بشریٰ زیدی کا کراچی۔۔۔۔عدیل رضا

آج بشریٰ زیدی مرحومہ کو بس حادثے میں جاں بحق ہوئے ٣٤ سال کا عرصہ گزر چکا ہے لیکن آج بھی مجھے جب دنیا کے پانچویں بڑے شہر کراچی میں نصف صدی پرانی ٹوٹی پھوٹی چند بسیں زومبیوں ( zombies) کی طرح خستہ حال سڑکوں پر گھسٹتی پھرتی نظر آتی ہیں تو بے اختیار باجی بشریٰ زیدی مرحومہ یاد آجاتی ہیں۔

ہولناک حادثے میں ان کی وفات کے بعد جس طرح حالات نے کروٹ لی اگر انہی حالات پر گرفت مضبوط رکھی جاتی تو کراچی شہر کا شمار آج دنیا کے ان ترقی یافتہ شہروں میں ہوتا جہاں ٹرانسپورٹ کا نظام ناقابل چیلنج شمار کیا جاتا ہے۔ جنت کے بالا خانوں سے آج بھی جب بشریٰ زیدی مرحومہ اپنے شہر کی جانب دیکھتی ہیں تو انہیں وہ کراچی بھی نظر آتا ہے جہاں 1947میں قابل عمل ٹرانسپورٹ سسٹم موجود تھا، اس دور میں اس شہر میں چلنے والی ٹرامز شہر کے بیشتر رہائشی اور تجارتی وکاروباری علاقوں کو آپس میں ملانے کے لیے بہت کافی تھیں اور گھر سے صاف ستھرا لباس پہن کر باہرنکلنے والا ہر فردصاف ستھرے لباس ہی میں گھر واپس پہنچتاتھا ،لیکن بعد میں اس شہر پر حکمرانی کرنے والوں کی جانب سے شہر یوں کوسہولتوں کی فراہمی سے چشم پوشی نے یہ صورتحال زیادہ عرصہ قائم نہیں رہنے دی۔

حکمرانوں کی اس بے اعتناعی اور خود اس شہر کے منتخب نمائندوں کی جانب سے شہریوں کو بنیادی سہولتوں کی فراہمی کی جانب سے عدم توجہی نے بتدریج عوام کی مشکلات میں اضافہ کرناشروع کردیا،شہر میں حکمرانوں کی جانب سے شہریوں کو ٹرانسپورٹ کی مناسب سہولتوں کی فراہمی میں ناکامی کا فائدہ بعض ایسے لوگوں نے اٹھایا جن کااس شہرسے کبھی کوئی قلبی تعلق یامفاد وابستہ نہیں تھایہاں تک کہ ان میں سے اکثریت کے اہل خانہ بھی اس شہرمیں نہیں رہتے ۔ان لوگوں نے شہر میں ٹرانسپورٹ کے شعبے کو سب سے زیادہ سود مند تصور کرتے ہوئے ملک کے دیگر شہروں میں چلنے والی ایسی خستہ حال بسیں جن پر ان شہروں کے لوگ بیٹھنے کوتیار نہیں تھے ،خرید کر کراچی لانا اور انھیں شہر کے مختلف روٹس پر چلانا شروع کردیں۔شہر میں چونکہ حکومت اورشہری انتظامیہ کی جانب سے لوگوں کے لیے آمدورفت کی سہولت کی فراہمی کاکوئی انتظام نہیں تھا اس لیے اس شہر کے لوگوں نے ان بسوں کو ہی غنیمت تصور کیا اور ان خود غرض ٹرانسپورٹ مافیا کی جانب سے شہر کی ٹرانسپورٹ اتھارٹی کو بھاری رشوت دے کرمنظور کروائے گئے منہ مانگے کرائے پر سفر کرناشروع کیا۔ یہ سلسلہ طول پکڑتا گیا یہاں تک کہ اس شہر کی ٹرانسپورٹ کا بڑا حصہ ان لوگوں کے قبضے میں چلا گیا جن کا واحد مقصد اس شہر سے دولت کماکر ایک بس سے دو اور چار بسیں بنانا اور منافع کمانا تھا۔شہر کے ٹرانسپورٹ نظام پر پوری طرح قبضہ کرنے کے بعد ان لوگوں نے ایک مافیاکی شکل اختیار کرلی اور زیادہ سے زیادہ مسافر بٹھانے او ر زیادہ سے زیادہ پھیرے لگانے کے لیے کراچی کی سڑکوں کو گھڑ دوڑ کامیدان بنادیاگیا جہاں نئے سیکھنے والے ڈرائیور یہ کھٹارا بسیں دوڑاتے تھے اور ان میں بیٹھے والے صحیح سلامت منزل تک پہنچنے کی دعائیں مانگا کرتے تھے اور کوئی دن ایسا نہیں جاتاتھا جب اس شہرپر چلنے والی بسوں کی زد میں آکر کوئی شہری جان سے ہاتھ نہ دھوبیٹھتا ہو، اور اس شہر کے لوگ بے بسی کے ساتھ اپنے حکمرانوں اور منتخب نمائندوں کی بے اعتنائی پر دل ہی دل میں کڑھتے رہتے تھے ،اور ان کے دلوں میں ان خون آشام ٹرانسپورٹروں کے خلاف لاوا پکتا رہتاتھا۔ پھر یوں ہوا کہ کراچی کی ایک معروف شاہراہ پر ترنم عزیز نام کی ایک کالج طالبہ سڑک کراس کرتی ہوئی ایک خون آشام بس کانشانہ بن گئی، انتظامیہ شہریوں کے دلوں میں پکنے والے لاوے کااندازہ نہیں لگاسکی اوراس نے اپنی روایتی غفلت اور بے اعتناعی کامظاہرہ کرتے ہوئے اس حادثے کے ذمہ دار ڈرائیور کو گرفتار کرنے اور بس کو ضبط کرنے کے لیے کچھ نہیں کیا، انتظامیہ کے اس رویے نے جلتی پر تیل کاکام کیا اور اس شہر کی سڑکیں خون آشام ٹرانسپورٹروں اور نااہل انتظامیہ کے خلاف میدان میں آگئی اور جب حکمرانوں کی آنکھ کھلی تو معاملہ ان کے ہاتھ سے نکل چکاتھا ، اگرچہ اس مسئلے پر عوام کااحتجاج کامیاب رہا اوراس واقعے کے بعد حکمراں کراچی میں ٹرانسپورٹ کانظام بہتر بنانے اور شہریوں کو آمدورفت کی بہتر سہولتوں کی فراہمی کے لیے منصوبہ بندی کرنے اورسڑکوں پر ٹریفک قوانین کی دھجیاں اڑاتے ہوئے دندنانے والے ڈرائیوروں کونکیل ڈالنے کے لیے قانون پر عملدرآمد کرنے کے لیے اقدامات پر مجبور ہوئی۔

سابق ناظم کراچی کو پرویز مشرف کی جانب سے شہر میں ٹرانسپورٹ کی بحالی کا ذمہ سونپا گیا۔ شہری حکومت نے براہِ راست ایک نئی بس سروس کی داغ بیل ڈالی اور جدید ترین گرین بسیں کراچی کی سڑکوں پر ١٨ ماہ کے قلیل عرصے میں رواں دواں ہوگئیں۔ اس منصوبے کی بدولت شہر کراچی کے باسیوں کو ایک جدید، سہل الحصول اور برق رفتار ٹرانسپورٹ میسر ہوئی۔ اس منصوبے کو مختلف مراحل میں بڑھا کر شہر میں ایک ہزار بسوں کو سڑکوں پر رواں دواں کرنا تھا جوکہ میٹرو بس سروس سے کہیں بڑا اور لاگت میں انتہائی کم قیمت منصوبہ تھا۔ لیکن اس منصوبے کو بھی ایک خاص مدت تک چلنے کے بعد فنڈ کی عدم فراہمی کے باعث بریک لگانا پڑا اور یہ منصوبہ بھی سرد خانے کی نظر ہوا۔

کورنگی سے صدر اورسرجانی سے کورنگی اور ملیر سے سرجانی تک دوڑتی چند ہی گرین بسیں کراچی شہر میں نظر آئیں لیکن ان گرین بسوں کی بدولت ٹرانسپورٹ  مافیا کی کمر ٹوٹنے لگی تو ان بسوں پر حملے شروع ہوئے، کہیں نامعلوم افراد نے آگ لگائی تو کہیں یہ بسیں توڑ پھوڑ کا شکار ہوئیں۔

رفتہ رفتہ یہ بسیں بھی کراچی شہر کی سڑکوں سے غائب ہونے لگیں اور نئے رنگ و روغن کے ساتھ کبھی کسی پرائیوٹ کمپنی کے پک اینڈ ڈراپ میں دوڑتی نظر آتیں تو کبھی کسی سرکاری ادارے کا اسٹاف پوائنٹ بنی ہوتیں۔ شہر میں ٹرانسپورٹ کا نظام مزید ابتر ہوا۔ ٹرانسپورٹ مافیا جس کو ناصرف سرکاری سرپرستی حاصل تھی اب دہشتگردوں کی پشت پناہی بھی حاصل ہوگئی۔ جدون برادران ہوں یا بخاری یا محسود ۔ ۔ جس کی بس سڑک پر چلتی وہ تحریک طالبان پاکستان کو باقاعدگی سے اپنا حصہ پہنچاتا۔ سندھ میں وزیر ٹرانسپورٹ کا قلمدان ایم کیوایم کے عادل صدیقی کے پاس رہا لیکن سندھ حکومت اور وزیراعلیٰ ہاوس سے جاری ہونے والے خصوصی احکامات کے آگے عادل صدیقی بھی اپنے اختیارات کی حدود بندی کئے نظر آئے اور اس کے بعد انہوں نے بھی وہی کیا جو ان کا دل چاہا ۔ یہ وہ زمانہ تھا کہ پڑوسی ملک کے شہر ممبئی اور دہلی میں چوبیس گھنٹے کی میٹرو ریل سروس کا آغاز ہوئے کئے سال گزر چکے تھے لیکن شہر کراچی کو چنگ چی رکشوں کا ” کباب ” بنادیا گیا۔ اندرون سندھ گاوں دیہاتوں میں چلنے والی یہ ” چاند گاڑیاں ” اب کراچی شہر کی زینت بن کر شہر کے حسن کو چار چاند لگاتی نظر آئیں۔ کوئی دن ایسا نہ تھا جس دن شہر کراچی میں کوئی چنگ چی رکشہ حادثے کا شکار ہوکر دو چار انسانوں کے ہاتھ پاوں نہ تڑواتا ہو۔ پھر اس شہر کراچی نے وہ دن اور رات بھی دیکھے جب چنگ چی رکشے اور بسوں کے مالکان کے درمیان دنگل ہوئے۔ جانتے بوجھتے بس ڈرائیور بھی چنگ چی رکشوں کو ٹکر مارتے، نتیجے میں نقصان انسانی جان کا ہوتا۔ کراچی شہر میں ٹرانسپورٹ بحران پر قابو پانے کیلئے متعدد بار کوششیں کی گئیں لیکن ٹرانسپورٹ مافیا کے ہوتے ہوئے ایسا کرنا ممکن نہ ہوسکا۔ سندھ ہائیکورٹ نے متعدد بار ٹرانسپورٹ مافیا کی بدمعاشی کا نوٹس لیا، کئی فیصلے آئے لیکن مجال ہے جو کسی فیصلے پرعملدرآمد کروایا گیا ہو۔
جن فیصلوں پر عدالت نے سختی سے عملدرآمد کروایا اس کا نتیجہ بھی ٹریفک پولیس نے بخوبی بھگتا۔ سابق اے آئی جی کراچی خادم حسین بھٹی نے اپنے ایک بیان میں کہا کہ ٹرانسپورٹ مافیا ٹریفک پولیس اہلکاروں کے قتل میں ملوث ہے۔ خادم حسین بھٹی کے اس ذمہ دارانہ بیان کو بھی صرف نظر کیا گیا اور معاملے کو سیاسی جامہ پہناتے ہوئے ایم کیو ایم کے کارکنان کو پولیس اہلکاروں کے اس منظم قتل عام میں ملوث ٹہرایا۔

Advertisements
julia rana solicitors

دوسری جانب خادم حسین بھٹی کے اس بیان کو بھی نظر انداز کیا کہ بیوروکریسی میں موجود افراد میں سے بیشتر ہی ٹرانسپورٹ مالکان ہیں اس لیے مافیا کو توڑنے میں مشکلات کا سامنا ہے۔ لیکن میرا سوال ریاست سے ہے اس ریاست سے جو  اپنی کرنی پر آئے تو ہاتھی کو بھی ہرن بنادیتی ہے کراچی میں ٹرانسپورٹ مافیا کو لگام کیوں نہیں ڈال سکتی؟ ازخود سوال سے ملنے والا جواب پھر یہی ہوتا ہے کہ اہلیان کراچی کو جان بوجھ کر ٹرانسپورٹ مافیا کے ہاتھوں میں دیا ہوا ہے پھر جہاں کوئی حادثہ رونما ہوا وہیں مفاد پرستوں نے واقعے کو اپنی سیاست چمکانے کیلئے استعمال بھی کرنا ہے۔ سوا دو کروڑ سے زائد آبادی والے شہر میں مسئلہ 25 یا 30 بسوں سے حل ہونے والا نہیں ہے۔ اس کے لیے ایک مربوط منصوبے کی ضرورت ہے کہ جس میں لوپ روڈز، بسیں، سرکلر ریلوے اور لائٹ ٹرین کے منصوبے شامل ہونے چاہئیں۔ کراچی کا ماس ٹرانزٹ منصوبہ ابھی تک فائلوں میں پڑا سڑ رہا ہے، اس کو دوبارہ نکال کر عمل کے قالب میں ڈھالنے کی ضرورت ہے۔ یہ کام تینوں حکومتوں وفاقی، صوبائی اور شہری حکومت کی ذمہ داری ہے کہ وہ اس پر اخلاصِ نیت کے ساتھ کام کا آغاز کریں۔ اسی طرح اس شہرِ ناپرساں کے عوام، میڈیا اور اپوزیشن جماعتوں کی بھی ذمہ داری ہے کہ وہ اس سنگین مسئلے کی سنگینی کو مدِ نظر رکھتے ہوئے اس مسئلے کو اٹھائیں ورنہ کہیں ایسا نہ ہو کہ جس طرح اس شہر میں ایک لاش سے لے کر دوسری لاش گرنے کا عمل امن کہلاتا تھا، ٹرانسپورٹ کا یہ مسئلہ بھی خدانخواستہ بشریٰ زیدی کی حادثے میں وفات اور اس کے بعد پیش آنے والے سنگین واقعات کے بعد ہی اٹھایا جائے.

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply