگ ابھرتی ہے ہر چیز تتر بتر ہو جاتی ہے۔ تصور نے کسی سخت چیز سے ٹکر کھائی ہے۔ لڑکی خواب سے بیدار ہو جاتی ہے۔ اس کی حالت ناگفتہ بہ  ہے۔ اس کا اپنے جذبات‘ جسمانی جذبات سے سے سامنا ہے۔ اگر اس نے ان جذبات کو  ظاہر  کر دیا تو مرد غش کھا جائیں گے۔ اسے اس بات کا شعور ہو جاتا ہے کہ مرد اس کے جذبات کے سچے اور کھرے اظہار سے ناخوش ہیں۔ یہ خیال اس کے قلم کی زنجیر بن جاتا ہے اور وہ قلم رکھ دیتی ہے۔ وہ اب کچھ نہیں لکھ سکتی۔ یہ تجربہ بہت سی ادیب عورتوں کا المیہ ہے۔ وہ مردوں کی روایات کی مسحور ہیں۔ مرد اپنے لیے نئے تجربات کی آزادی کا تو ذکر کرتے ہیں لیکن جب عورتوں کی آزادیِ اظہار کی بات آتی ہے تو پیمانے بدل جاتے ہیں۔

یہ میری زندگی کے اہم تجربات تھے۔ میری پیشہ ورانہ زندگی کے اہم معرکے۔ پہلا مرحلہ ’گھریلو فرشتے‘ کو قتل کرنا تھا۔ وہ مرحلہ تو میں نے خوش اسلوبی سے عبور کیا۔ دوسرا مرحلہ اپنی ذات اور اپنے جسم کے تجربات کو سچائی سے قلم بند کرنا تھا۔ میں اس معرکے میں کامیاب نہ ہو سکی۔ میرا نہیں خیال کہ کسی عورت نے آج تک اس مرحلے سے انصاف کیا ہے۔ اس کی راہ میں جو دشواریاں ہیں وہ بہت طاقتور ہیں اور ابھی تک غیر واضح ہیں بظاہر کتابیں لکھنے میں کوئی دشواری نظر نہیں آتی لیکن درپردہ مسئلہ بہت سنگین ہے۔ عورتوں نے ابھی کئی اور آسیب دیکھنے ہیں اور کئی اور تعصبات سے نبرد آزما ہونا ہے۔ ابھی عورتوں کو کافی انتظار کرنا ہے اس سے پیشتر کہ وہ کسی آسیب یا خوف سے متاثر ہوئے بغیر حالِ دل تحریر کرسکیں۔ اگر ادب کا یہ حال ہے جس میں آزادی زیادہ ہے تو ایسے پیشوں کا کیا ذکر جو ہمارے معاشرے میں ابھی کم ہیں۔

اگر میرے پاس زیادہ وقت ہوتا تو میں آپ سے بہت سے سوال پوچھتی۔ میں نے اپنے پیشہ ورانہ تجربات کو اس لیے اہمیت دی کہ وہ آپ کے بھی تجربات ہو سکتے ہیں۔ ہو سکتا ہے ان کی نوعیت مختلف ہو۔ بظاہر بہت سے دروازے کھل چکے ہیں۔ عورتیں ڈاکٹر بن سکتی ہیں‘ وکیل بھی اور سول سرونٹ بھی بن سکتی ہیں لیکن بہت سی مشکلات ابھی بھی راہ کی دیوار بنی ہوئی ہیں۔ ان سب پر تبادلہِ خیال کرنا بہت اہمیت کا حامل ہے۔ ان مشکلات کے ساتھ ساتھ ہمیں اپنے مقاصد اور منازل پر بھی تبادلہِ خیال کرنا چاہیے۔ میرے چاروں طرف عورتیں ہیں۔ آج کا ہال مختلف پیشوں کی عورتوں سے بھرا پڑا ہے۔ آپ لوگوں نے اس گھر میں جو مردوں کی ملکیت ہے اپنے لیے ایک کمرہ حاصل کر لیا ہے ۔ آپ اب کرایہ دینے کے بھی قابل ہو گئی ہیں۔ سال میں پانچ سو پاؤ نڈ بھی کما لیتی ہیں لیکن یہ آزادی ہماری پہلی منزل ہے۔ آپ کو کمرہ تو مل گیا ہے لیکن وہ کمرہ ابھی خالی خالی ہے۔ اسے آپ نے ترتیب دینا ہے۔ اس کے لیے فرنیچر خریدنا ہے اسے سجانا ہے اور پھر فیصلہ کرنا ہے کہ آپ کسے اس کمرے کا شریک بنائیں اور کن شرائط پر۔

Advertisements
julia rana solicitors

یہ سب سوال بہت دلچسپ اور اہم ہیں۔ تاریخ میں پہلی دفعہ آپ یہ سوال پوچھ سکتی ہیں اور اپنی مرضی سے اس کا جواب دے سکتی ہیں۔ کچھ فیصلے کر سکتی ہیں۔ میں آپ سے ان سوالوں اور جوابوں کے بارے میں تبادلہِ خیال کرنے کو تیار ہوں لیکن آج رات میرا وقت ختم ہو چکا ہے۔ اس لیے مجھے اب اجازت دیں!!!

Facebook Comments

مہمان تحریر
وہ تحاریر جو ہمیں نا بھیجی جائیں مگر اچھی ہوں، مہمان تحریر کے طور پہ لگائی جاتی ہیں

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply