بےگوروکفن انسانیت۔۔سانول عباسی

ہم اس دورِ پرفتن میں سانس لے رہے ہیں جس میں انسان ہونا نہ صرف باعث ندامت ہے بلکہ کبیرہ گناہ شمار ہوتا ہے اور ہر انسان اس کبیرہ گناہ کی پاداش میں جسمانی و روحانی کرب سے دوچار ہے اور ہر آنے والے دن کا سورج ایک نیا درد ایک نئی اذیت لے کر طلوع ہو رہا ہے۔درندگی، وحشت و بربریت میں روز بروز اضافہ ہوتا جا رہا ہے، اردگرد سماج پہ نظر دوڑائیں تو بھوک و افلاس کے آسیب نے سماج کو بری طرح سے جکڑ لیا ہے کہ ہر چہرہ مایوسی و ناامیدی کی تصویر بنا پھٹی آنکھوں سے کسی مسیحا کا منتظر ہے ،برہنہ اجسام، وحشت زدہ بھوکی سوالیہ نظروں سے جب گھورتے ہیں تو مسیحا کی منتطر بھوکی نظریں اندر تک پیوست ہوتی ہوئی محسوس ہوتی ہیں اور ہم جو انسانیت کا علم لئے پھرتے ہیں اسے تار تار کر دیتی ہیں انہیں دیکھ کے کبھی کبھی انسان ہونا انسانیت کے نام پہ کلنک محسوس ہونے لگتا ہے ناموسِ انسانیت ایک واہمہ ایک دھوکہ محسوس ہوتا ہے یوں لگتا ہے انسانیت کا درس مفاد پرست طبقہ کا کھیل ہے جسے فقط چرب زبان لوگ اپنے مفادات کے تحفظ کے لئے کھیلتے ہیں۔

آج کل ایسی ایسی انہونیاں سننے کو مل رہی ہیں کہ شیطان بھی انگشت بدنداں محو تماشہ ہے کہ یہ ظالم احسن تقویم کو ہوا کیا ہے کہ جو اس کے خیال میں بھی نہیں آتا بلکہ یوں کہا جائے تو بے جا نہ ہو گا کہ اگر اس کے خیال میں بھی آئے تو وہ ملعون بھی کانپ جائے وہ انسان کس قدر دیدہ دلیری سے کر رہا ہے۔ کچھ خبریں نظر سے گزریں جس میں ایک درندہ صفت معصوم بچوں کو جن کی عمریں زیادہ سے زیادہ بھی ہوئیں تو کوئی 3 یا 4 سال کے لگ بھگ ہوں گی انہیں برہنہ کر کے رسی کے ساتھ الٹا لٹکا کے مار رہا ہے اور اس بری طرح سے مار رہا ہے کہ اللہ کی پناہ، بچے بیچارے ادھر ادھر بھاگ رہے ہیں، چیخ و پکار کر رہے مگر اس درندے کو کوئی فرق نہیں پڑتا کوئی جانور بھی بچوں کے ساتھ ایسا اذیت ناک سلوک نہیں کرتا، منظر بدلتا ہے اور ایک خبر سامنے آتی ہے کہ ایک ظالم نے اپنی بہن کو جنسی استحصال کے بعد قتل کر دیا ہے، پھر اک اور پٹی چلنا شروع ہو جاتی ہے کہ ایک نفس پرست جنسی درندے نے ایک طالبہ کی جان لے لی ہے اور مزے کے ساتھ ملک سے فرار بھی ہو چکا ہے، پھر ایک سیاسی پس منظر کی روداد شروع ہو جاتی ہے جس میں سیاسی درندے اپنی ہوس کی تسکین کے لئے بھیڑ بکریوں کے جیسی عوام کو بری طرح سے اس بات کا یقین دلا رہے ہوتے ہیں کہ وہ ان کے مسیحا ہیں  ایک درندہ دوسرے درندے کو دیکھ کے زیر لب مسکراتا ہے اور ایک دوسرے پہ کیچڑ اچھالنا شروع کر دیتے ہیں اور بیچاری بھوک سے بے حال ظلم و بربریت کی چکی میں پستی عوام جن کی بھوک و افلاس اس حد تک آ چکی ہے کہ انہیں ایک وقت کی روٹی کے عوض سارا دن اپنے ہی خلاف کھڑا کر دیا جائے تو خود کو کوستے رہیں گے بلکہ اگر اپنا جسم نوچنے کا کہا جائے تو بھی نوچ ڈالیں گے، اپنے خلاف ہونے والے ہر   اقدام کو اپنی مسیحائی تصور کرتے ہوئے اس پہ ناچنے لگتے ہیں۔ ہر طرف ظلم و ستم کا بازار گرم ہے اور عام آدمی بے چارگی کی تصویر بنے اپنے ساتھ ہونے والے اس ظلم و بربریت کو نہ صرف برداشت کرتا ہے بلکہ اس کے حق میں دلائل بھی گھڑتا رہتا ہے۔

معاشرہ آدم خوروں کی آماجگاہ بن چکا ہے ہر کوئی آنکھوں میں خون لئے وحشی درندوں کی طرح ایک دوسرے کے خلاف گھات لگائے بیٹھا ہوا ہے، ننھی اسماء، زینب، عاصمہ قصور کے بے شمار بچے جن کی زندگی میں تاریکیاں بھر دی گئیں کس کس کا نام لیا جائے کون کون سے ظلم پہ نوحہ کناں ہوا جائے جب سارا جسم ہی چھلنی ہو  اور  ہر  زخم  رستا  ہو تو کون سے زخم پہ مرہم لگایا جائے اور کون سے زخم پہ رویا جائے، درندگی و  وحشت اس قدر انسان کے اندر سرایت کر چکی ہے کہ وحشی درندے بھی انسان سے لرزاں ہیں سماجی زندگی  پستی  و  بے راہ  روی کی دلدل میں بری طرح سے ڈوب گئی ہے سماجی رشتے تو کُجا خون کے رشتے بھی اس قدر سفید ہو چکے ہیں کہ انسانیت بھی شرمندہ ہے مادہ پرستانہ سوچ نے انسان کو احساس سے عاری کر دیا ہے یوں لگتا ہے کہ بس سوداگروں کی دنیا ہے یہاں لوگ زخم دے کے اس کی نمائش کرتے ہیں اور مادہ پرستانہ ہوس پرست انسانیت سے عاری اس کی بولی لگاتے ہیں منہ مانگے دام دیتے ہیں انسان کو اذیت میں دیکھ کے محظوظ ہوتے ہیں۔

سماج میں سرایت کرتی تاریکیوں کے متعلق سوچیں تو روح کانپ اٹھتی ہے آج جو انسان کی حالت ہے اس کی کوئی حیوانی تمثیل بھی نہیں ملتی، تواتر کے ساتھ ایسے ایسے انسانیت سوز واقعات ہو رہے ہیں کہ بیان کرنے لگیں تو قلم رک جائے، سیاست، بیوروکریسی، اسٹیبلشمنٹ، عدلیہ، صحافت، تعلیمی ادارے، مسجدیں، مندر، گرجے الغرص سماج کا کوئی گوشہ، کوئی شعبہ ایسا نہیں جہاں استحصال نہ ہو رہا ہو ہم سمجھتے ہیں کہ انسان نے ترقی کی ہے مادہ پرستانہ روش نے انسان سے اس کی انسانیت چھین کے مادی چکا چوند کو اس کی آنکھوں میں بھر دیا ہے جوں جوں انسان مادی دنیا کی چکا چوند میں ڈوبتا جا رہا ہے اتنا ہی انسانی اقدار کی چادر کو تار تار کرتا جا رہا ہے جہاں انسان پہ کائنات کے سربستہ راز منکشف ہو رہے ہیں وہاں اس کی انسانیت اپنی آخری سانسوں میں ہچکیاں لے رہی ہے مادی چکا چوند نے انسان کی سوچ پہ مادہ مسلط کر دیا ہے انسان کی اہمیت ایک مشین سے زیادہ نہیں رہی انسانی اقدار، احساس، جذبات، پیار، محبت سب کی اہمیت ایک جنس سے زیادہ نہیں رہی سماج منڈیوں میں ڈھل گئے ہیں جہاں انسان، انسانی جذبات، احساسات بطور جنس بکتے ہیں ہر گزرتے دن کے ساتھ انسان، انسانیت سے نابلد ہوتا جا رہا ہےاور اگر غور کیا جائے تو محسوس ہوتا ہے کہ مادے کی چکا چوند نے انسان کی آنکھوں پہ ہوس کا ایسا سحر طاری کیا ہے کہ اس کے سامنے کا مکمل منظر ہی بدل گیا ہے یہ سمجھتا  ہے کہ کائنات کی بلندیوں میں محو پرواز ہے حالانکہ یہ بلندیوں کی بجائے نفرت، تعصب، ہوس، بھوک، بےراہ روی، مادہ پرستی کی دہکتی دلدلوں میں خود کو جھونک رہا ہے اور ہر گزرتا دن اس کی درندگی و بےحسی میں اضافہ کر رہا ہے انسانیت کی بےگور و کفن لاش پہ خود انسان محو رقص ہے۔

ہم اس قدر بےحس ہو چکے ہیں کہ ہم نے ظلم، بربریت اور استحصال کو ظالموں کا حق اور اپنی تقدیر سمجھ لیا ہے کیا خدا صرف ان کا ہے  کیا وسائل پہ صرف ان کا حق ہے یا وہ خدا کی پیدا کردہ کوئی خاص مخلوق ہے نہیں ہر گز نہیں نہ تو خدا ان کا ہے اور نہ ہی آسمان سے اتری کوئی مخلوق ہیں۔ خدا اس کا ہے جسے اپنے انسان ہونے کا ادراک ہے جس میں انسانیت زندہ ہے جسے انسانوں کے حقوق کا ادراک ہے اور خدا اسی کا مددگار ہے جو اپنی بقا کے لئے قدم بڑھاتا ہے مادہ پرستانہ سوچ جب ہوس کے پجاریوں کو زر کے حواریوں کے ساتھ مخمور دیکھتی ہے تو انسانیت سے متنفر ہو جاتی ہے جب تک مادہ ہمارے سر پہ سوار رہے گا حقیقت کبھی آشکار نہیں ہو سکتی انسانیت ہی   انسان کی پہچان کراتی ہے اسے آزادی و غلامی کا فرق بتاتی ہے اسے زندگی و موت کا مطلب سمجھاتی ہے اسے سچ و جھوٹ کی پہچان کراتی ہے اسے اندھیرے و اجالے کا فرق کرنا سکھاتی ہے مادہ انسان سے وابستہ ہر اس حقیقت، احساس کا دشمن ہے جس سے انسانیت کی زندگی وابستہ ہے۔

Advertisements
julia rana solicitors

ہمیں خوف نے جکڑا ہوا ہے ہم وہ سب کھونے سے ڈرتے ہیں جو خواب میں بھی انہی ظالموں کی ملکیت رہتا ہے ہمارا یہ خوف صرف مفاد پرستانہ ذہنیت کو تقویت دیتا ہے کہ وہ کھلم کھلا ہمارا استحصال کریں اور ان کا یہ استحصال تب تک قائم و دائم رہے گا جب تک ہمیں اپنے انسان ہونے کا شعور نہیں آ جاتا جب تک ہم بےحسی کے اس نشے کو ترک نہیں کر دیتے اور ایک آواز ہو کے اپنی بقا کے لئے اٹھ کھڑے نہیں ہوتے، وگرنہ ہماری مثال بھینسوں کے اس ریوڑ کی ہے جسے ایک شیر ہانک کر لے جاتا ہے اور یکے بعد دیگرے سب کو کھا جاتا ہے اور باقی ماندہ دور بیٹھے بےحسی کی تصویر بنے جگالی کرتے دیکھتی رہتی ہیں حالانکہ وہ صرف یکجا ہو کر شکاری کی سمت دوڑ بھی پڑیں تو اپنا بہترین دفاع کر سکتی ہیں۔

Facebook Comments

سانول عباسی
تعارف بس اتنا ہی کہ اک عام انسان

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

براہ راست ایک تبصرہ برائے تحریر ”بےگوروکفن انسانیت۔۔سانول عباسی

Leave a Reply