بوٹ پالش۔۔۔محمد خان چوہدری

یہ واقعہ 1960 میں اسلامیہ پرائمری سکول چکوال ، محلہ غربی، نزد بھون روڈ کا ہے،
” معلم پدر بُود”
خادم حسین ہونہار بچہ تھا، سیدھا دوسری جماعت میں داخل ہوا، چوتھی جماعت پاس کی تو پانچویں میں اسے وظیفہ کا امتحان دینے والے دس بچوں  میں چنا گیا اور کلاس مانیٹر بھی بنا دیا گیا،اب اس کے پاؤں کے سائز کے کالے بوٹ بھی مل گئے، اس سے پہلے وہ بکسوئے  والے بچوں کے سینڈل ہی پہن کے سکول جاتا تھا، یہ بُوٹ بھی اسے پتاوے ڈال کے پورے آئے تھے، گرمیوں کی چھٹیوں تک دو ماہ وہ پہن کے سکول جاتا رہا اور چھٹیوں میں تو وہ اس کی چارپائی کے نیچے پڑے رہے،
وہ گھر میں پہلا بچہ تھا، اس کے والد صاحب متمول زمیندار تھے ، جو سال میں ایک جوڑا کھسہ موچی سے ماپ دے کے سلواتے، وہ بھی کسی شادی بیاہ پہ ، یا گندم کی فصل اٹھانے کے بعد، جسے پالش کرنے کی ضرورت ہی نہیں  ہوتی تھی ، شروع میں اس کے اندر سرسوں کا تال لگایا جاتا، پُرانا ہونے پہ  اس کی کُھری ،ایڑی کے اوپر اور پاؤں کے پچھلے حصے پہ  لگنے والے چمڑے کو اندر کی طرف موڑ کے سلیپر کے طور  پر استعمال کیا جاتا،اور اس کے بعد اس کو کاٹ کے ہل چلاتے پہننے کیلئے ،ترپڑ  بنا لیا جاتا، اسے اور ایڑی کے نیچے آنے والے چمڑے کے ٹکڑے جسے اڈی، کہتے سنبھال کے رکھا جاتا، کہ وہ اوزاروں کے لکڑی کے ہینڈل یا دستے جب خشک ہو کے سُکڑ جاتے تو یہ بطور پیکنگ یا  چپر استعمال کیا جاتا، تو خادم حسین کے گھر میں بوُٹ کی پالش اور برش  کبھی موجود ہی نہ تھا۔
چھٹیوں کے بعد سکول کھلے، اور خادم حسین وہ بوٹ بس کپڑے سے جھاڑ کے پہن کے چلا جاتا، پالش نہ ہونے سے چمڑا اکڑ گیا اور تسمے سوراخوں کے  ساتھ سے کٹ کے ٹوٹنے لگے جنہیں وہ گانٹھ لگا کے باندھ لیتا تھا۔۔۔۔

Advertisements
julia rana solicitors london

اور ایک دن خادم حسین کے لئے انوکھا طلوع ہوا۔۔۔
صبح بھینس نے کھلی کھانے کے بعد ،لات مار کے دودھ اتارنے سے انکار کر دیا۔۔۔خادم حسین کے والد صاحب نے اسے کھرلی سے ہٹا کے ڈنڈے سے پیٹ ڈالا،رات کا بچا ہوا دودھ جو چھینکے میں رکھا تھا اس سے چائے بنائی  گئی  ،ناشتے کے لئے پراٹھے بنانے میں دیر ہو گئی ، جیسے تیسے وہ ناشتہ کر رہا تھا  تو اس کے ساتھ سکول جانے والے اس کے کزن آ گئے، اماں نے لنچ نہ بنا پانے پہ  اسے دونی دی، وہ جلدی میں بوٹ پہننے لگا تو ایک تسمہ جس میں پہلے سے  تین گانٹھیں  لگی تھیں ، ٹوٹ گیا، اور وہ بوٹ پاؤں میں اڑس کے چل پڑا،
سکول پہنچے تو اسمبلی ہو رہی تھی، کزن تو ہائی  سکول چلے گئے ،وہ پرائمری سکول   کے گیٹ پہ پہنچا تو وہ بند ہو چکا تھا اور اس کے سامنے اس سیکشن کے ہیڈ ماسٹر عبدالحکیم کھڑے تھے،
انہوں نے اسے غور سے دیکھا، تو اس نے نظر جھکا کے اپنے بوٹ پر مرتکز کر لی ، انہوں نے بھی اس کے پاؤں میں ایک بوٹ جو  تسمے  کے   بغیر تھا ،دیکھ لیا۔۔۔اور بوٹوں پہ  کبھی پالش نہ ہونے کو بھی نوٹ کیا،
خادم حسین ان کی ڈانٹ اور مار کھانے کو تیار تھا لیکن عبدالحکیم صاحب تو اُستاد تھے سمجھ گئے کہ مسئلہ کیا ہے، وہ خادم حسین کی لیاقت سے واقف تھے، سو وہ اسے ساتھ لے کے پہلے اسمبلی تک گئے اور اسمبلی ختم ہونے کے بعد اس کے کلاس ٹیچر کو بتا کے اور اسے ساتھ لے کے سکول کے باہر کونے پہ  بیٹھے موچی کے پاس آئے،
اُس کے بوٹ پالش کروائے اور ان میں نئے تسمے بھی ڈلوا دیئے، جن کی اجرت موچی نے دونی مانگی، اس سے پہلے کہ ہیڈ ماسٹر صاحب اپنی جیب سے پیسے نکالتے خادم حسین نے اپنے لنچ کے لئے ماں کی دی ہوئی  دونی موچی کو تھما دی ، عبدالحکیم صاحب نے مسکرا کے اسے دیکھا، جب وہ چمکتے ہوئے بوٹ پہن کے ان کے تسمے باندھ رہا تھا، اور پھر وہ جب اپنی کلاس میں ہیڈ ماسٹر صاحب کے ساتھ پہنچا تو سب اس کے بوٹ دیکھنے لگے، خادم حسین خود کو ہیرو محسوس کر رہا تھا، اسی شام اس نے ماں سے پیسے لے کر پالش کی ڈبیا اور برش خریدا  اور آج بھی جب وہ گھر سے نکلتا ہے تو اس کے جوتے دیکھنے والے ہوتے ہیں، اس نے میٹرک سے ماسٹرز تک ہر کلاس میں ٹاپ کیا، اعلی ملازمت کی۔۔اور اس کے بیٹے بھی بیرسٹر، ڈاکٹر اور اکاؤنٹینٹ ہیں۔۔۔۔
اگر ہیڈ ماسٹر عبدالحکیم صاحب اس روز خادم حسین کی دلجوئی  نہ کرتے اور اس کے بوٹ موچی سے پالش نہ کرواتے، اور اسے جھاڑ دیتے تو معاشرہ آج پانچ بہترین اہل ہنر سے محروم ہوتا اور خادم حسین ، اور اس کے بیٹے بھی  اس سماج میں بد دلی اور مایوسی پھیلا کے اُس جھاڑ سے جھاڑو پھیر رہے ہوتے۔۔

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply