تکریمِ آدمؑ و بنی آدم/ڈاکٹر اظہر وحید

جب سے دنیائے رنگ و بو میں آدم کا نزول ہوا ہے، دو فکری قبیلے شناخت ہوئے ہیں۔ ایک قبیلہ قابیل کی فکر کا ہم نوا ہے، دوسرا ہابیل کی فکری نوع سے تعلق رکھتا ہے۔ بلا تخصیص مذہب و ملت بنی نوعِ انسان انہی دو فکری قبیلوں میں منقسم چلی آ رہی ہے۔
قابیل کے فکری قبیلے سے تعلق رکھنے والے لوگ صرف طاقت کا قانون مانتے ہیں، جس کے ہاتھ میں بھالا ہو، اسی کا بول بالا مانتے ہیں۔ طاقت کے زور سے اپنے مخالف کو کچل ڈالنا ان کی پرانی ریت ہے، وہ اس روایت کو ترک کرنے پر کسی دور میں کسی طور بھی آمادہ نہیں ہوتے۔ ان کے ہاں عجز و انکسار کمزوری تصور کی جاتی ہے۔ یہ اخلاق کی طاقت کو تسلیم نہیں کرتے۔ اخلاق خواہ قانون کی شکل میں ہو یا کسی معاشرتی روایت کی صورت میں، یہ اپنے مخالف کو زیر کرنے کے لیے قانون اور اخلاق کی بندش بیک جنبشِ قلم توڑ دیتے ہیں۔ طاقت کو قانون ماننے والے قانون کو طاقت نہیں مانتے۔ یہ لوگ معاشرے میں تعمیر کے بجائے تخریب کے بیج بونے والوں میں ہوتے ہیں۔ وقتی فائدے کے پیچھے بھاگنے والے ہمیشہ کے فائدے سے خود کو محروم کر لیتے ہیں۔ ان کے نزدیک ان کی اپنی انا سب سے فائق ہوتی ہے۔ تاریخ میں فرعون، قارون اور ہامان اس فکری قبیلے کے سرخیل ہیں۔ ”انا ربکم الاعلیٰ“ فرعون کا مکالمہ تھا۔ اس مکالمے کے ساتھ جینے والے ”سبحان ربی الاعلیٰ“ کے کیف سے محروم ہوتے ہیں۔ قربانی میں، جھکنے میں، کسی کو مان لینے میں، کسی کی قبولیت و مقبولیت کو مان لینے میں جو راحت ہے، یہ لوگ اس راحت سے محروم ہوتے ہیں۔ اپنے ہی جیسے کسی انسان کی خداداد عظمت کو مان لینے کی روحانی صلاحیت سے یہ لوگ یکسر محروم ہوتے ہیں۔
انسان اور جنات دو مخلوقات ایسی ہیں جنہیں قوتِ ارادہ دی گئی ہے، جنہیں اچھا یا بُرا راستہ اختیار کرنے کی قدرت دی گئی، یہ خیر اور شر دونوں راستوں میں سے کسی بھی راستے کا انتخاب کر سکتے ہیں، اور اسی قوتِ ارادہ اور اختیار ہی کی بنیاد پر مابعد میں جزا اور سزا کے مکلف ٹھہرتے ہیں۔ قابیل کے طرزِ فکر پر چلنے والا دراصل ابلیسی طرزِ فکر کا پیرو ہوتا ہے۔ ابلیس کو ایک وقتِ معلوم تک مہلت دی گئی ہے۔ صاحبِ ارادہ مخلوق کو بھی ایک وقتِ معین تک مہلت دی گئی ہے۔ قابیل کا فکری ہمنوا اس قوت، طاقت، اختیار اور وقتِ معلوم تک دی گئی مہلت کے زعم میں خود کو خود مختار سمجھتا ہے…… وہ قانون، مذہب اور اخلاق کو کسی خاطر میں نہیں لاتا۔ وہ انبیاء کی طرزِ فکر سے یکسر الٹ رخ پر زندگی بسر کرتا ہے۔
قابیل اور ہابیل کے درمیان جب ایک
معاملے پر اختلاف ہوا تو دونوں نے حسبِ دستور اپنی قربانی پیش کی۔ ہابیل کی قربانی قبول ہوئی، وہ مقبول ٹھہرا۔ قابیل کو ہابیل کی مقبولیت برداشت نہ ہو سکی۔ وہ ابلیس کی طرح حسد کا شکار ہو گیا۔ اسے طیش آیا، اس کے سینے میں نفرت کا الاؤ جل اٹھا۔ حسد اور نفرت ایک ہی شجرِ ملعونہ کی دو شاخیں ہیں۔ قابیل نے اپنے زمانے کا ہتھیار اٹھایا اور ہابیل کو قتل کرنے کی نیت سے آگے بڑھا۔ ہابیل نے جواب میں اسے کہا، اگر تم میری طرف قتل کرنے کی نیت سے ہاتھ بڑھاؤ گے تو میں تمہاری طرف ہاتھ نہیں بڑھاؤں گا۔ ہابیل کا یہ مکالمہ ایک سندیسہ رحمت ہے، اور رحمان کی طرف منسوب ہونے کی دلیل ہے۔ یہ اس کے مکمل فکر کا احاطہ کرتا ہے۔ ہابیل بھی جواب میں کوئی پتھر اٹھا سکتا تھا، لیکن اس نے کہا کہ میری اور تمہاری کوئی جنگ نہیں۔ وہ اس پر مطمئن تھا کہ اس کی قربانی قبول کر لی گئی ہے۔ انعام یافتہ اور قبول یافتہ لوگوں کی ایک خاص نشانی یہ ہے کہ وہ قبول اور مقبول ہونے کے باوجود مدھم ہوتے ہیں، وہ قربانی دیتے ہیں اور ساتھ ہی ساتھ قربانی قبول ہونے کا شکریہ بھی ادا کرتے ہیں۔ عجب راز ہے کہ وہ اس پر فخر بھی نہیں کرتے۔ وہ قبول ہونے کے بعد مزید حیرت و انکسار میں چلے جاتے ہیں۔
ہابیل اور ہابیل کے فکری قبیلے سے تعلق رکھنے والے لوگ دراصل انبیاء کے طرزِ فکر پر چلتے ہیں۔ یہی لوگ انبیاء کی طرف سے ملنے والی آسمانی ہدایت قبول کرنے والے ہوتے ہیں۔ وہ ”کافر“ جو ایمان لے آتے ہیں، دراصل ان کے سینے میں ایمان پہلے سے چھپا ہوتا ہے۔ اعلانِ قبولِ اسلام اُن کے ایمان کا اظہار ہے۔ شہادت دراصل عالمِ شہادت میں ان کے باطنی ایمان کا اظہار ہے۔ کلمہ شہادت سنانے میں ایک راز یہ بھی ہے کہ کلمہ پڑھ کر، کسی کے ہاتھ پر ایمان لا کر، ایمان لانے والا دراصل عالمِ شہادت میں اپنے باطنی ایمان کی شہادت دیتا ہے۔ اس کے برعکس نسلی اور نسبی مسلمان ایسے بھی گزرے ہیں جو قابیل کے قبیلے سے تعلق رکھتے تھے۔ کربلا کا معرکہ حق و باطل اس پر گواہ ہے۔ نسبی کلمہ گو اور اصلی کلمہ گو میں فرق صاف ظاہر ہے۔
مختصراً قبیلہِ ہابیل کا قبلہ اخلاق ہے، صبر و تحمل ہے، رواداری اور عدل و انصاف ہے۔ جبکہ قابیل کا قبلہ طاقت ہے، اس کلیہ عمل ننگی جارحیت ہے۔ قابیل اور اس کے ہمنوا سمجھتے ہیں کہ طاقت ہی چونکہ سکہ رائج الوقت ہے، اس لیے طاقت سے اگر لوگوں کو خوفزدہ کر دیا جائے تو وہ اطاعت قبول کر لیں گے۔ یہ زعم اور وہم یزید پلید کا تھا۔ وہ طاقت کے زور پر بیعت کا طالب تھا۔ جو انکار کرتے تھے، ان پر ابن زیاد کو مسلط کر دیتا تھا، ابن زیاد کے ظلم و تشدد اور زیادتیوں کی تاریخ گواہ ہے۔ مرشدی حضرت واصف علی واصفؒ فرماتے ہیں ”طاقت خوف پیدا کرتی ہے، خوف نفرت پیدا کرتا ہے، نفرت بغاوت پیدا کرتی ہے اور بغاوت طاقت کو توڑ دیتی ہے“ دینِ مبین میں اہلِ دین کے سامنے طاقت کے استعمال اور نمائش پر کس قدر فہمائش کی گئی ہے، اس کا اندازہ اس حدیثِ پاک سے بخوبی لگایا جا سکتا ہے: ”جو شخص اپنے بھائی کی طرف ہتھیار سے اشارہ کرتا ہے، فرشتے اس پر اس وقت تک لعنت کرتے ہیں جب تک وہ اس اشارہ کو ترک نہیں کرتا، خواہ وہ اس کا حقیقی بھائی(ہی کیوں نہ) ہو“۔
یوں تو آدمؑ سے عیسیٰؑ تک سب انبیاء و رسل کا پیغام اسلام ہی ہے لیکن تمام انبیاء کی تعلیمات کا نقطہ تکمیل پیغمبرِ اسلام خاتم النبیّین رسول کریمؐ کا پیغام ہے۔ یہاں نسل، نسب اور زبان کے تعصبات کے بت توڑے گئے۔ عربی کو عجمی پر اور گورے کو کالے پر فوقیت کے لات منات حرم سے نکال باہر کیے گئے۔ افسوس! سینہِ مسلم جو صحن حرم کا استعارہ ہے، اس میں رنگ و نسب کے بت پھر سے نصب ہوئے جاتے ہیں۔
تکریمِ انسان رنگ و نسب اور قوت و منصب کی بنیاد پر نہیں بلکہ تقویٰ کی بنیاد پر ہے۔ حدیثِ نبویؐ ہے: ”جسے اس کا عمل پیچھے کر دے، اسے اس کا نسب آگے نہیں کر سکے گا“۔
پچھلے دنوں ایک حدیثِ پاک نظر سے گزری، عجب کیفیت وارد ہوئی۔ کئی نکات وا ہوئے، اور عصرِ حاضر کے بھی کئی اشکالات حل ہوتے ہوئے نظر آئے۔ ”حضرت عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنھما سے مروی ہے کہ انہوں نے حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو خانہ کعبہ کا طواف کرتے دیکھا اور یہ فرماتے سنا: (اے کعبہ!) تو کتنا عمدہ ہے اور تیری خوشبو کتنی پیاری ہے، تو کتنا عظیم المرتبت ہے اور تیری حرمت کتنی زیادہ ہے، قسم ہے اس ذات کی جس کے ہاتھ میں محمدؐ کی جان ہے! مومن کے جان و مال کی حرمت اللہ کے نزدیک تیری حرمت سے زیادہ ہے اور ہمیں مومن کے بارے میں نیک گمان ہی رکھنا چاہئے“۔
سبحان اللہ! دیگر مذاہب جن میں عبادت گاہوں اور معبدوں کی تقدیس پر انسان قربان کیے جاتے تھے، اسلام نے ہمارے شعور کو بالیدگی دی اور ایک دوسرے کے بارے میں خوش گمان ہونے کی تلقین کی اور ہمارے جان و مان کی حرمت کعبہ کی حرمت سے بھی فائق مقرر کی۔ کوئی معبد، کوئی نشان، کوئی نسب اور کوئی منصب ایسا نہیں جس کی تقدیس انسانی زندگی سے زیادہ مقرر کی جا سکے۔ ہم یہ آفاقی سبق بھول گئے اور غیروں نے یہ سبق اپنا لیا۔ اہلِ مغرب کو اگر آج اقوامِ عالم میں عروج حاصل ہے تو اس کی ایک وجہ یہ بھی ہے کہ ان کے ہاں انسانی جان کی قدر ایک شعار کا درجہ اختیار کر چکی ہے۔ اپنی تمام تر اخلاقی برائیوں کے باوجود اگر وہ قابلِ توجہ ہیں تو اس کی واحد وجہ ان کی تکریمِ آدم کی ریت ہے۔

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply