• صفحہ اول
  • /
  • کالم
  • /
  • دینی مدارس کے طلبا اور مولوی کا سیاسی ایجنڈا۔۔لیاقت علی ایڈووکیٹ

دینی مدارس کے طلبا اور مولوی کا سیاسی ایجنڈا۔۔لیاقت علی ایڈووکیٹ

مولانا فضل الرحمان دینی مدارس کے طلبا کو اپنے  سیاسی مقاصد کے لئے استعمال کرتے ہیں اورانھوں نے اس سال اکتوبر میں اسلام آباد کو لاک ڈاؤن کا جو پروگرام دیا ہے، وہ بھی وہ دینی مدارس کے طلبا کےساتھ کرنا چاہتے ہیں۔ دینی مدارس کے معصوم بچوں کو اپنے سیاسی مقاصد کے لئے استعمال کرنا بہت بڑی زیادتی اوران کے ساتھ ظلم ہے۔

یہ ہے وہ بیانیہ جو مولانا فضل الرحمان کی سیاست اور ان کے مجوزہ لاک ڈاؤن کے مخالفین نے اختیار کیا ہوا ہے۔۔ بلا شبہ مولاناکی سیاسی طاقت اور قوت کا انحصار دینی مدارس کے طلبا پر ہے اور وہ ہمیشہ انھیں اپنے سیاسی مقاصد کے حصول کے لئے استعمال کرتے آئے ہیں۔ مولانا فضل الرحمان کے والد مولانا مفتی محمود مرحوم بھی سیاسی مقاصد کے لئے دینی مدارس کے طلبا کو استعمال کیا کرتے تھے۔اور یہ صرف مولانا فضل الرحمان پر ہی منحصر نہیں ہے کہ وہ دینی مدارس کے طلبا کو اپنے سیاسی ایجنڈے کے لئے استعمال کرتے ہیں۔ ہماری تمام مذہبی سیاسی جماعتوں کی سیاست و قوت کا دارومدار دینی مدارس کے طلبا،ان کے اساتذہ ،مساجد کے امام اورمؤذنوں پرہے۔

گزشتہ چاردہائیوں سے ہماری عسکری اشرافیہ بھی دینی مدارس کے طلبا کو جہادی ایندھن کے طورپراستعمال کرتی رہی ہے۔ اوراگرماضی کا تجربہ مشعل راہ رہا تومستقبل میں بھی ضرورت ہوئی توایک باران مدارس کے طلبا کو نان سٹیٹ ایکٹرز کے طور پر استعمال کرنے میں بالکل نہیں ہچکچائے گی۔ دینی مدارس کے طلبا ایسا ایندھن ہیں  جو بہت سستے داموں بلکہ اکثر اوقات مفت بھی میسرآجاتا ہے

اس واقعہ کوزیادہ عرصہ نہیں گزراجب طاہر القادری اپنے تعلیمی اداروں اور مدارس میں زیرتعلیم طالب علموں اوراساتذہ کواسلام آباد دھرنے دینے کے لئے لائے تھے اورعمران خان نے ان کو پُرجوش انداز میں خوش آمدید کہا تھا۔ تحریک لبیک یا رسول اللہ کے  دھرنے میں بھی بھاری اکثریت دینی مدارس کے طلبا کی تھی اور اس دھرنے کے جن شرکا کوہمارے جنرل نے کرایہ بھاڑا دیا تھا وہ دینی مدارس کے طلبا ہی تھے۔

1989 میں بے نظیرکی پہلی حکومت کے خلاف جنرل اسلم بیگ چیف آف آرمی سٹاف،صدرغلام اسحاق خان اوراسلامی جمہوری اتحاد کے صدراوروزیر اعلی پنجاب نواز شریف یکسوتھےاوردن رات بے نظیر کی حکومت کو ختم کرنے کے پروگرام بناتے رہتے تھے۔سلمان رشدی کی کتاب شیطانی آیات کو چھپے سال کے قریب ہوچکا تھا لیکن پاکستان میں یہ تاثر دیا گیا کہ شاید یہ کتاب کل ہی چھپی ہو اوراس کی اشاعت میں بے نظیرکا ہاتھ ہو۔ چنانچہ ملک کے طول وعرض میں دینی مدارس کے طلبا کوخفیہ اشارے پرمتحرک کیا گیا اور ان سےجلوس اور مظاہرے کرائے گئے جو سلمان رشدی اوراس کی کتاب کے خلاف کم اوربے نظیر کی حکومت کے خلاف زیادہ تھے۔ چنانچہ اس دوران بے نظیرسرکاری دورے پر چین گئیں تو ان کی غیرموجودگی میں نواب زادہ نصراللہ خان اورمولانا کوثر نیازی نے اسلام آباد میں جلوس نکالا جس میں اکثریت دینی مدارس کے طلبا کی تھی۔ جلوس بے قابو ہوا تو پولیس نے اس جلوس پر گولی چلائی اورپانچ چھ بچے ہلاک ہوگئے تھے۔ شورمچا یا گیا کہ سلمان رشدی کو بچانے کے لئے بے نظیر حکومت نے معصوم بچوں پر گولی چلائی ہے۔ سلمان رشدی کی کتاب تو بہانہ تھی اصل مقصد تو بے نظیر حکومت کو بدنام کرنا اور دفاعی پوزیشن اختیار کرنے پر مجبور کرنا تھا اور دینی مدارس کے طلبا کو ہلاک کروا کر یہ مقصد انتہائی کامیابی سے حاصل کرلیا گیاتھا۔

Advertisements
julia rana solicitors london

جب تک دینی مدارس موجود ہیں ان کے طلبا کا سیاسی مقاصد کے لئے استعمال بھی جاری رہے گا۔ آج اگرمولانا فضل الرحمان انھیں استعمال کررہے ہیں تو کل کوئی دوسرا مولوی دینی مدارس کے طلبا کو استعمال کرے گا اور یہ یونہی سلسلہ چلتا رہے گا۔

Facebook Comments

مکالمہ
مباحثوں، الزامات و دشنام، نفرت اور دوری کے اس ماحول میں ضرورت ہے کہ ہم ایک دوسرے سے بات کریں، ایک دوسرے کی سنیں، سمجھنے کی کوشش کریں، اختلاف کریں مگر احترام سے۔ بس اسی خواہش کا نام ”مکالمہ“ ہے۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply