جمہوری سیاست کا سنہری موقع/ انعام رانا

ہوتا تو یہ رہا کہ ظل سبحانی نے جسے چاہا گود  میں بٹھا کر چہلیں کیں اور جیسے ہی جی بھرا ،یا کنیز کا چوتڑ غلطی سے بھی گود سے سنگھاسن پہ آ لگا تو پرے دھکیل دیا۔ کنیز سمجھدار ہوتی تو اشارہ ابرو سمجھ کر فوراً ُاتر جاتی وگرنہ ظل سبحانی حسبِ طبیعت دھول دھپا بھی کر دیتے اور کسی دوسری کو آنکھ مار کر گود بٹھا لیتے۔ درباری ہر گود چڑھی کے حسن کی شان میں قلابے ملانے لگتے۔ اب یہ راندہ گود کنیز تحمل کے ساتھ کونے میں بیٹھی انتظار کرتی کہ مزاج یار کب گود آغوش سے بیزار ہو اور اسکی باری پھر آ جائے۔

اس بار مگر قصہ مختلف ہو گیا۔ بہت چاؤ سے جسے گود میں بٹھایا تھا وہ داڑھی کھینچنے لگی۔ چوتڑ کے بجائے پورا وجود ہی سنگھاسن پہ اتارنا چاہا کہ میں تو لاڈلی ہوں۔ اُتارنا چاہا تو سنگھاسن سے لپٹ گئی کہ اب کہاں جائیے گا۔ کنیز نہ ہوئی کمبل ہو گیا، کہ ظل سبحانی کی جان ہی نہیں چھوڑتا۔ سو طے کیا کہ کنیز کو راندہ گود ہی نہیں راندہ دربار بھی کر دیا جائے۔ کنیز مگر کئی درباری ہمنوا بنا چکی تھی اور لینے کے دینے پڑ گئے۔ ظل سبحانی تلوار لیے اب سر قلم کرنے پہ اُتر آئے ہیں۔

ستر سالوں سے سیاسی جماعتیں کنیز بنی ”ظل سبحانی” کی گود کی ہوس میں بے قرار بیٹھتی رہیں۔ گود سے اُتر کو جو تو خاموشی سے اچھے دنوں کا منتظر رہا، پھر موقع پا گیا۔ لیکن جس نے گود کے بجائے سنگھاسن پہ جگہ مانگی وہ کبھی بھٹو بنایا گیا تو کبھی بے نظیر، کبھی نواز شریف تو اب عمران خان۔ ہم “اپنے رہنما”، “اپنی پارٹی” کے تعصب میں گرفتار ہیں وگرنہ سچ تو یہ ہے بھٹو، بے نظیر، اکبر بگتی، نواز شریف اور عمران خان نے سزا فقط گود کے بجائے سنگھاسن کی چاہت پہ پائی ہے، خاموشی کے بجائے صدا لگانے کی پائی ہے۔ عمران خان کو البتہ باقیوں پہ یہ برتری ضرور ہے کہ اسکے کارکن خوف سے آزاد ہو کر ان “مقدس لکیروں” کو ہی روندنے لگ گئے جن کا تصور بھی اب سے قبل کپکپی طاری کر دیتا تھا۔ آپ عمران کی سیاسی بیوقوفیوں، انتظامی نااہلیوں، اسکے گرد افراد کی مالی کرپشن، خود عمران کی بلا ضرورت ضد؛ سب ہی کو اسکی مخالفت کی دلیل بنا سکتے ہیں۔ مگر اس سب کے باوجود اس نے اصل اقتدار پہ قابض ٹولے کو جیسے چیلنج کیا، اس سے صرفِ نظر نہیں کر سکتے۔

مجھے معلوم ہے کہ یہ دیوانے کا خواب ہے لیکن اگر سیاسی جماعتیں “بدلے کی آگ بجھانے” کے بجائے ہوش مندی کا مظاہرہ کریں تو ایسا سنہری موقع شاید ہی پھر ملے۔ عمران کی بے جا ضد کو اسکے ورکروں اور پارٹی کے ساتھ کیے گئے ریاستی جبر نے افاقہ دیا ہے۔ اس وقت بجائے اسے مٹانے کے باقی جماعتیں اگر “سپیس” دیں تو شاید ان کو خوشگوار حیرت ہو۔ اگر سب سیاسی جماعتیں مل کر ایک چارٹر آف ڈیموکریسی پہ متفق ہو جائیں جس میں فوج کا کوئی سیاسی کردار نہ ہو اور فوج کو اس کے اصل مقام بیرک میں بھیجنے پر متفق ہو جائیں تو یہ جمہوری سیاست کی تاریخی کامیابی ہو گی۔

اس وقت پی ڈی ایم اتحاد فقط عمران سے بدلہ لینے یا اس کے خوف سے نجات حاصل کرنے کیلئے  فوج کو  جیسے سپیس دیتا جا رہا ہے، یہ ملک کی جمہوری سیاست کیلئے انتہائی خوفناک مستقبل پیدا کرے گا۔ دوسرا نوجوان نسل کی ایک بڑی تعداد جو عملی سیاست سے جڑ گئی ہے، اسکی جبر کے نتیجے میں سیاست سے بددلی فقط تحریک انصاف نہیں بلکہ مکمل جمہوری نظام کا نقصان ہو گا۔

Advertisements
julia rana solicitors london

عمران بیوقوف سہی، اسکے سپورٹر جذباتی سہی لیکن انھوں نے جو موقع  پیدا کر دیا ہے، اسکا فائدہ باقی کے سمجھدار سیاستدان اٹھا لیں۔ جیسا عرض کیا کہ دیوانے کا خواب ہے مگر شاید کہ اتر جائے ترے دل میں مری بات!

Facebook Comments

انعام رانا
انعام رانا کو خواب دیکھنے کی عادت اور مکالمہ انعام کے خواب کی تعبیر ہے

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply