ہمارے پاس دانش نہ رہا۔۔رمشا تبسّم

میرے پاس تم ہو کا سفر مکمل ہوا اور پیارا دانش ہم سب سے جدا ہو کر بہت سے لوگوں کو رلا گیا۔مرد عورتیں اور بچے دانش کی موت پر انتہائی افسردہ پائے گئے۔ یہ  ڈرامہ  تنقید کا نشانہ بھی بنا مقبول بھی ہوا اور دیکھنے والے زارو قطار رو بھی پڑے ۔خلیل الرحمن قمر اور میرے پاس تم ہو کی تمام کاسٹ داد کی مستحق ہے۔ نئے لکھاری نئی ویب سائیٹ بنا کر ان کو مشہور کرنے کو دن رات لکھنے والے ہر طرح کے فیس بک کے لکھاری اور بلاگرز خواہ کتنا بھی غصہ خلیل الرحمن قمر اور ڈرامے کی کہانی پر کیوں نہ نکالیں اور خلیل الرحمن قمر کو ایک فضول اور بدترین لکھاری کیوں نہ کہیں مگر یہ حقیقت ہے کہ خلیل الرحمن کا لکھا ہوا میرے پاس تم ہو کا  سکرپٹ ،کاسٹ اور سکرین پلے لوگوں کی توجہ کا مرکز رہا اورڈرامہ بے شمار کامیابی سمیٹنے میں کامیاب ہوا۔اب من جلے چاہے جتنا بھی جلن اور نفرت کا مظاہرہ کیوں نہ کریں مگر ڈرامہ کی کامیابی سے انکار کرنا درحقیقت صرف اور صرف  حسد ہو سکتا ہے اور کچھ نہیں۔

ڈرامے کا سفر نیشنل اور انٹرنیشنل لیول پر شاندار پذیرائی حاصل کرنے کے بعد ختم ہوا مگر حقیقت میں یہ وفا اور بے وفائی کا سفر ہمیشہ سے جاری تھا اور ہمیشہ جاری رہے گا۔یہ محض ایک ڈرامہ نہیں بلکہ ایک کڑوا گھونٹ تھا جس کو کچھ نے صبر سے پی لیا کچھ نے پی کر رائٹر اور معاشرے پر اُگل دیا اور کچھ نے اس کو مثبت انداز میں سمجھا اور اس ایک پہلو کو تسلیم کیا جو معاشرے میں تمام نہ سہی مگر کچھ لوگوں کی کہانی ضرور ہے۔کسی شہوار کی کہانی,کسی دانش کی, کسی مہوش کی, کسی متین کی, کسی رومی جیسے بچے کی,کسی ادھوری رہ جانے والی ہانیہ کی ،یا پھر کسی ماہم جیسی بااثر خاتون کی۔

زندگی کئی کرداروں کے گرد گھومتی رہتی ہے۔معاشرے میں شہوار اور متین جیسے بے وفا مرد موجود ہیں تو کوئی شک نہیں مہوش جیسی عورتیں بھی موجود ہیں ،جو محض دولت کی خاطر اپنی آنکھوں سے بڑے خواب دیکھتے  ہوئے  اپنا گھر برباد کر لیتی ہیں۔اور بے شک ایک ایسی عورت جو کسی کے نکاح میں ہوتے ہوئے کسی دوسرے مرد کے ساتھ ہوٹل کے کمرے میں پہنچ جائے عورت کہلانے کے قابل نہیں۔اور شہوار جیسا بے وفا مرد بے وفائی کر کے بیشک کوئی حق نہیں رکھتا حتیٰ  کہ  طلاق دینے کا بھی نہیں۔

اس ڈرامے نے اس پہلو پر بھی توجہ دلائی کہ اگر عورت اپنا راستہ الگ کرنے کا ارادہ کر چکی ہے تو یہ مت سمجھو کہ اس نے صرف ارادہ کیا ہے بلکہ یہ مان لو کہ  وہ الگ ہو چکی ہے۔لہذا اسکو آزاد کر دیا جائے نہ کہ  اسکو مارا پیٹا جائے، غیرت کے نام پر قتل کیا جائے ۔حالانکہ اس طرح کی ایک مثبت مثال پاکستان میں دو سال قبل دیکھنے کو بھی ملی جس کو ذاتی مسئلہ کہہ کر سب کو خاموش کروایا گیا اور اس مرد اور عورت کے اقدام کو جائز بھی کہا گیا اور اس طرح کی بیشمار کہانیاں اور بہت سے شہوار دانش اور مہوش ہمارے آس پاس کسی نہ کسی شکل  میں موجود ہوتے ہیں ۔

لہذا خلیل الرحمن قمر نے معاشرے کے ایک کڑوے سچ کو پیش کیا مگر یہ کڑوا گھونٹ پینے والے بہت کم لوگ تھے۔زیادہ تر نے سچ سے منہ موڑ کر اس کو عورتوں کی تذلیل ثابت کیا اور اب تک ایسے بہت سے لوگوں کی بلند و بالا چیخیں سنائی دی جا رہی ہیں۔

خلیل الرحمن قمر کے پاس اس ڈرامے کو بنانے کے کئی  طریقے تھے۔ایک تو یہ کہ  دانش مہوش کو شہوار کے ساتھ جانے دینے کی بجائے اس کو زہر دے دیتا ،یا پھر شہوار اور مہوش کو اس دن قتل کر دیتا۔یہ بھی ممکن تھا کہ شہوار کے ساتھ ائیرپورٹ پر دیکھنے کے بعد گھر لاتا مار پیٹ کرتا اور پھر قتل کر دیتا۔مگر خلیل الرحمن نے ایسا نہ کیا اور مثبت بات یہ رکھی کہ  علیحدگی کا اختیار عورت کو ہے وہ علیحدگی کی خواہش کرے تو اس کو رخصت کر دیا جائے۔ایک طریقہ یہ بھی تھا کہ شہوار کو آخر میں معاف کر کے ماہم اور وہ ہنسی خوشی رہتے مگر شہوار بھی آخر تک مجرم ہی رہا مگر صرف ماہم کا۔مہوش کا نہیں۔۔۔کیونکہ مہوش جیسے کردار واقعی اپنے مجرم خود ہوتے ہیں۔عورت بھٹکنا نہ چاہے تو کوئی بھٹکا نہیں سکتا۔

دانش کی ہانیہ سے شادی کا آپشن بھی تھا مگر ایسی صورت میں سب کو لگتا کہ  دانش کو مہوش سےکبھی سچی محبت تھی ہی نہیں، اس لئے دوسری شادی کر لی۔

لہذا  کامیاب اختتام یہی بنتا تھا کہ  دانش کو مار دیا جائے۔پیارے افضل کا اختتام کچھ اور تھا مگر حمزہ علی عباسی نے خلیل الرحمن قمر سے کہا مجھے آخر میں مار دیا جائے تا کہ میں ہمیشہ زندہ رہوں ۔لہذا افضل کو مار دیا گیا جو کہ اب تک پیارے افضل کے روپ میں زندہ ہے۔لنڈا بازار میں مہر حاکم کو مار کر خلیل صاحب نے آخر میں اسکو بھی ہمیشہ کے لئے زندہ کردیا ۔اور لال عشق میں بالی کو مار کر اسکو بھی زندہ کرنے میں کامیاب رہے۔اور محبت تم سے نفرت ہے میں ماہین اورنگزیب کو مار کر بے وفا مرد کو سزا دی گئی  اور ماہین کا غرور اسکی انا اسکی ضد ہمیشہ کے لئے زندہ ہو گئی ۔اسی طرح صدقے تمہارے کی سب کی پیاری شنو مر کر بھی آج تک سب کے دل میں زندہ ہے۔کرداروں کو مار کر ان کو زندہ رکھنے کا ہنر صرف خلیل الرحمن قمر کو آتا ہے ۔اور وہ وقتاً فوقتاً مختلف طریقے سے کرداروں کی موت لکھ کر ان کو زندگی عطا کرتے رہتے ہیں۔

پیارا افضل,مہر حکم, بالی,شنو,متین صاحب,اختر احمد اور ماہین اورنگزیب کے ساتھ ساتھ اب ہمارا پیارا دانش بھی خلیل الرحمن قمر نے رخصت کروا دیا۔

خلیل الرحمن قمر کردار لکھتے ہیں تو لگتا ہے کردار جی اٹھتا ہے۔محبت لکھتے ہیں تو لگتا ہے محبت ہو ہی گئی ۔نفرت لکھتے ہیں تو نفرت سے نفرت سی ہو جاتی ہے۔بے وفائی لکھتے ہیں تو بے وفائی سے خوف آنے لگتا ہے۔وفا لکھتے ہیں تو وفا میں مر مٹنے کو جی چاہتا ہے۔ضد لکھتے ہیں تو ضد پر فدا ہونے کو دل چاہتا ہے۔اور اگر موت لکھتے ہیں تو مر کر زندہ رہنے کو جی چاہتا ہے۔

خلیل الرحمن قمر کی سوچ اور کہانی سے اختلاف ہو سکتا ہے مگر ان کے لکھنے کے ہنر کو نہ ماننا یا انکے لکھے پر  بے جا تنقید کرنا اور انکی کامیابی کو بُرا کہنا در حقیقت ہمارے معاشرے کی اس سوچ اس ذہنیت کا عکاس  ہے جس میں ہر شخص صرف اپنی ذات کے دائرے میں رہتا ہے اور خود کو ہی ہر فن مولا سمجھ کر دوسروں کو جوتی کی نوک پر رکھتا ہے۔اور ایسے منفی سوچ رکھنے والے در حقیقت اپنی ناکامی کو دوسروں کی کامیابی پر تنقید کر کے چھپانا چاہتے ہیں۔اور یہ ایک مہلک مرض ہے ۔جس کا علاج کچھ نہیں۔اور ہمارے معاشرے کے بیشتر لوگ اور خاص کر لکھاری اس مرض میں مبتلا ہیں ، لہذا وہ کوئی مثبت چیز پیدا کرنے سے خود بھی قاصر ہیں اور دوسروں کی کامیابی  پر بھی طنز کرنے میں مصروف رہتے ہیں۔

Advertisements
julia rana solicitors

میرے پاس تم ہو ایک شاہکار لکھا گیا اور اس شاہکار کو سراہا گیا جس کا ثبوت آخری قسط کو دیکھ کر جذبات پر قابو نہ رکھتے ہوئے زارو قطار رونے والے لوگ ہیں۔
ٹیم میرے پاس تم ہو، کو کامیابی کی بہت مبارک باد ۔

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply