مرتد / Apostate پاسباں مل گئے کعبے کو صنم خانے سے/عبدالرحمٰن کریم

میں رِیلز بہت دیکھتا ہوں، ہر قسم کی ریلز ۔۔ آج کل رمضان ہے تو زیادہ اتفاق اسلامی اور بالخصوص میرے پسندیدہ موضوع “نومسلمین” کی ویڈیوز دیکھنے کا ہوتا ہے۔ ۔ رات Joram Jaron Van Klaveren کی ایک بڑی ایموشنل ریل نظر سے گزری۔ ویڈیو دیکھتے ہی مجھے خلیفۂ ثانی حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ کا واقعہ یاد آگیا کہ کس طرح نبی اکرم علیہ السلام کا سر قلم کرنے کی نیت سے ننگی تلوار لیکر نکلنے والا شخص بہن بہنوئی کے گھر پہنچتے ہی مشرف با اسلام ہوگیا۔  آپ میں سے ممکن ہے کچھ لوگ انہیں جانتے بھی ہوں، پھر بھی آپ تک کچھ پہنچانے کی کوشش کر رہا ہوں۔

‏Joram Klaveren نیدرلینڈ کے ایمسٹرڈم میں ۱۹۷۹ میں پیدا ہوئے۔ اسکول کے بعد اعلی تعلیم عیسائی  مذہب کے حوالے سے حاصل کی اور تعلیم کے بعد ابتدائی  کچھ سال تدریس و تعلیم سے ہی وابستہ رہے۔ پھر سیاست جوائن کرلی، 2006-2009 تک میونسپل کونسل کے ممبر اور 2010-2014 تک Party For Freedom سے ممبر آف پارلیمنٹ رہے۔ 2014 میں کچھ اختلافات کے چلتے یہ پارٹی سے الگ ہوگئے اور اپنی ایک پارٹی بناکر 2017 تک ایک آزاد ڈَچ ممبر آف پارلیمنٹ لوور ہاؤس کے رہے۔

انکے اس پورے پولیٹیکل کیرئر میں جو ایک خاص بات رہی وہ یہ تھی کہ  ہمارے ساکچھی مہاراج اور سادھوی پرگیہ کی طرح مسلمانوں کے خلاف آئے دن زہر اگلنے کے لئے بڑے مشہور رہے۔ مسلمانوں سے نفرت کا یہ عالم تھا کہ نیدرلینڈ میں موجود مراقشی مسلمانوں کے ہمیشہ کھلے دشمن بنے رہے۔ اسلاموفوبیا پھیلانے کے لئے مشہور اپنی پارٹی کے Geert Wilders کا یہ دایاں ہاتھ مانے جاتے تھے۔ یہ وہی گیرٹ ولڈرس ہے جس کے اسلاموفوبیا کا عالم یہ تھا کہ ایک بار اس نے سعودی جھنڈے سے “لا إله إلا الله محمد رسول الله” کو ہٹا کر “Islam is Lie, Prophet is Criminal, Koran is Poison” لکھوادیا تھا ۔ ۔ دراصل چند سالوں قبل نیدرلینڈ میں Islam is a lie”, “Qur’an is Poison”, اور “Ban Hijab in Netherlands” جیسے نفرتی جملے انہیں دونوں کی دین رہے ہیں۔۔ ایک تو مذہبی تعلیم، پھر سیاست داں، اوپر سے مسلم دشمنی، یہ ایسا امتزاج تھا کہ نیم چڑھے کریلے سے بھی زیادہ کڑوا ہوگیا تھا۔ 2017 کے الیکشن میں جب انکی پارٹی کو ایک بھی سیٹ نہ مل سکی تو سیاست سے نکل کر کریسچئن رائٹ ونگ کے ایک مشہور ریڈیو چینل EO – Evangelical Broadcasting میں “Dit is de Dag” نامی شو پر بطور کمنٹیٹر کام شروع کردیا، جہاں عیسائیت کو پروموٹ کرنے کے ساتھ اسلاموفوبیا پھیلانا ان کا بنیادی حدف تھا۔ بات یہاں تک جا پہنچی کہ انہوں نے ایک اسلام مخالف کتاب لکھنی شروع کردی۔ کہتے ہیں کہ سخت پتھروں کی بھی ایک وہ قسم ہوتی ہے جس سے چشمے پھوٹتے ہیں۔ یہ خود کہتے ہیں کہ اسلام مخالف کتاب لکھنے کے دوران ایک دن بہت ساری کتابوں کو ترتیب دے رہا تھا کہ الماری سے قرآن زمین پر آگرا (جسے میں نے اسلام مخالف چیزوں کی تلاش کے مقصد سے جمع کر رکھا تھا)۔ جب میں نے غصے میں قرآن دوبارہ اس کی جگہ رکھنے کے لئے اٹھایا تو میرے ہاتھ میں جو صفحہ کھلا تھا اس پر نظر گئی  تو میرا تثلیث یعنی Trinity کا نظریہ سوالوں کے گھیرے میں آگیا، جو پہلے بھی مجھے کچھ زیادہ اطمینان بخش نہ لگتا تھا۔

Advertisements
julia rana solicitors london

اب انہوں نے عیسائیت و اسلام پر تقابلی ریسرچ شروع کی،تاکہ اپنی اسلام مخالف کتاب کو زیادہ با اثر بنا سکیں اور عیسائیت کو اسلام سے بہتر ثابت کرسکیں۔ کہتے ہیں کہ اس دوران میں نے مسلم و غیر مسلم سیکڑوں دانشوروں کو مواد کی فراہمی اور درپیش اپنے شبہات کے ازالے کے لئے ای میلز لکھنا شروع کیں۔ اسی دوران انہوں نے پروفیسر عبدالحکیم مراد (جوکہ کیمبریج یونیورسٹی میں پروفیسر ہیں اور اسلام لانے سے پہلے Trimothy Winter تھے) کو بھی لکھا۔ جواب میں مراد صاحب نے نا  صرف تفصیلی باتیں لکھیں بلکہ مشورہ دیا کہ خواہ اسلام ہو یا عیسائیت، اگر تمہیں واقعی پڑھنا اور سمجھنا ہے تو ان لوگوں کی کتابیں پڑھو جن کا ان مذاہب سے تعلق نہ ہو۔  جورام کا کہنا ہے کہ میں جوں جوں پڑھتا گیا اور پروفیسر مراد صاحب سے بات چیت ہوتی گئی  میرا ذہن تثلیث سے ہٹ کر توحید کے تصور کو قبول کرنے پر آمادہ ہوگیا۔ میں نے اور کئی  ہفتوں تک ڈھیر ساری کتابیں پڑھیں اور اس نتیجے پر پہنچا کہ اکتوبر ۲۰۱۸ میں مَیں نے اسلام قبول کرلیا اور اسلام مخالف کتاب پر میں جو بھی کام کرچکا تھا اسے کوڑے دان میں ڈال کر اسلام پر ہورہے اعتراضات کا جواب لکھنا شروع کردیا  ۔۔ اور آخر جورام کلاویرن نے ایک خوبصورت کتاب APOSTATE: From Christianity to Islam in Times of Secularization and Terror” لکھ بھی دی۔ یہ کتاب امیزون پر فرینچ اور انگریزی دونوں زبانوں میں موجود ہے۔  آپ بھی اسے پڑھ اور جان سکتے ہیں کہ کعبے کو صنم خانے سے پاسباں کیسے ملتے ہیں۔

Facebook Comments

مکالمہ
مباحثوں، الزامات و دشنام، نفرت اور دوری کے اس ماحول میں ضرورت ہے کہ ہم ایک دوسرے سے بات کریں، ایک دوسرے کی سنیں، سمجھنے کی کوشش کریں، اختلاف کریں مگر احترام سے۔ بس اسی خواہش کا نام ”مکالمہ“ ہے۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply