کینسر (13) ۔ سرجری/وہاراامباکر

سکاٹ لینڈ کے سرجن جوزف لسٹر نے 1865 میں ایک غیرروایتی خیال پیش کیا۔ لسٹر نے ایک پرانا مشاہدہ اپنے اصول کے لئے استعمال کیا۔ ایسے زخم جو کھلے رہ جاتے ہیں، ان میں جلد گینگرین شروع ہو جاتی ہے جبکہ بند کر دیے جانے والے زخموں میں ایسا نہیں ہوتا۔ لسٹر نے ان زخموں کا بہت قریب سے مشاہدہ کیا تھا۔ زخم کے باہری کناروں سے سرخ رنگ کا غصیلا مارجن شروع ہوتا تھا جو پھیلتا جاتا تھا اور پھر جلد گلنے لگتی تھی۔ اس کے بعد بخار آ جاتا تھا اور پیپ پڑ جاتی تھی اور جلد موت واقع ہو جاتی تھی۔

Advertisements
julia rana solicitors

لسٹر کو ایک بظاہر غیرمتعلقہ لگنے والے تجربے کی یاد آئی جو پیرس میں لوئی پاسچر نے کیا تھا۔ انہوں نے دکھایا تھا کہ اگر گوشت کھلا رہ جائے تو سڑنے لگتا ہے جبکہ اگر ویکیوم جار میں ہو تو وہ صاف رہتا ہے۔ ان مشاہدات کی بنیاد پر پاسچر نے بڑا دعویٰ کیا تھا۔ یہ کام نہ نظر آنے والے جراثیم کرتے ہیں جو ہوا سے گوشت میں داخل ہو جاتے ہیں۔
لسٹر نے یہی وضاحت لی اور اسے آگے بڑھایا۔ کھلا زخم بھی اسی لئے خراب ہوتا ہے۔ کیا وہ بیکٹیریا جو پاسچر کے گوشت میں داخل ہو رہے تھی، وہی لسٹر کے مریضوں کے زخموں میں بھی؟
لسٹر نے ایک اور منطقی چھلانگ لگائی۔ اگر یہ بیکٹیریا سے ہو رہا ہے تو کوئی اینٹی بیکٹریا پراسس یا کیمیکل بھی ہو گا۔ اگر ایسی کسی شے کو پٹی کے ساتھ زخم پر لگا دیا جائے جو جراثیم کو مار سکے تو یہ ان اڑتے خوردبینی جاندار کو ختم کر دے گا۔
لسٹر نے دیکھا کہ ان کے ساتھ کے شہر میں سیوریج والے کاربولک ایسڈ کو استعمال کرتے ہیں۔ یہ سستا اور خوشبودار کیمیکل تھا جس کو وہ فضلے اور کچرے پر پھینکتے تھے۔ کیا کاربولک ایسڈ کا پیسٹ سرجری کے بعد زخموں پر لگایا جا سکتا ہے؟
اگست 1867 میں تیرہ سالہ لڑکا لسٹر کے پاس داخل ہوا۔ اس کا بازو گلاسگو کے میلے میں مشین چلاتے ہوئے بری طرح زخمی ہوا تھا۔ اس بڑے اور کھلے زخم میں گینگرین پڑ جایا کرتی تھی۔ لسٹر نے کاربولک ایسڈ کا استعمال اس لڑکے پر کیا کہ یہ بازو بچ جائے۔ ابتدا میں کوئی افاقہ نہیں ہوا لیکن لسٹر نے اسے جاری رکھا۔ کچھ ہفتے گزر گئے تھے اور یہ تجربہ ناکام لگ رہا تھا لیکن پھر اچانک ہی فرق پڑنے لگا۔ زخم سوکھنا شروع ہو گیا۔ ایک مہینے بعد جب زخم سے تمام پٹیاں کھولی گئی تو یہ مندمل ہو چکا تھا۔
لسٹر کی یہ دریافت سرجری کے لئے بڑا قدم تھا۔ 1869 میں لسٹر نے اپنی بہن کا چھاتی کا ٹیومر کاٹ کر نکالا۔ یہ آپریشن گھر کی کھانے کی میز پر کیا گیا تھا۔ ایتھر کو اینستھیزیا کے لئے استعمال کیا۔ کاربولک ایسڈ کو اینٹی سیپٹک کے طور پر۔ بغیر انفیکشن کے، یہ کامیابی سے ہو گیا۔ (بہن کا انتقال تین سال بعد کینسر کے جگر میں میٹاسٹیسس کی وجہ سے ہوا)۔ چند ماہ بعد لسٹر نے کینسر کا ایک اور آپریشن کیا جو ایک مریض کی ران میں سارکوما تھا۔ 1870 کی دہائی کے وسط تک لسٹر روٹین میں سرجری کر رہے تھے۔ اس میں چھاتی میں کینسر سے متاثرہ لمف نوڈ کی سرجری بھی شامل تھی۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اب سرجن کینسر پر نشتر سے حملہ کر رہے تھے۔ ایسے مشہور سرجن تھیوڈور بلروتھ تھے۔ جانوروں اور لاشوں پر تجربات کے بعد انہوں نے کینسر کی سرجری کے کئی واضح اور محفوظ روٹ 1880 تک بنا لئے تھے۔ معدے، بڑی آنت، اووری اور غذائی نالی کے کینسر پر بلروتھ اور ان کی ٹیم تکنیک بنا رہی تھی۔
جلد ہی بلروتھ کو معلوم ہو گیا کہ کینسرزدہ ٹشو کو کاٹ دینا جبکہ نارمل ٹشو اور اعضاء کو نہ چھیڑنا ایک انتہائی مشکل کام ہے۔
سرجری نارمل اعضاء پر کی جاتی تھی لیکن کینسر اس اناٹومی کو بگاڑ دیتا تھا۔ اگر معدے کا نچلا نصف کاٹنا ہے تو باقی حصے کو آنت کے ساتھ کیسے ملانا ہے۔ 1890 کی دہائی کے وسط تک بلروتھ 41 آپریشن کر چکے تھے جن کا تعلق گیسٹرک کارسینوما سے تھا اور ان کے نظامِ انہضام کی کنفیگریشن کو تبدیل کیا گیا تھا۔ ان میں سے انیس زندہ رہے تھے۔
بیسویں صدی کی ابتدا تک کئی قسم کے مقامی کینسرز کو سرجری سے نکالا جا رہا تھا۔ اس میں یوٹرس اور اووری کے کینسر تھے۔ چھاتی اور پروسٹیٹ کے کینسر تھے۔ پھیپھڑوں اور بڑی آنت کے کینسر تھے۔ اگر دوسرے اعضاء تک پھیلنے سے قبل ان ٹیومر کو نکال لیا جائے تو ایسے آپریشن میں اچھی شرح تھی جن کا علاج ہو جایا کرتا تھا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
لیکن اس ترقی کے باجوود کئی کینسر، جو مقامی لگتے تھے، سرجری کے بعد واپس آ جاتے تھے۔ دوسری اور تیسری کوشش کی جاتی تھی۔ سرجن واپس آپریٹنگ ٹیبل پر آ جاتے تھے۔ کاٹنے اور پھر کاٹنے کا کام کیا جاتا تھا۔ جیسے چوہے اور بلی کا کھیل ہو۔ کینسر ٹکڑے ٹکڑے کر کے باہر نکالا جاتا تھا۔
لیکن اگر کینسر کو ابتدائی سٹیج پر مکمل طور پر اکھاڑ کر پھینک دیا جائے؟ مقامی سرجری کے بجائے بڑی سرجری کی جائے تا کہ اس کی کوئی بھی جڑ رہنے نہ پائے؟ سرجن کے چاقو پر اعتبار کے اس دور میں کینسر کو جڑ سے اکھاڑ دینے کا یہ آئیڈیا پرکشش لگتا تھا۔ اونکولوجی کے شعبے میں یہ ریڈیکل سرجری کا آئیڈیا تھا۔
(جاری ہے)

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply