سلاما لیکم۔۔محسن علی خان

ہم روز اپنے جاننے والے دوست احباب یا سہیلیوں وغیرہ وغیرہ کو سلام کہتے ہیں۔ لیکن اگر کوئی لائل پوریا ( فیصل آبادی ) آپ کو سلام کرے تو اس کا جواب ابھی سے سوچ کر رکھ لیں۔ وقت کم مقابلہ سخت ہے پیارے۔
میرا بچپن پچھلی صدی میں گزرا ہے۔ اس وقت صرف السلام علیکم کہنا کافی نہیں سمجھا جاتا تھا۔ جب آپ کسی بڑے کو السلام علیکم کہتے وہ آگے سے ” وعلیکم السلام ورحمتہ اللّٰہ ” کہہ کر آپ کو احساس دلاتا کہ آپ نے مختصر ادائیگی کی ہے۔
اگر کسی کو گرم جوشی دکھانی مقصود ہو تب سلام کرنے والا بھی پورا سلام ” السلام علیکم و رحمتہ اللّٰہ و برکاتہ” کہتا اور جواب دینے والا بھی مکمل جواب دیتا۔ لیکن ساتھ میں ہاتھ زور سے دبانے کا عمل جاری رکھتا، جو کہ اضافی کام تھا۔ جس کا بنیادی مقصد اپنی طاقت کا اظہار کرنا تھا۔ خواہ اگلا تکلیف سے دہرا ہوتا رہے۔
نزدیکی مدرسے میں جانا شروع کیا تو پتہ لگااصل سلام تو ” السلام علیکم ورحمتہ اللّٰہ وبرکاتہ الجنت حلال و جہنم حرام” ہوتا ہے۔
خیر کبھی اتنی توجہ نہیں دی بس السلام علیکم کہہ کر دس نیکیاں سمیٹنے میں ہی عافیت سمجھی۔ اب تو ٹک ٹاک پر کوئی بھی آفت والی ویڈیو دیکھیں تو ایک آواز آتی ہے ” سلاما الیکم ” پھر جب آفت دبوچ لیتی تو ” و لیکم سلام ” کہتے ہوۓ ویڈیو ختم ہو جاتی۔
اسی موضوع پر دارالعلوم دیوبند کا فتوی بھی نظر سے گزرا ۔
” سلام کرنے کا افضل طریقہ یہ ہے کہ ”السلام علیکم ورحمة اللہ وبرکاتہ“ کہا جائے، یہی حکم جواب کابھی ہے؛ لیکن بعض روایتوں میں ”وبرکاتہ“ کے بعد ”ومغفرتہ“ کا اضافہ وغیرہ بھی منقول ہے، اُس کی حیثیت کیا ہے؟ کیا وہ معمول بہا ہے یا نہیں؟ ذیل میں اس حوالے سے ایک تحقیقی اور علمی بحث پیش کی جارہی ہے۔
اگر بات سنت کی کی جائے تو مسنون یہی ہے کہ السلام علیکم ورحمة اللہ وبرکاتہ پر اضافہ نہ کیا جائے ”وبرکاتہ“ سلام کی انتہا ہے اور اِس پر اضافہ کرنا خلافِ سنت ہے۔
(۱) حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
یا عائشة! ھذا جبرئیل یُقرأ علیکِ السلامَ، فقلت: وعلیہ السلام ورحمة اللہ وبرکاتہ، فذھبت تزید، فقال النبي صلی اللہ علیہ وسلم: إلی ھذا انتھی السلام، فقال: (رحمة اللہ وبرکاتہ علیکم أھل البیت)
اے عائشہ! یہ جبرئیل تھے،تمہیں سلام کہہ رہے ہیں، میں نے کہا : وعلیہ السلام ورحمة اللّٰہ وبرکاتہ، حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا اِس پر اضافہ کرنے لگیں، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: سلام کی حد یہیں تک ہے، پھر آپ نے (مذکورہ آیت) پڑھی (اللہ کی رحمت اور برکات تم پر ہوں اے اہل بیت!) (بخاری، رقم: ۳۰۴۵، بدء الخلق)
(۲) امام مالک رحمة ا للہ علیہ نے موطا میں سند جید کے ساتھ محمد بن عمرو بن عطاء سے روایت نقل کی ہے: وہ کہتے ہیں:
میں حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما کے پاس بیٹھا ہوا تھا، آپ کے پاس ایک یمنی شخص داخل ہوئے اور سلام یوں کیا: السلام علیکم ورحمة اللہ وبرکاتہ، ثم زاد شیئاً مع ذلک پھر مزید کچھ کلمات کہے، حضرت نے، جو اُن دنوں بینائی سے محروم ہوگئے تھے، کہا: کون ہے؟ لوگوں نے کہا: ایک یمنی صاحب ہیں جوآپ کے پاس آتے رہتے ہیں؛ چناں چہ لوگوں نے اُن کا تعارف کرایا تو ابن عباس رضی اللہ عنہما نے فرمایا: إن السلام انتھی إلی البرکة سلام کی انتہا برکت تک ہے۔(موطا مالک، رقم: ۱۷۲۸، باب العمل فی السلام)
(۳) اسی روایت کو امام بیہقی نے شعب الایمان میں بھی نقل کیا ہے، اس روایت میں کچھ اضافہ ہے:
ایک سائل آیا اور آپ کو سلام کیا اور کہا: السلام علیکم ورحمة اللہ وبرکاتہ ومغفرتہ ورضوانہ اور اِس کو اُس سے شمار کیا (یعنی ومغفرتہ ورضوانہ کو سلام کا حصہ خیال کیا) تو ابن عباس نے کہا: ما ھذا السلام؟ وغضب حتی احمرت وجنتاہ یہ کیسا سلام ہے ؟اور غصہ ہوئے؛ یہاں تک کہ آپ کا چہرہ سرخ ہوگیا، پھر آپ کے بیٹے علی نے آپ سے کہا :اباجان! یہ مسئلہ پوچھنے والا ہے، آپ نے کہا: إن اللہ حدّ السلام حداً وینھی عما وراء ذلک ثم قرأ ”رحمة اللہ وبرکاتہ علیکم أھل البیت انہ حمید مجید“ بے شک اللہ نے سلام کی ایک حد مقرر کردی ہے اور اس سے زائد سے منع فرمایا ہے، پھر آیت پڑھی رحمة اللہ وبرکاتہ علیکم أھل البیت انہ حمید مجید(ہود: ۳۷) (شعب الایمان، رقم: ۸۸۷۸، فصل فی کیفیة السلام)
(۴) زہرہ ابن معبد کہتے ہیں: کہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے فرمایا:
انتھی السلام إلی ”وبرکاتہ“ حافظ ابن حجر نے کہا: اس کے رجال ثقہ ہیں۔(فتح الباری: ۱۱/۶، رقم الحدیث: ۸۸۷۸)
(۵) ایک آدمی نے حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہما کویوں سلام کیا : السلام علیک ورحمة اللہ وبرکاتہ ومغفرتہ، تو ابن عمر نے اسے ڈانٹا اور کہا: حسبک إذا ا نتھیت إلی ”وبرکاتہ“ إلی ما قال اللہ عزوجل یعنی تیرے لیے کافی ہے جب تو ”وبرکاتہ“ تک پہنچے، جو اللہ تعالیٰ نے کہا( ابن عمر کی مراد وہی آیت تھی جو اوپر گذری) (ہود: ۳۷) (شعب الایمان: ۸۸۸۰)
(۶) حضرت یحییٰ بن سعید سے مروی ہے: کہ حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہما کو ایک شخص نے یوں سلام کیا، السلام علیکم ورحمة اللہ وبرکاتہ والغادیات والرائحات ابن عمر نے جواباً کہا: تمہارے اوپر ہزار مرتبہ ہو ․ راوی کہتے ہیں : ابن عمر نے ایسا جواب، اس سلام کے طریقے کو ناپسند کرنے کی وجہ سے دیا( گویا طنزاً جواب تھا) کیوں کہ اُس نے وبرکاتہ کے بعد والغادیات کا اضافہ کردیا تھا۔(موطا مالک، رقم: ۱۷۳۳)
(۷) پیچھے عمران بن حصین کی روایت نقل کی گئی ہے، جس میں السلام علیکم ورحمة اللہ وبرکاتہ تک کا تذکرہ ہے، جس پر تیس نیکیاں ملتی ہیں اُس میں اِس کے بعد کچھ الفاظ کا تذکرہ نہیں ہے۔(ابوداوٴد: ۵۱۹۵)
(۸) ہندیہ میں ہے: ولا ینبغي أن یزاد علی البرکات، قال ابن عباس رضي اللہ عنھما: لکل شيء منتھی، ومنتھی السلام البرکات کذا في المحیط․ (ہندیہ: ۵/۳۲۵)
(۹) صاحب منتقٰی علامہ باجی لکھتے ہیں: سلام کے تین اجزاء ہیں (۱) السلام علیکم (۲) ورحمة اللہ (۳) وبرکاتہ، جس کسی نے ایک یا دو جزوں پر اکتفا کیا تو کافی ہے اور جس نے تینوں اَجزاء کو جمع کیا تو اُس نے مقصود کوحاصل کرلیا اور جب مقصود حاصل ہوگیا تو اُس پر اضافہ کرنا درست نہیں۔(المنتقٰی: ۴/۲۸۰)
(۱۰) امام محمد نے موطا محمد میں لکھا ہے: إذا قال: السلام علیکم ورحمة اللہ وبرکاتہ، فلیکفف؛ فإن اتباع السنة أفضل یعنی اگر سلام کرنے والے نے سلام یوں کیا السلام علیکم ورحمة اللہ وبرکاتہ تو اب وہیں رک جائے، اضافہ نہ کرے؛ کیوں کہ سنت کی پیروی بہر حال افضل ہے۔(موطا امام محمد: ۳۸۵)
اور موطا امام محمد کے شارح علامہ لکھنوی نے اس قول کی شرح میں لکھا ہے:
العمل الکثیر في بدعة لیس خیرا من عمل قلیل في سنة وظاھرہ أن الزیادة علی ”وبرکاتہ“ خلاف السنة مطلقاً․(التعلیق الممجد مع موطا امام محمد:۳۸۵)
بدعت میں عمل کثیر، سنت میں عمل قلیل سے بہتر نہیں ہے یعنی سنت کا عمل چاہے تھوڑا ہی ہو بدعت میں زیادتی ٴعمل سے بہر حال بہتر ہے؛ پس ظاہر یہی ہے کہ وبرکاتہ پر اضافہ مطلقاً خلافِ سنت ہے۔ تلک عشرة کاملة․

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply