پوسٹ ماڈرنزم کیا ہے؟۔۔غلام سرور

فلاسفی کی زبان میں موجودہ دور کو پوسٹ ماڈرنزم کا نام دیا گیا ہے۔ کیونکہ یہ جدیدیت پسندی یا ماڈرنزم کےبعد کا زمانہ ہے۔  فلاسفی صرف دو چیزوں پر انحصار کرتی ہے حقائق اور دلائل۔ ہاں/نہیں۔ مطلب تھیسز اور اینٹی تھیسز۔
پوسٹ ماڈرنزم کے مطابق “علم کا کوئی  اختتام نہیں  ہے۔ علم بڑھ رہا ہے ،اس کی کوئی انتہا نہیں  ہے۔ پوسٹ ماڈرن علم میں سچ اور خاتمہ کی بنیاد کو رد کرتے ہیں۔
اس کے نزدیک کچھ بھی سچ نہیں ہے۔ مشال کے طور پر پوسٹ مارڈنسٹ کے مطابق “کوئی شخص یہ نہیں  کہہ سکتا کہ موجودہ حکومت پچھلی حکومت سے اچھی ہے یا بری ہے۔ ہاں انسان کے لیے نئی حکومت ایک نیا علم ہے۔

مشل فوکو (Michel foucault) ایک فرانسیسی فلاسفر کے مطابق ” دنیا میں جتنی بھی تاریخ ہے وہ طاقت کے بل بوتے پر لکھی گئی ہے۔ جس طرح طاقت دوسروں پر برتری کے لیے استعمال ہوتی ہے۔ اسی طرح علم بھی طاقت پرمبنی ہے اور طاقت ور مغربی ممالک نے اس موجودہ علم کو اپنے  ذہن اور سمجھ سے بنایا ہے۔ جس کا حقیقت کے ساتھ کوئی واسطہ نہیں  ہے۔

پوسٹ ماڈرنزم موجودہ جتنے بھی علم ہیں، ان کو چیلنج کرنے کے ساتھ ساتھ زور دیتی ہے کہ کسی ایک کا سچ دوسرے کا سچ نہیں  ہو سکتا۔ اور دنیا میں جتنا بھی علم ہے وہ محض ایک خاص علاقے سے وابستہ ہے ،نا کہ اس کو پوری دنیاپر لاگو کیا جائے۔

جین فرینکوس (jean-francois lyotard) کے مطابق پرانے مضامین اور کتابیں سچ ،لفظوں کے مطلب اور علم کی گارنٹی دے رہے ہیں جو کہ فلاسفی کی بنیاد کے خلاف ہے۔ کیوں کہ علم وہی ہے جو تجربہ،تجزیہ، دلیل اور حقائق سے حاصل ہو ،جبکہ موجودہ علم مغرب کی طاقت کا ایک نمونہ ہے جو سارے علوم پر اثرانداز ہو کر فلاسفی کی بنیاد دلیل کو غلط کر رہا ہے۔

سوشل سائنسز میں علم کا حصول مشاہدہ، تجزیہ اور دلائل سے کیا جاتا۔ پوسٹ ماڈرنزم کے مطابق کوئی علم سبجیکٹو ہے اوبجیکٹو نہیں ، لوکل ہے، یونیورسل نہیں ۔

Advertisements
julia rana solicitors

ایک سادہ سی مثال ہے ۔۔۔
میں نے کلاس میں بچوں سے سوال کیا، درخت کیا ہے؟۔ بچوں نے جواب دیا ،درخت کے پتے ہوتے ہیں ٹہنیاں ہوتی ہیں ، یہ ایک جاندار چیز ہے اس کو آکسیجن کی ضرورت ہوتی ہے۔ یہ سب کتابی باتیں تھیں۔ مگر ایک بچے نے جواب دیا۔ درخت ایک انسان کی مانند ہے۔ پیدا ہوتا ہے۔ بچپنا آتا ہے جوانی آتی ہے اور پھل دیتا ہے۔ پھر مرد کی طرح بوڑھا ہوجاتا ہے۔ یہ آخری بچے کا جواب ہی پوسٹ ماڈرنزم ہے۔ کیونکہ یہ نئی  سوچ ن،یا مشاہدہ تھا۔ علم بڑھ رہا ہے اور اس کا کوئی  اختتام  نہیں  ہے۔ کیا پتہ کل کو گلاس کانام بدل دیا جائے۔ کل کو زمین  کونیا نام دیا جائے۔ کیونکہ یہ نام تاریخ پر مبنی ہیں، کسی چیز کو نام دینے سے اس کا علم مکمل کر دیا جاتا  ہے،اگر چیزیں نام کے بغیر جانی  جاتیں، تو علم بہت آگے تک بڑھ چکا ہوتا۔ اور اس دور،عہد کا علم ماضی سے اور کتابوں سے مختلف ہوتا۔  ہر دور کااپنا ایک علم ہے جو اس دور کے تجزیے سے حاصل ہوتا ہے  ۔ تاریخ ماضی تھا، وہ ماضی کے تجربات تھے۔۔ اس دور میں ان پر عمل کرنا علم کی بڑھوتری کی نفی کے مترادف ہے۔ یہ پوسٹ ماڈرنزم ہے۔ اس وقت کی سب سے مشکل، پچیدہ اور اپنے خیالات کی مانند نامکمل تھیوری۔

Facebook Comments

Ghulam Sarwar
پنجاب یونیورسٹی سے انٹرنیشنل ریلیشنز میں ڈاکٹریٹ کی ڈگری حاصل کی۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply