• صفحہ اول
  • /
  • نگارشات
  • /
  • سیّد زادی کی کورٹ میرج،اور والدین کا مذہبی پروپیگنڈہ۔۔شاہد خیالوی

سیّد زادی کی کورٹ میرج،اور والدین کا مذہبی پروپیگنڈہ۔۔شاہد خیالوی

دعا نے اپنے ویڈیو پیغام میں بتایا ہے کہ اس کی عمر اٹھارہ سال ہے ۔ گھر والے مرضی سے شادی کرنا چاہتے تھے، انکار پر تشدد کیا ۔ مزید کہا کہ اس نے مرضی سے کورٹ میرج کی ہے۔

دعا کے باپ کی طرف سے فرقے کی بنیاد پر گھٹیا ترین مہم چلائی گئی ہے، جس میں دوسرے مسالک پر اعلان نہ کرنے کا الزام لگانا، شیعہ بیوروکریسی کو گمراہ کُن معلومات فراہم کر کے اپنے لیے سپیس پیدا کرنا، دعا کی عمر کے معاملے میں جھوٹ بولنا شامل ہے۔

ہماری رائے میں یہ بندہ اوّل درجے کا مکار، عیار   اور یقینا ًبیٹی پر ظلم بھی کرتا ہو گا ،جیسا  کہ دعا نے ویڈیو میں بتایا بھی ہے ۔دعا کے والد  سے   اس درجہ  جھوٹ بولنے پر باز پُرس    کی جانی چاہیے  ۔

میرے خیال میں دعا سچ بول رہی ہے اور یہ معاشقہ یا محبت کچھ بھی کہہ لیں، کچھ عرصے سے چل رہا  ہو گا، جس کا چار سے چھ ماہ پہلے والدہ کو علم ہو گیا ہو گا۔ والدہ نے والد کو بتایا تو اُنہوں نے دعا پر دست درازی کی ہوگی ، ابتدائی   طور پر   جو اچانک ردِعمل  سامنے آتا ہے وہ   ذرا شدید ہوتا ہے، بعض اوقات لڑکی کی کوئی ہڈی پسلی بھی ٹوٹ جاتی ہے۔اس کے بعد فوراً برادری یا عقیدے کے اندر ہی لڑکی کا رشتہ ڈھونڈا جاتا ہے اور باپ دھمکی دیتا ہے کہ اگر چپ چاپ ہماری پسند کو نہ اپنایا تو تمہاری خیر نہیں ۔ اگر معاشقے کا جادو سر چڑھ کر بول رہا ہو تو لڑکی کہتی ہے جو کرنا ہے کر لو میں شادی کرونگی تو اسی کے ساتھ ۔ اب اسے پیار سے سمجھانے کی باری ماں کی ہوتی ہے۔ ماں کے سفارتی مشن میں برادری میں ناک کا کٹ جانا، اشکوں کی برسات، مسلک میں جینا حرام ہو جانا وغیرہ شامل ہے۔ اگر لڑکی شیعہ سیّد ہو اور لڑکا غیر سیّد  تو ناک ذرا نیچے سے کٹنے کی دہائی دے کر منتیں ترلے کیے جاتے ہیں۔ اگر لڑکی شیعہ سیّد ہو اور لڑکا غیر سیّد سُنی  ہو تو سمجھو آگ  بابر۔۔ تشدد ڈبل، دھمکیاں، پابندیاں، زنجیریں اور نامعلوم کیا کیا کچھ کیا جاتا ہے۔

کیونکہ برصغیر کے  سادات کے حوالے سے ایک بات بہت مشہور ہے  کہ ان کی  اکثریت جینیٹکلی غیر سید ہے اور کسی نقل مکانی کی صورت میں نئی جگہ جا کر سید بنے ہوتے ہیں اس لیے ان میں ایک خاص قسم کا مصنوعی پن ہوتا ہے جسے وہ دیگر معاملات سے کور کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔

اس پر ایک لطیفہ بھی ہے ایک “سید” کا کسی   کے ساتھ جھگڑا تھا معاملہ عدالت میں چلا گیا مخالف نے عدالت میں عرض گزاری کہ یہ بندہ پہلے اپنا سیّد ہونا ثابت کرے ۔ جج کی طرف سے اگلی پیشی پر سیّد ہونے کی گواہی طلب کی گئی۔ شاہ صاحب پریشان حالت میں عدالت سے گھر کی طرف چل پڑے ،راستے میں مراثی ملا، ہاتھ باندھ کر سلام کیا ،پریشانی کی وجہ پوچھی، سید نے معاملہ بتایا مراثی نے کہا آپ مجھے بطور گواہ لے چلو میں گواہی دوں گا۔ مراثی کی گواہی کی باری آئی جج نے پوچھا ہاں بھائی تم جانتے ہو اسے یہ واقعی سید ہے ۔؟ اس نے کہا “جناب نال ایمان دے ایہہ سید اے” جج نے پوچھا تم اتنے یقین سے کیسے کہہ رہے ہو، مراثی نے کہا،” جناب ایہہ میرے سامنے سید بنے نیں۔”

یہ ایک الگ موضوع ہے جس پر الگ سے مضمون لکھا جا سکتا ہے۔ کہا جاتا ہے کہ سید لڑکی یا لڑکے کی شادی غیر سید سے نہیں ہو سکتی۔ ایسا تو ہندومت میں بھی ہے کہ برہمن لڑکی لڑکے کی شادی غیر برہمن سے نہیں ہو سکتی۔ یہ پریکٹس برصغیر کے علاوہ کسی خطے کے سادات کی طرف سے نہیں ہوتی ، سعودی عرب میں کئی “شریف” لڑکوں لڑکیوں کی شادی دوسرے حضری یا بدوی قبائل میں کردی جاتی  ہے، یعنی برصغیر کے سیدوں کو آپ اسلام کے برہمن سمجھ لیں۔

اگر دعا کے والدین سمجھ دار ہوتے تو بیٹی کا جنون دیکھ کر خاموشی سے لڑکے کو بلاتے، اس کا انٹرویو کرتے، اگر لڑکا معقول نظر آتا تو فورا ً بچی کا نکاح اس کے ساتھ کر کے اس حادثے کو وقوع پذیر ہونے سے روک لیتے۔

نوٹ: عرب میں سادات کو اشراف کہا جاتا ہے جسں کا مطلب ہے شرف والے ہمارے والا شریف اور معنی میں استعمال ہوتا ہے۔

Advertisements
julia rana solicitors

نوٹ:یہ تحریر ایک عام آدمی کا نقطہ نظر ہے،سمجھ بوجھ کا وہ انداز جس سے وہ اپنے ارد گرد وقوع پذیر ہونے والے ایسے واقعات کو دیکھتا ہے۔اس سے کسی مسلک یا ذات برادری کی تحقیر ہر گز مقصود نہیں ہے،نہ ہی کسی کی دلآزاری پیش نظر ہے۔

Facebook Comments

مکالمہ
مباحثوں، الزامات و دشنام، نفرت اور دوری کے اس ماحول میں ضرورت ہے کہ ہم ایک دوسرے سے بات کریں، ایک دوسرے کی سنیں، سمجھنے کی کوشش کریں، اختلاف کریں مگر احترام سے۔ بس اسی خواہش کا نام ”مکالمہ“ ہے۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply