• صفحہ اول
  • /
  • نگارشات
  • /
  • اسلامی قانونِ سیر و بین الاقوامی قانون انسانیت کا تعارف اور ان کی ترویج کے لئے عملی اقدامات ۔۔ڈاکٹر محمد عادل

اسلامی قانونِ سیر و بین الاقوامی قانون انسانیت کا تعارف اور ان کی ترویج کے لئے عملی اقدامات ۔۔ڈاکٹر محمد عادل

اسلامی قانونِ سیر و بین الاقوامی قانون انسانیت کا تعارف اور ان کی ترویج کے لئے عملی اقدامات ۔۔ڈاکٹر محمد عادل/جب سے انسان کی تخلیق ہوئی ہے اور انسانوں نے اکھٹے رہ کر زندگی گزارنی شروع کی ،ان کے درمیان اختلافات و تصادم کی ابتداء ہوئی ۔اس وقت سے لے کر آج تک لاتعداد جنگیں لڑی گئیں اور جب سے انسانوں کے مابین جنگیں لڑی جارہی ہیں ، اس وقت سے کسی نہ کسی شکل میں جنگی اخلاقیات و قوانین رائج رہے  ہیں۔

شریعتِ اسلامی نے جس طرح دیگر شعبۂ ہائے زندگی کے متعلق مکمل رہنمائی فراہم کی ،اسی طرح جنگی قوانین اور اخلاقیات کو بھی ایک منظم شکل میں پیش کیا۔ پھر وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ اس میں مزید بہتری لائے جانے لگی۔

علمِ  حدیث اور فن اسماء الرجال کی طرح قانون سیر بھی اسلام کے خصائص میں سےہے۔ سیر کی تعریف میں متقدمین ائمہ نے لکھا ہے کہ غیر مسلم چاہے جس قسم کے بھی ہوں ،ان کے ساتھ طے شدہ معاملات و معاہدات کو سیر کہا جاتا ہے،جبکہ متأخرین ائمہ اور موجودہ زمانے کے علما نے سیر کو صرف جنگی معاملات تک محدود کیا ہے۔

قانونِ سیر کا ماخذ قرآن کریم ، احادیث مبارکہ، سیرت طیبہ اور سیرت صحابہ ؓ ہے۔ابتدائی ادوار ہی سے رسول اللہ ﷺ کے غزوات سے متعلق معلومات اور اس سے استنباط کا آغاز ہوا ۔مشہور تابعی امام شعبیؒ رسول اللہ ﷺ کے غزوات کا اتنا علم رکھتے تھے کہ صحابہ کرام ؓبھی ان کے اس کمال کے معترف تھے۔ پہلی صدی عیسوی کے اختتام تک سیر ومغازی کی باقاعدہ تعلیم وتعلم کا سلسلہ شروع ہوا،اس سلسلہ کا اجراء امام ابو حنیفہ ؒ نے کیا اور اپنے شاگردوں کو سیر ومغازی کی تعلیم دینی شروع کی۔ آپ کے علوم کو شاگردوں نے منضبط کیا اور یوں سیر ومغازی الگ علم کی حیثیت سے مدون شکل میں سامنے آیا ۔ اس فن کی ابتدائی کتب میں امام ابویوسف کی کتاب الخراج اور الرد علی سیر الاوزاعی شامل ہیں ، لیکن امام محمد بن الحسن الشیبانی نے السیر الکبیر اور علامہ سرخسیؒ نے اس کی شرح لکھ کر اس علم کو معراج تک پہنچا دیا۔ السیر الکبیر اور اس کی شرح اس موضوع پر اولین مصدرکی حیثیت رکھتے ہیں۔سیر ومغازی میں لکھنے والا یا اس کا مطالعہ کرنے والا کوئی بھی انسان ان کتب سے مستغنی نہیں ہو سکتا۔ پھر جب مسلمانوں پر بحیثیت امت زوال کا دور آیا ، تو سیر ومغازی کایہ بیش بہا خزانہ بھی دیگر علوم کی طرح مغرب کی طرف چلا گیا اور آج تک اس پر ان کی اجارہ داری قائم ہے۔

تاریخ گواہ ہے کہ جوں جوں انسان ترقی کرتا گیا جنگوں کی تباہ کاریاں بڑھتی رہیں ،اس صورتحال میں یہ ضرورت محسوس کی جارہی تھی کہ انسانیت کا درد رکھنے والے اس بات پر غور وحوض کریں کہ جنگ کی تباہ کاریوں کو کس طرح ممکنہ حد تک کم کیا جا سکتا ہے اور خصوصاً دور ان ِ جنگ عام افراد کا تحفظ کس طرح یقینی بنایا جاسکتا ہے۔اس موقع پر مسلمان اہل علم اورصاحب اختیار لوگ آگے بڑھ کر اس معاملے میں دنیا کی رہنمائی کرنا چاہتے تھا ،کیونکہ ان کے پاس یہ قوانین ہزار سالہ ورثے کی شکل میں مدون و محفوظ تھے ، لیکن کئی وجوہات کی بناء پر ایسا نہ ہو سکا اور مغرب نے اس کام کا بیڑا اٹھایا اور کئی دہائیوں کی تحقیق کے بعد جنگی اخلاقیات پر مشتمل بین الاقوامی قانون انسانیت(International Humanitarian Law) دنیا کے سامنے آیا۔ اس مجموعۂ قوانین کو قانونِ جنگ (Law of War)اور مسلح تصادم کا قانون (Law of Armed Conflict) بھی کہا جاتا ہے۔

بین الاقوامی قانون انسانیت بین الاقوامی قوانین کا ایک اہم حصہ ہے ،جو مسلح تصادم میں مزید شریک نہ ہونے والوں کو تحفظ فراہم کرتا ہے اور جنگی اخلاقیات وضع کرتا ہے۔IHL بین الاقوامی اور غیر بین الاقوامی دونوں طرح کے مسلح تصادم پر لاگو ہوتا ہے۔

خلافت عثمانیہ نے بالکل ابتدائی مراحل میںIHL پر دستخط کئے،جبکہ موجودہ زمانے میں مسلم ممالک سمیت اقوام متحدہ کےتقریباً تمام رکن ممالک اس پر دستخط کئے ہیں۔یوں کہا جاسکتا ہے کہ IHL کو حقیقی معنوں میں ایک بین الاقوامی قانون کی حیثیت حاصل ہے۔

موجودہ دور میں جنگی تباہ کاریوں سے متاثر ہونے والوں میں مسلمان سرفہرست ہیں۔ ابتدائی طور پر اپنے قانون ِ سیر کو بین الاقوامی مقبولیت عطا کرنے کا موقع ضائع کرنے کے بعدتمام مسلمان ممالک کے صاحب اختیار اور اہل علم کے پاس موقع تھا کہ آگے بڑھ کر آئی ایچ ایل کو شریعت اسلامی کی کسوٹی پر پرکھتےاور عالمی طاقتوں کو اس میں اسلامی اصولوں کے مطابق ترامیم  پر قائل کر تے اور عالمی سطح پر ان قوانین کو باثر انداز میں نافذ کرنے کی تگ و دو کرتے تاکہ انسانیت اور خصوصاً امت مسلمہ کو جنگی تباہ کاریوں سے ممکنہ حد تک محفوظ بنایا جاتا،لیکن امت مسلمہ نے اس موقع سے بھی فائدہ نہ اٹھایا۔ دوسرے ممالک سے کیا گِلہ، خود پاکستان جیسے بڑے اسلامی ملک میں بھی حکومتی سطح اور تعلیمی اداروں میں اس پر کام نہ ہونے کے برابر ہے۔ مدارس کے نصاب میں مغازی و سیر تفسیر احادیث اور کتبِ فقہ میں پڑھائے جاتے ہیں ،لیکن وہ حقیقی معنوں میں عصر حاضر کے تقاضوں کو پورا نہیں کرتے۔ جبکہ عصری تعلیمی اداروں کے نصاب میں اس حوالے سے کوئی بھی مضمون شامل نہیں ۔ کچھ عرصہ پہلے ہائیر ایجوکیشن کمیشن پاکستان(HEC) نے بی ایس کے نصاب میں اسلامی وبین الاقوامی قانونِ جنگ کو اختیاری مضمون کی حیثیت سے جگہ دی ہے،لیکن وہ بھی ماہرین قانون و تعلیم سے زیادہ آئی سی آر سی (ICRC)کی مرہون منت ہے۔

ایک عرصہ سے انٹرنیشنل کمیٹی آف دی ریڈ کراس(ICRC) نے بین الاقوامی قانون انسانیت(IHL) کی ترویج واشاعت کا بیڑہ اٹھایا ہے تاکہ عوام اور عوامی تنصیبات کو جنگی تباہ کاریوں سے ممکنہ حد تک محفوظ کیا جاسکیں اور جنگ کے بعد جلد از جلد بحالی یقینی بنائی جاسکیں۔ اس مقصدکے لئے خصوصاً پاکستان کی سطح پر علمی حلقوں میں اس کے متعلق آگاہی کی کوششیں ہو رہی ہیں اور کچھ عرصے سے اہل علم کے لئے اسلامی اور بین الاقوامی قوانین جنگ کے تعارفی اور تقابلی مطالعہ پر مبنی کورسز اور کانفرنسزکا انعقاد بھی کروایا جا رہا ہے اور ان قوانین سے متعلق تحقیقی مقالات کے مقابلے بھی کروائے جاتے ہیں ۔ اس سلسلے میںICRC نے 26سے 29 اکتوبر 2021 تک اسلام آباد میں “اسلام اور بین الاقوامی قانون انسانیت” کے موضوع پر ایک ٹریننگ کورس کا انعقاد کروایا۔ ملک بھر سے اہل علم ، اسکالرز اور یونیورسٹی فیکلٹی ممبرز کو مدعو کیا گیا تھا۔ اس ٹریننگ کورس میں اسلامی قانونِ سیر اور آئی ایچ ایل (IHL) پر لیکچرز دینے اوران کا عملی مشق کرانے کے لئےبین الاقوامی سطح کی جامعات سےاسلامی و بین الاقوامی قوانین کے ماہرین اور پروفیسرز کی خدمات حاصل کی گئی تھی۔جن میں ممتاز ماہرین قانون ڈاکٹر محمد مشتاق صاحب، پروفیسر محمد منیر صاحب، ڈاکٹر آصف خان صاحب اورڈاکٹر سعدیہ ظہور صاحبہ شامل ہیں۔اس کے علاوہ ICRC پاکستان کی سربراہ ڈریگانہ کوجک نے عہدیداروں کی ٹیم سمیت شرکت کی۔ ٹریننگ کورس کی میزبانی بین الاقوامی اسلامی یونیورسٹی کے سابق پروفیسر اور آئی سی آر سی کے ریجنل ایڈوائزر برائے اسلامی قانون ڈاکٹر ضیاء اللہ رحمانی نے سر انجام دی۔ ٹریننگ کورس IHL اور اسلامی قانونِ سیر کے تعارف، غیر مقاتلین اور شہری تنصیبات،ثقافتی ورثے کے تحفظ، مقاتلین اور جنگی قیدیوں کے حوالے سے بین الاقوامی اور اسلامی نقطہ ہائے نظر سے متعلق لیکچرز اور عملی مشق پر مشتمل تھا۔ اس کے علاوہ ICRC کی پاکستان میں سرگرمیوں اور انسانی خدمات سے بھی شرکاء کو آگاہ کیا گیا۔ شرکاء کا موجودہ حالات کے تناظر میں اس طرح کے کورسز کے انعقاد کو ناگزیر قرار دیا اور اس پر اتفاق کیا کہ قدیم وجدید دونوں طرز کے تعلیمی اداروں کے نصاب میں ان قوانین ،خصوصاً اسلامی قانونِ سیر کو اپنے حقیقی مفہوم کے ساتھ شامل کرنے کی شدید ضرورت ہے۔

Advertisements
julia rana solicitors london

جنگی حالات میں عوام اور عوامی تنصیبات کو تباہ کاریوں سے محفوظ رکھنے اور جنگ کے موقع پر بھی انسانی و اخلاقی اقدار کو فروغ دینے کے لئے ضروری ہے کہ جنگ سے متعلق اسلامی و بین الاقوامی قوانین کو فروغ دیا جائے ۔ اس سلسلہ میں ICRC کی خدمات قابل ستائش و قابل تقلید ہیں۔ پاکستان جیسے بڑے اسلامی ممالک میں جنگی اخلاقیات سے متعلق قوانین خصوصاً اسلامی قانونِ سیر کو باقاعدہ نصاب کا حصہ بنانا چاہیئے اور اہل علم کو ان قوانین کو اپنی تحقیقی مقالات کا موضوع بنانا چاہیئے۔ موجودہ بین الاقوامی قوانین میں مزید اصلاح اور حقیقی روح کے ساتھ ان کا نفاذ ممکن بنانے کے لئے مسلمان اہلِ علم کو نہ صرف کردار ادا کرنا چاہیئے بلکہ آگے بڑھ کر اس تحریک کی رہنمائی کرنی چاہیئے، کیونکہ ان قوانین کی ترویج موجودہ دور میں انتہائی ضروری ہے اور اسی میں انسانیت کی بقا ہے۔

Facebook Comments

ڈاکٹر محمد عادل
لیکچرار اسلامک اسٹڈیز باچا خان یونیورسٹی چارسدہ خیبر پختونخوا

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply