• صفحہ اول
  • /
  • ادب نامہ
  • /
  • سفر نامہ
  • /
  • سفر نامہ:عراق اشک بار ہیں ہم/نہ شیعہ،نہ سنی اور نہ کُرد-سب گروپوں اور گرہوں میں بٹے ہوئے ہیں(قسط21)۔۔۔سلمیٰ اعوان

سفر نامہ:عراق اشک بار ہیں ہم/نہ شیعہ،نہ سنی اور نہ کُرد-سب گروپوں اور گرہوں میں بٹے ہوئے ہیں(قسط21)۔۔۔سلمیٰ اعوان

تو وہ منحوس گھڑی آگئی۔آنکھوں میں آنسو، لب پر دُعائیں۔اور جب بغداد جل رہا تھا میں خود سے پوچھتی تھی۔”وہ آخر اتنی فوجیں کیا ہوئیں؟
ڈھائی کروڑ آبادی والے مُلک کی باقاعدہ فوج کوئی چار لاکھ کے قریب ری پبلیکن گارڈز بھی،ریزرو فوج بھی۔ہر شہری لازمی دو سالہ فوجی تربیت کا ٹرینڈ، ہر گھر میں چھوٹا موٹا اسلحہ موجود،تو مدافعت شاندار طریقے سے کیوں نہ ہوئی؟“
تومیں داستان سُنتی تھی اِس اتنی جلدی ڈھے جانے کی فارس مہدی سے۔
”بغداد نے کیا مزاحمت کرنی تھی۔آپ کا دشمن عیار،ذہین، ہر کام کی وقت سے پہلے منصوبہ بندی کرنے والا۔گلف وار میں اُس نے آئل ریفائنریوں،واٹر سپلائی پائپ لائنوں، بجلی گھروں اور مواصلات کو تباہ کردیا تھا۔کیونکہ اس کے پروگرام میں قبضہ شامل نہیں تھا۔گواس میں بھی کوئی شک نہیں کہ خلیجی جنگ کے بعد بحالی کا کام ہنگامی بنیادوں پر ہوا۔ بغداد کو دیکھ کر کوئی کہہ نہیں سکتا تھاکہ اس کی اینٹ سے اینٹ سے بجانے کی کوشش ہوئی تھی۔اگر ڈیفنس منسٹری کی عمارت کو نہ دیکھا جاتا جو ابھی بھی اسی حالت میں ہے۔
ٍ لیکن جب وہ قبضے کی نیت سے آئے تو ایسی ہر چیز کو بچایا گیا جس کی انہیں ضرورت پڑنی تھی۔بجلی پوری طرح موجود تھی۔دجلہ کے کسی پل کو ٹارگٹ نہیں کیا گیا۔ریڈیو اور ٹی وی ا سٹیشن کام کرتے تھے۔کہیں ہلکا پھلکا سا چھینٹا لگایا گیا ہوگاوگرنہ احتیاط کی گئی۔
فوج کے سرکردہ لوگ بِکے۔ ری پبلیکن گارڈز بِکے۔
وہ میرا عزیز الجبوری تو سب سے بڑا غداّر ثابت ہوا۔توڑ جوڑ کا ماہر غیر معمولی صلاحیتوں کا مالک۔ بعث پارٹی میں اپنے کاموں کی وجہ سے وہ بہت جلد صدام کی نظروں میں اپنا مقام بنانے میں کامیاب ہوا تھا۔اسی لیئے وہ صدام کے انتہائی خوفناک خفیہ سکواڈ میں متعین ہوا۔صدام کے مخالفین کے بارے میں معلومات حاصل کرنے، اُنہیں پار لگانے اور اذیتیں دینے میں بھی اُس کا جواب نہ تھا۔ایک طویل عرصہ اُس نے خدمات انجام دیں۔صدام کا معتمد تھا تو پیسے کی ریل پیل تھی اس کے پاس۔ یہی چیز اُس کے بعض رشتے داروں کو کِھلتی تھی۔ہم تکرتی لوگ ہیں۔ہمارے قبیلے کی اکثریت سُنی پر تھوڑی شیعہ بھی ہے۔قبیلہ میں جدّی دشمنیاں اور دوستیاں تو چلتی رہتی ہیں۔چند لوگوں نے فساد برپا کرنے کی کوشش کی جس کا نزلہ الجبوری پر پڑا۔صدام نے اُسے فارغ کردیا۔
وہ قصوروار نہیں تھا۔یہ میں جانتا ہوں۔ظاہر ہے وہ ہرٹ ہوا تھا۔ سارارعب،دبدبہ،شان و شوکت ختم ہوگئیں۔پر اب اس کا مطلب یہ بھی نہ تھا کہ آپ سی آئی اے کے آلہ کار بن جائیں۔
وہ چھ فٹ تین انچ لمبی قامت اور مظبوط اعصاب کا مالک تھا۔اُردن میں وہ Iraqi National Accord میں جا شامل ہوا جو صدام کا شدید مخالف کیمپ تھا۔ سی آئی اے کو بھی عراق کیلئے کِسی تگڑے بندے کی ضرورت تھی۔سی آئی اے کے افسروں نے عمان میں اُس سے لمبی ملاقاتیں اور مذاکرات کئیے۔وہ انہیں متاثر کرنے میں کامیاب ہوا۔تنخواہ کے معاملات فائنل ہونے کے ساتھ اُسے چند اور لوگوں کے ساتھ امریکہ بھیج دیا گیا۔ٹیکساس سٹیٹ کی ایک دُور افتادہ جگہ پر انہیں کندن بنانے کیلئے جسمانی و ذہنی ہرمشقت سے گذرا گیا۔
اور پھر اُسے ڈالروں کے بورے اور جدید آلات کے ساتھ عراق بھیج دیا گیا جہاں اُس نے اپنے پرانے رفیقوں کو خریدا۔عراقی نیشنل کانگرس کے افراد پہلے ہی صدام کے خلاف کام کر رہے تھے۔وہ بھی مِل گئے۔صدام انٹرنیشنل ایرپورٹ پر امریکی قبضہ صرف اور صرف ان کی وجہ سے بہت جلدہوا۔
ذرا بدقسمتی دیکھئیے۔فارس مہدی نے غالباََ کوئی خاص بات بتانے کیلئے مجھے متوجہ کِیاتھا۔خود تو بِکے،مال بٹورا،ضمیر بیچا پردیگر عرب ممالک سے آنے والے جذبہئ جہاد سے سرشار مجاہدین کابیڑہ غرق کردیا کہ اُن سے بڑے بڑے ہتھیار یہ کہتے ہوئے لے لئیے گئے کہ ُان کی فوج کو اس کیضرورت ہے۔یہ مُٹھی بھر لوگ کتنی دیر تک مزاحمت کرتے؟سب شہید ہوگئے۔
بغداد کے اہم مقامات پر کمانڈروں نے فوج کو جوابی فائرنگ نہ کرنے دی۔انہیں نئی حکومت میں اُونچے عہدوں کی پیشکش اور بھاری انعام مِل چکے تھے اور وہ جو وفادار تھے وہ غدارّوں کے احکام ماننے پر مجبور تھے۔
موبائل کی بیلBell بجی۔کمرے میں عربی کی خوش گفتاری کے پھول کِھلنے لگے۔گفتگو ختم ہوئی تو انہوں نے کہا۔
ہاں اِس کہانی کا ڈراپ سین ذرا سُن لیجئیے۔
الجبوری اور اُس کے کئی اہم ساتھیوں کو حکومت میں کوئی عہدہ دینا تو بڑی بات انہیں اپنی ذاتی حفاظت کیلئے اسلحہ رکھنے کی اجازت بھی نہیں مِلی۔ وہ ہِٹ لِسٹ میں نمبرایک پر ہیں۔امریکہ آپ کو اپنے مفاد کیلئے استعمال کرتا ہے۔آپ پر قربان ہو ہو جاتاہے پر مطلب نکل جانے پر آپ کو دیکھتا تک نہیں۔
افغانستان کے بارے میں اُن کے تاثرات جاننے کی میری خواہش پر وہ بولے۔ ”دُنیا انہیں اُجڈ،گنوار،جاہل اور جانے کن کن خطابات سے نوازتی ہے۔پر وہ بڑی تیز اور جی دار قوم ہے۔ٹوٹی چپلوں کے ساتھ چھلانگیں مار کر جہازوں میں بیٹھتی اور اُنہیں اڑاتی ہے۔امریکہ کو بیوقوف بنانے کا فن جانتی ہے۔کیافوج،کیاپولیس،کیاایجنٹ۔ جدید ہتھیاروں کی سپلائی طالبان کی سرکوبی کیلئے حاصل کرتی ہے۔طالبان سے سودے بازی کرکے باقاعدہ منصوبہ بندی سے نوراکشتی کا اہتمام کرتے ہوئے امریکیوں کو پیغام دیتی ہے کہ طالبان لُوٹ کر لے گئے ہیں سامان۔مزید دو۔
مگر اس کے ساتھ ساتھ گروہوں اور قبائل میں بٹی قوم جس کا بہت بڑا مسئلہ اُس کی معاشرتی یک جہتی کا ہے۔خالصتاً ایک قبائلی ملک جس میں پشتون،ازبک،تاجک،ہزارہ اور کچھ دیگر قومیتیں ہیں۔ قبائلی خوانین اور سردار جو بے حد طاقتور اور اہم ہیں یہی لوگ جنگ کے زمانے میں وارلارڈز بن کر امریکہ سے ڈالروں کے بورے سمیٹتے رہے اور بجائے اپنے مفلوک الحال لوگوں کی بہتری پر خرچ کرنے کے اپنی جیبیں بھرتے اور خود کو مظبوط کرتے رہے۔غربت اور پس ماندگی اِن لوگوں کا مقدر بنادی گئی ہے۔
”کاش اُسامہ بن لادن اُن کو ہستانی لوگوں کیلئے علم اور ٹیکنالوجی کے راستے
کھولتے۔کالج اور یونیورسٹیاں بناتے تو کیا یہ بہتر نہ ہوتا۔میری اندر کی پرانی خواہش میرے ہونٹوں پر آگئی تھی۔
”بات علم اور ٹیکنالوجی کی نہیں۔بڑی طاقتوں کے غلبوں اور حرص کی ہے۔
آپ اور آپ جیسے ترقی پسندوں کو یہ فدائی مجاہدین دہشت گرد نظر آتے ہیں۔آپ کا کہنا ہے کہ ہمیں مغرب کا مقابلہ علم اور ٹیکنالوجی کے زور پر کرنا چاہئیے۔ مجھے اتفاق ہے اس سے۔علم مومن کی میراث ہے۔ کوئی شک نہیں مگر وہ جو صاحب علم ہیں متمدن ہیں۔کلچرلڈ اور انسانیت کے علمبردار ہیں۔کیا کر رہے ہیں وہ؟کُتے بلیوں کیلئے انکی ممتا پھٹی جاتی ہے مگر عراق کے معصوم بچے،عورتیں اور بوڑھے جس بربریت کا شکارہوئے ہیں اس کے لئیے کیا کہیں گی۔
دفعتاً انہوں نے مجھ سے پوچھا ”آپ بغداد کے کِسی اسپتال میں گئیں۔ میں نے صاف گوئی سے کام لینا زیادہ مناسب سمجھا تھا۔جواباً بتا یا کہ بغداد آتے ہی اسپتالوں میں جانے اور اُن زخموں کو دیکھنے کیلئے میں جتنی زیادہ پرجوش تھی۔ایرموک اسپتال اور المنصورPediatric اسپتال میں ایک ایک بار کی وزٹ نے مجھے اِس درجہ مضطرب اور بے چین کیاکہ میں نے مزید اسپتالوں کا رُخ نہیں کیا۔جنگ کے پانچ چھ سال گزر جانے پر بھی میں نے Lymphatic Cancer،ٹیڑ ھی میڑھی ٹانگوں،پھولے پیٹوں،مدقدق چہروں،بجھی آنکھوں اور ٹیڑھے میڑھے ہاتھوں والے بچوں کی اکثریت دیکھی تھی۔میرے تو آنسو خشک نہ ہوتے تھے۔نسلیں تباہ کردی ہیں بدبختوں نے۔
دُکھ سے لبالب بھرا بڑا لمبا سانس تھا جو اُس نے بھرتے ہوئے کہا تھا۔
”یورینیئمUranium شیلوں کی بھر مار نے ماحول کو،زمین کو اور پانیوں کو زہر آلود کردیا ہے۔اب غریب لوگوں نے اُس زمین میں آلو،ٹماٹر پیاز تو اُگانے ہیں۔کھانے بھی ہیں اور شکار بھی ہونا ہے۔ اب اِس صدر سٹی کا حال سُن لیجئیے جہاں بم شیلنگ نے بڑے بڑے گڑھے پیدا کردئیے ہیں۔پینے کے پانی اور سیوریج کے پائپوں میں سوراخ ہوجانے سے دونوں کے پانی مل گئے ہیں۔اب زہر پیا جارہا ہے۔کرفیو لگتا ہے تو کھانے پینے کی چیزیں مارکیٹ سے غائب اور اگر کچھ ملتا ہے تو دس گنا زیادہ قیمتوں پر۔ایسے میں عراق کی ماہر سائنس دان مائیکرو بائیولوجی میں پی ایچ ڈی ڈاکٹر ہدا مہدی اماش جب اس پر آواز اٹھاتی تھی اِس ثبوت کے ساتھ کہ عراقی فصلوں اور بچوں میں یہ بیماریاں کبھی پہلے نہیں تھیں جتنی خلیج کی جنگ کے بعد ہوئی ہیں تو اسے گرفتار کرلیا جاتا ہے اِس الزام کے ساتھ کہ وہ صدام کے Biological Weapons Programm کے سر کردہ لوگوں میں سے ہے۔یہی سلوک ہماری دوسری سائنس دان ڈاکٹر رہاب طہٰ Rihab Taha کے ساتھ ہوا۔
اُن کی گھناؤنی حرکتیں دیکھیں تو ہم بیچارے بڑے معصوم نظر آتے ہیں۔سوال تو بہت سارے پوچھے جا سکتے ہیں۔جائز اعتراضات کی بھی ایک لام ڈور ہے کہ آخر یہ کیمیائی مواد صدام کے ہاتھ بیچا کیوں گیا؟اُسے گیس بنانے کی اجازت کیوں دی گئی؟کردوں اور ایرانیوں کا تخم مارنے کیلئے کہ شاہ ایران کے بعد انہیں مشرق وسطیٰ میں اپنے مطلب کا بندہ چاہیے تھا۔
دسمبر 1998میں امریکہ اور برطانیہ کے فائٹر جہازوں کے پورے پورے سکورڈن شمالی اور جنوبی عراق کے نوفلائی زون پر کثرت سے پروازیں کرتے تھے۔ جوابی عذر میں اِن علاقوں کے کُرداور شیعوں کی صدام سے مخالفت اور عتاب سے محفوظ رکھنے کا بہانہ تھا۔لیکن اقوام متحدہ آفس کی عراق کیلئے نامزد Humanitarian coordinator کی رپورٹ تھی کہ گائیڈڈ میزائل گرنے سے بصرے میں بیسوؤں لوگ مرے اور زخمی ہوئے۔اب پنٹاگون بکواس کرے کہ ایک بھی ہلاکت نہیں ہوئی تو بندہ اِن جھوٹوں کیلئے کیا کہے۔تُرکی عراق کے شمالی کُردوں پر اسی نوفلائی زون سے بمباری کرتا ہے تو خاموشی۔ترکی امریکہ کاحلیف ہے نا۔
کتنے دہرے تہرے معیار ہیں اِن بڑی طاقتوں کے۔
ذرا پل بھر کیلئے سوچئیے آپ عراقی ہیں۔ آپ کی سرزمین اور اس زمین کے باسیوں کو بے موت مارا جا رہا ہو تو آپ کیلئے ممکن ہے کہ آپ نہ بولیں۔اپنی آواز بلند نہ کریں۔نتیجتاً گرفتاری، جیل جانا اور پھانسی کے پھندے پر چڑھنا آپ کا مقدر بنتا ہے۔آپ ہتھیار اٹھاتے ہیں بقول اِن بڑے ملکوں کی وضع کردہ اصطلاح کے دہشت گرد بن جاتے ہیں۔خود مرتے اور دس لوگوں کو مارتے ہیں۔مگر یہ سب ہوگا۔ جتنی ہمت،استعداد اور آپ جس مقام پر ہیں آپ نے اُسے استعمال کرنا ہے اگر آپ میں اخلاص ہے اور آپ کو اپنے وطن سے محبت ہے۔
وہی معمر مرد اب ایک بڑی سینی میں کھانا لے کر آیا۔
اُبلے ہوئے چاولوں کا ڈھیر جس پر بُھنا ہو اگوشت، موٹا کٹا ہوا پیاز، ٹماٹر، کھیرے کا سلاد۔آفتابہ آیا۔وہیں ہاتھ دُھلائے گئے اور سب بمعہ اُس عمر رسیدہ کھانا لانے والے کے سینی کے گرد بیٹھ گئے اور ہاتھوں سے کھانا شروع ہوگیا۔
مساوات محمدیؐ کاایک نمونہ۔جی چاہتا تھا بوٹی توڑوں پر شرم آئی۔بس تھوڑا ساکھایا۔
”موجودہ حالات کو کِس تناظر میں دیکھتے ہیں۔“
”بہت بکھیڑا ہے یہاں۔نہ شیعہ متحد ہیں، نہ سُنّی اور نہ کُرد۔گروپوں اور گروہوں میں بٹے ہوئے۔سب سے بڑی اور طاقتور عسکریت پسند تنظیم المہدی جس کے سربراہ مقتدالصدر جو عظیم شیعہ سکالر باقرالصدر کے صاحبزادے ہیں۔دوسری ”البدر“الحکیم فیملی کی ہے جو محسن الحکیم کا خاندان ہے جن کے ہاں امام خمینی بھی سالوں رہے۔ان دونوں کا بھی آپس میں اکثر ٹکراؤ رہتا ہے۔
سُنیوں میں ایک صدام کا حامی گروپ، دوسرا کُرد سُنیوں جس کے لیڈرمُلّا کریکار ہیں۔صدام کا بدترین مخالف اور اب امریکیوں کا جانی دشمن۔ تیسرا گروپ عرب مجاہدین کا انصار اسلام کے نام سے جو چھوٹے موٹے گروپوں کے ساتھ مل کر اتحادیوں کے خلاف اپنے طور پر لڑ رہے ہیں۔
مفادات میں بھی ٹکراؤ ہے۔مہدی گروپ امریکہ کے ساتھ تعاون چاہتا ہے مگر حکومت میں زیادہ حصّہ شیعوں کا ہو تقاضا کرتا ہے۔البدر گروپ امریکیوں کو برداشت کرنے کیلئے تیار نہیں۔
صدام گروپ ظاہر ہے امریکیوں کے بہت خلاف ہے۔عام شہری صورتِ حال سے پریشان۔لازمی فوجی تربیت کے زیر تھوڑے بہت تربیت یافتہ امریکیوں کی پُرتشدد کاروائیوں کے دوران مشتعل ہو کر مزاحمتی دستوں کے ساتھ مِل کر اپنے طور پر لڑتے ہوئے مار رہے ہیں اور مررہے ہیں۔
اب ان اختلافات سے وہ فائدہ اُٹھا رہے ہیں۔سیاسی تنظیموں کو استعمال کِیا جا رہا ہے۔
پر ہمارے ساتھ المیے بھی تو بہت سارے ہیں۔وگرنہ کسی امریکی،کسی اتحادی کی کیا مجال کہ وہ ہمارے پیڑول پمپوں سے اپنی گاڑی کی 170لیڑ کی ٹینکی صرف تین ڈالر میں بھروائے۔
بہت سارے کیسوں میں تو امریکی فوج خو دخودکش حملے کرواتی رہی ہے۔ مجھے The independent کے رابرٹ فسک کی رپورٹ یاد آئی تھی جو میں نے کچھ عرصہ قبل پڑھی تھی۔ایک تو ابھی بھی ذہن سے چِپکی ہوئی تھی۔
پولیس میں بھرتی ہونے والے افراد کو نئی گاڑیاں دے کر کہا جاتا ہے کہ فلاں بازار فلاں مسجد یا فلاں علاقے میں جاکر جائزہ لو۔ہمیں فون پر بتاؤ اور ہماری ہدایات کا انتظارکرو۔عراقی جب فون کرتا۔جواب ملتا ہے گاڑی میں بیٹھے رہو اور ہمارا انتظار کرو۔
کچھ دیر بعد گاڑی خوفناک دھماکے سے پھٹ جاتی اور عراقی کے ساتھ گردو نواح کے درجنوں کبھی سینکڑوں بے گناہ مارے جاتے ہیں اور نام لگتا ہے القاعدہ کا یادوا شیعہ پارٹی کا۔
کھانے کے بعد پھر قہوہ کا دور چَلا۔فارس مہدی نے قہوہ کی گلاسی ٹرے میں رکھتے ہوئے مجھ سے پوچھا تھا۔
کِسی جیل میں گئیں۔ریپ ہونے والی کسی عراقی عورت کی داستان سُنی۔“
ابوغریب جیل دیکھنے کا پروگرام ہے۔
اُسے تو آپ ہائی وے پر سے ہی دیکھ سکیں گی۔اندر تو کِسی نے گُھسنے نہیں دینا۔ پھر اُس نے افلاق کی طرف دیکھتے ہوئے کہا تھاکہ مجھے عراقی نیشنل ایسوسی ایشن فار ہیومن رائٹس کی میجر ڈاکٹر الدمل یا جی ایف آئی ڈبلیو کی ڈاکٹر ندال جمعہ سے ملائے تاکہ میں اُن سے کچھ سنوں۔
پل جھپکتے میں موبائل جیب سے نکلا۔اُس کے نمبر دبے۔خوشگوار لب و لہجے میں باتیں ہوئیں اور پھر افلاق کی طرف دیکھتے ہوئے کچھ کہا گیا۔
”مجھ سے انگریزی میں بولے۔عراق کی مایہ ناز خاتون سے آپ کی ملاقات انشاء اللہ بہت معلومات افزا ہوگی۔“

Advertisements
julia rana solicitors

جاری ہے

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply