بلوچ کاؤنسلز۔۔۔ذوالفقار علی زلفی

زار روس نے غالباً اٹھارویں صدی کے اواخر میں روس کی ترقی کے لیے طلبا کو یورپ بھیجنے کی پالیسی اختیار کی، ـ اس پالیسی کا مقصد نوجوانوں کو اعلی تعلیم و تربیت فراہم کرنا تھا تاکہ وہ واپس آکر روسی معاشرے کو جہالت کے اندھیروں سے نکال سکیں ـ ۔ان یورپ پلٹ نوجوانوں کے لیے بعد میں “انٹیلی جنشیا” کی اصطلاح وجود میں آئی ـ روسی انٹیلی جنشیا نے روسی سماج کے مختلف شعبوں پر گہرے اثرات مرتب کیے ـ 1917 کا بالشویک انقلاب بھی اسی انٹیلی جنشیا کی مرہونِ منت ہے ـ یعنی جس زار نے انہیں پڑھنے بھیجا ،انہوں نے اسی زار کا تختہ الٹ دیا۔ ـ

روسی انٹیلی جنشیا اور روسی محنت کش کے درمیان البتہ تضاد بھی پیدا ہوا ـ ،اس تضاد کو روس کے عظیم ناول نگار ٹالسٹائی نے اپنے ناول “آننا کارینینا” میں بہت خوب صورت انداز میں دکھایا ہے،ٹالسٹائی کے مطابق روسی کسان کے لیے انٹیلی جنشیا کے یورپی افکار و تصورات یکسر اجنبی تھے ـ دوسری جانب یورپی تفکر سے متاثر انٹیلی جنشیا کسانوں کی فکری ساخت کو سمجھنے سے معذور رہی ـ نتیجہ ان دونوں کے درمیان کشمکش کی صورت نکلا ـ۔

حالیہ بلوچ تحریک کے ابھار اور تحریک میں طلبا کی زبردست شمولیت نے پاکستانی اسٹبلشمنٹ کے نوآبادیاتی منصوبوں کی دھجیاں اڑا دیں، ـ اسٹبلشمنٹ نے 2008 کے بعد طلبا کو لاپتہ اور قتل کرنے کی پالیسی اختیار کی ـ ،مزاحمتی طلبا تنظیم ، بلوچ اسٹوڈنٹس آرگنائزیشن کو دہشت گرد قرار دے کر پابندی لگا دی گئی ـ معاملہ تب بھی حل نہ ہوسکا۔ ـ

2010 کو اسٹبلشمنٹ نے بلوچ نوجوانوں کو پنجاب کے تعلیمی اداروں میں بھیجنے کی پالیسی کا آغاز کیا، ـ زارِ روس کے برعکس پاکستانی اسٹبلشمنٹ کا مقصد بلوچ نوجوانوں کو پنجاب کی سیاسی ثقافت میں ڈھالنا اور مزاحمتی فکر و فلسفے سے دور رکھنا تھا ـ، یہ پالیسی کافی حد تک کامیاب رہی ـ۔۔

پنجاب کے تعلیمی اداروں میں زیرِ تعلیم بلوچ نوجوان “پرامن” ماحول کی وجہ سے مزاحمت کی بجائے کیریئر پر دھیان دینے لگ گئے ـ ،انہوں نے “کاؤنسلز” بنا لیے ہیں ـ یہ کاؤنسلز بلوچستان کی گھمبیر سیاسی صورتحال سے الگ تھلگ رہ کر سطحی معاملات تک محدود ہیں ـ مختلف عالمی و مقامی تحریکات کا مطالعہ، بحث مباحثہ اور بلوچستان کی سیاست میں بھرپور شمولیت بلوچ طلبا کا خاصہ رہا ہے لیکن پنجاب کے بلوچ کاؤنسلز اس روایت سے یکسر منحرف دکھائی دیتی ہیں۔ ـ ان کی سیاسی سرگرمی “بے ضرر” بلوچ کلچر جو درحقیقت اعلی طبقے کی ثقافت ہے کی ترویج تک محدود ہوکر رہ گئی ہے ـ یہ نوجوان بلوچستان کی دیہاتی سیاسی ثقافت سے قطع تعلق کرکے لاہور، اسلام آباد اور ملتان کی شہری موقع پرست سیاسی ثقافت سے جُڑ چکے ہیں ـ۔

ان طلبا کا نصب العین ہے کہ “تعصب” ، “شدت پسندی” اور “مہم جوئی” سے پاک تعلیمی سرگرمی ـ ایک ایسے ہی طالب علم رہنما کی تحریر نظر سے گزری جس میں وہ ملائیشین رہنما مہاتیر محمد کو اپنا آئیڈیل قرار دے رہے ہیں ـ ،گئے دنوں میں بلوچ طلبا ڈاکٹر چے گویرا اور کوامی نکرومہ کو اپنا آئیڈیل تصور کرکے نوآبادیاتی نظام کا مطالعہ کرکے اس کے مطابق بلوچستان کا تجزیہ کیا کرتے تھے ـ بلوچ کاؤنسلز مہاتیر محمد کی پیروی کرنے کے خواہش مند ہیں یقیناً اگلا پڑاؤ عمران خان ہوں گے۔ ـ

گزشتہ نو سال کے دوران اس قسم کے سینکڑوں نوجوان پنجاب سے فارغ التحصیل ہوکر بلوچستان پہنچے ہیں اور مزید آنے والے ہیں ،ـ ان کے خیالات پر پنجاب کی غیر مزاحمتی سیاسی تجربات کا اثر ہے ـ دیہاتی بلوچ کے ساتھ یہ ایک پر تضاد تعلق قائم کر رہے ہیں ـ۔

دوسری جانب طلبا کی ایک دوسری کھیپ ہے جو بلوچستان کے جنگ زدہ ماحول میں تعلیم حاصل کررہی ہے ـ کراچی کے مختلف تعلیمی اداروں میں زیرِ تعلیم طلبا کو بھی انہی کا حصہ شمار کیا جانا چاہیے ـ طلبا کے یہی دو متضاد گروہ بلوچستان کا مستقبل ہیں ـ۔

Advertisements
julia rana solicitors

ان دو متضاد تعلیمی ثقافتوں کے حامل طلبا کے درمیان اتحاد ہوگا یا تصادم، سرِ دست حتمی رائے قائم کرنا تو ناممکن ہے لیکن یہ طے ہے کہ مستقبل میں بلوچستان کی قوم پرست سیاست ماضی کی نسبت مزید پیچیدہ ہوجائے گی ـ۔

Facebook Comments

ذوالفقارزلفی
ذوالفقار علی زلفی کل وقتی سیاسی و صحافتی کارکن ہیں۔ تحریر ان کا پیشہ نہیں، شوق ہے۔ فلم نگاری اور بالخصوص ہندی فلم نگاری ان کی دلچسپی کا خاص موضوع ہے

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply