لیکھک : رحمان عباس (انڈیا)
قریب ہر سال کوئی نا کوئی ایسی کتاب زیر مطالعہ آجاتی ہے جس کے بارے میں ہر اگلا صفحہ پڑھتے ہوئے یہ خیال گزرا ہے “یہ ختم نہیں ہونی چاہئے!”
رحمان عباس بھائی کا تعارف اپنے آپ میں مستند ہے اور میں اتنا بڑا لکھاری بھی نہیں کہ اگر میں کہوں “کاش یہ کتاب میں نے لکھی ہوتی” تو بس اتنا کہنا کافی ہوجاتا ہے مگر پچھلے ایک ہفتے سے جس طرح میں “ایک طرح کا پاگل پن” تریاق کی طرح تھوڑا تھوڑا اپنے اندر انڈیل رہا ہوں مجھے پھر بھی ڈر ہے کہ یہ کتاب ختم نہ ہوجائے
میری زندگی میں پہلی بار ہے کہ میں نے کسی کتاب کو پڑھتے ہوئے یعنی بنا مکمل کئے اس پر تبصرہ کیا ہو
(تسلیم ہے کہ ناول نے مجبور کیا ہے!)
حالانکہ عین ممکن ہے نئے نئے اوباش لکھاریوں، کتابوں سے جنسی تسکین پانے والوں اور فقط گندی تنقید کے لئے مطالعہ کرنے والوں کے لئے اس میں سامان ہی سامان ہو مگر اس ناول کے ہر ایک ورق میں ہنسی، غمی، سوچ، تسکین، اسلوب، عام فہمی، کرب، تجسس اور تواتر ہے
میرے نزدیک اس ناول کے معتبر و مایہ ناز ہونے کی سب سے بڑی وجہ یہ ہے کہ مذکورہ پلاٹ پر مصنف نے سن 2009 میں “ایک ممنوعہ محبت کی کہانی” نامی ایک ناول ترتیب دیا، جب انہوں نے 2009 میں اس ناول کو لکھا ہوگا تب بھی خوب مغز ماری، تحقیق اور مخصوص علاقے کی زبان پر کام جمع کیا ہوگا، قریب 14 برس کے بعد 2023 میں جب انہوں نے اسی پلاٹ پر از سر نو کام ترتیب دیا ہوگا تو دوبارہ اسلوب، ادائگی، پلاٹ کی ان گنت بار جانچ پڑتال کی ہوگی، ایک ہی ناول پر اتنی لگن اور کاٹ پیٹ کے ساتھ ساتھ لا تعداد دنوں کا رت جگا اور محنت سے یہ ناول بالکل ایسا ہوچکا ہے جیسے خاص پنجاب میں کسی کی اپنی زمین پر اگایا ہوا ساگ، پھر وہ صاف صفائی اور پہلی بار کی پکائی کے بعد دوسرے روز پھر تیسرے روز اسی طرح ہر روز جب جب وہ کھانے کے لئے گرم کیا گیا ہو اسے تڑکا لگایا گیا ہو، کیا آپ تصور کر سکتے ہیں اس ساگ کا کم از کم دسویں بار لگا تڑکا اسے کیسا کردے گا؟
بس یہ ہے وہ ناول “ایک طرح کا پاگل پن”
یہ بھی پہلی بار ہے کہ میرے مطالعے میں ایسی کوئی کتاب رہی ہو جس کا ہر ورق کہیں نا کہیں میں نے ہائی لائٹ کیا ہے، میرے پاس موجود اِس ناول کا ہر صفحہ میرے ہائی لائنر کی وجہ سے گرین ہوچکا ہے اور حال یہ ہے کہ ایسی شدید چاہت ہوچکی ہے کہ مبادا کسی روز رحمان عباس بھائی کو فون کرکے کہ دوں “پلیز انڈیا سے اس کا ذاتی نسخہ دستخط کرکے بھیج دیں ذاتی لائبریری میں سب سے اوپر رکھونگا”
ہمارے یہاں اردو ادب میں کسی ناول کی حد سے زیادہ تعریف کردینا دوسرے قاریوں اور نقادوں کے یہاں تضحیک بنا لی جاتی ہے مگر یہ ناول سچ مچ اپنی ضخامت جتنی تعریف کا مستحق ہے
بالآخر انسان کی تمام تر پسندیدہ چیزوں کا ایک روز اختتام آ پہنچتا ہے، 20 فروری رات 2:34 منٹس پر رحمان عباس بھائی کا ناول “ایک طرح کا پاگل پن” ختم ہوگیا
اختتام بہت تیزی کے ساتھ آیا، لمحہ بھر کو مجھے کچھ محسوس نہیں ہوا، اور پھر مجھ میں گھٹن بھر گئی، میرا شدت سے چیخنے اور کرلانے کا من ہوا، مجھے لگا عبدالعزیز میں ہوں، پر عبدالعزیز نے بھی کوئی فریاد نہیں کی تھی، اس آخری لمحے میں بھی اس کے چہرے پر ابھر آنے والی مسکراہٹ میں سکینہ تھی، میں آفس سے ٹیرس کی جانب چل دیا، سگریٹ جلائی مگر نہیں پی سکا، دو گرم اور شاید سیاہ آنسو میرے گال گدلے کر گئے
اس سے زیادہ میں اس ناول کی کہانی کے لئے کر بھی کیا سکتا ہوں!!
ناول کا سب سے مختصر اور محدود کردار شاردہ کا ہے
رحمان عباس بھائی کے بقول 2009 کے ایڈیشنل پہلے ناول میں یہ کردار نہیں تھا
میرے لئے یہ کتاب کبھی بھی فراموش نہ ہونے والا ناول بن چکی ہے، مجھے اس خواہش نے آ گھیرا کہ میں اپنی “سکینہ” کو اس ناول کا ہر ایک صفحہ خود پڑھ کر سناؤں مگر اختتام نہیں، جب وہ اختتام کی بات کہے تو وہ اور میں چپ چاپ ساتھ میں رو لیں!
اختتام میں بس یہی کہنا ہے : “وسیع ذھن اور ہوک بھرنے کو کشادہ سینہ رکھتے ہو تو یہ ناول پڑھ لو!”
اقتباسات :
ماں بالآخر ایک عورت ہوتی ہے جو بیٹی کی خطا اور غلطیوں کو اپنی جوانی کے آئینے میں جھانک کر دیکھتی ہے، مرد کے اندر باپ کے علاوہ ایک آدمی اور رہتا ہے جو صدیوں سے ایک جیسا ہے، اس آدمی کے اندر ایک بچھو، ایک ناگ اور ایک گدھ رہتا ہے!
ص : 68
اور محبت کی ہر نشانی خطرناک ہوتی ہے!
ص : 115 ، 189 ، 304
ہر عورت اپنے شوہر میں ایک دوسرے آدمی سے پیار کرتی ہے جو اسے کبھی نہیں ملتا، اور ہر مرد اپنی بیوی میں کئی عورتوں کو ڈھونڈتا ہے جن میں سے بعض سے وہ اکثر ملا کرتا ہے!
ص : 53
حیرانی زیادہ دیر تک کبھی ساکت نہیں رہتی! خیال کہیں سے آتا نہیں ہے بلکہ الفاظ میں ڈھلنے سے پہلے بھی موجود ہوتا ہے!
ص : 130 ، 131
ہر آدمی کی ایک بو ہوتی ہے، جو کسی نہ کسی جانور کے مزاج اور تیور کو درشاتی ہے، آدمی اکیلا ایسا جانور ہے جس میں تمام جانوروں کی صفتیں موجود ہیں، اسی لئے آدمی کو کتا، گدھا، سور، شیر، لومڑی، گدھ، لکڑبھگا، مینڈک، گرگٹ، آستین کا سانپ وغیرہ کہ کر پکارا جاتا ہے، یہ بو جہاں پسینے میں سونگھی جا سکتی ہے وہیں آدمی کے الفاظ، لہجے اور چہرے کے آؤ بھاؤ میں بھی اس کا اظہار ہوتا ہے!
ص : 223
ہمارے ڈر ہمارے خواب بُنتے ہیں!
ص : 226
بدن ایک مکان کے علاوہ اور کیا ہے، وقت کے ساتھ ہر تعمیر کو منہدم ہونا ہے!
ص : 272
آدمی کے لئے سب سے زیادہ اذیت ناک لمحہ وہ ہوتا ہے جب اسے احساس ہو کہ وہ جو ہے، وہ نہیں ہے!!
ص : 301
“املی کے پیڑ پر بسیرا کرنے والی محروم روح، شگفتہ کی تھی، جو عبد العزیز کے دادا شبیر حسین کی دور کی رشتے دار تھی۔ اس کی موت فطری نہیں بلکہ فطری عمل کو غیر فطری قرار دیے جانے کا نتیجہ تھی۔ اسے انتہائی بے دردی سے قتل کیا گیا تھا۔ ہوا یوں تھا کہ سولہویں سال میں قدم رکھنے سے چند ماہ قبل شگفتہ کو کسی سے پیار ہو گیا۔ اس وقت گاؤں کے زیادہ تر لوگ چاول اور ناچنی کی کھیتی کیا کرتے تھے۔ آس پاس شددروں اور دلتوں کے بھی کھیت تھے۔ کھیتی باڑی کے کام سب مل جل کر کیا کرتے تھے۔ مذہب یاد، داشت کا حصہ تھا، سماجی دوری کا سبب نہیں تھا۔
شگفتہ بد نصیب تھی۔
موسم بہار ختم ہوا دھان کے کھیت لہلہانے لگے اور دوسری طرف اس کا بدن صحبت کے راز اگلنے لگا۔ وہ ششدر بدن کی تبدیلیوں میں گم رہنے لگی۔ کسی کو راز میں شریک نہیں کیا۔ وقت سے پہلے اگر کسی سکھی سہیلی سے بات کر لیتی تو جڑی بوٹیوں سے کام لیا جاتا۔ گاؤں کی عورتیں اور تجربہ کار لڑکیاں ان جڑی بوٹیوں سے واقف تھیں جن کا استعمل اسقاط حمل میں عموما کیا جاتا تھا لیکن شگفتہ جانے کس آکاش گنگا، کس نظام شمسی کے کس نا مراد سیارے کی مکیں تھی کہ شرم اور خوف سے بے زبان ہو گئی تھی۔ اس بے زبانی نے اسے رفتہ رفتہ موت کے مدار میں دھکیل دیا۔ اس کا جسم اپنے راز جب افشاں کرنے لگا تو سوکھی مچھلی کی بُو سے اسے ابکائی آنے لگی۔ پہلے تو بد ہضمی سمجھ کر نظر انداز کیا گیا لیکن جب فصل کاٹتے وقت اسے چکر آنے لگے تو اس کی ماں نے بھانپ لیا۔
شگفتہ کی ماں نے اسے کچھ نہیں کہا بلکہ خود صدمے سے نڈھال گھنٹوں روتی رہی۔ جب آنسو خشک ہوئے تو ذہن نے کام کرنا شروع کیا۔ اس نے جنگل سے دو تین جنگلی پیڑوں کے پھل لائے اور پپیتے کے بیج کے ساتھ پیس کر اس کا عرق شگفتہ کو تین دن نہار پیٹ پلایا۔ عرق کی تاثیر تھی کہ گہرے بل میں بیٹھا سانپ بھی باہر نکلنے پر مجبور ہو جاتا لیکن پانچ مہینے گزر جانے کے بعد اس عرق کا اثر نہیں ہوتا ہے، یہ کسی کو معلوم نہیں تھا۔
اس مرحلے میں اس کا استعمال پہلے نہیں کیا گیا تھا اس لیے بے چاری ماں پُر امید تھی۔ جب اس کی تمام کوششیں ناکام ہوئیں اور وہ ہار گئی تو اس نے یہ راز اپنے شوہر کو بتایا۔
شگفتہ کی لاش کو گاؤں کے قبرستان کے بجائے گاؤں کی سرحد کے پاس جنگل کے ابتدائی حصے میں دفنایا گیا۔
بتایا گیا کہ اسے طاعون کی سی کوئی بیماری ہوئی تھی اور ایک پاگل کتے نے کاٹ لیا تھا۔ سچ یہ ہے کہ شگفتہ کو ایک کمرے میں بند کر کے چھت پر سے اس پر ابلتا ہو پانی انڈیلا گیا تھا، اس رات سارا گاؤں سو رہا تھا لیکن کتے بے تحاشہ رو رہے تھے۔ چند چمگادڑ اس کمرے کے اوپر منڈلاتے رہے۔ ماں ایک کونے میں بین کرتی رہی۔ پانچ دن پہلے شگفتہ کو منصوبے کی بھنک لگ گئی تھی۔ اس سبب وہ چیخ چیخ کر رونے بلکنے لگی تھی۔ مردوں پر حملہ آور ہوتی اور انھیں نوچتے ہوئے کچھ بڑبڑاتی۔ اس کی تدفین کے بعد گھر کے مردوں نے میت میں آئے ہوئے لوگوں کو اپنے سینے اور چہرے پر لگے ناخن کے نشان بتائے اور کہا، “ایسا لگتا تھا اس کے پیٹ میں کتے کے بچے ہیں!”
شگفتہ کی روح جسم سے آزاد ہوئی، مری نہیں۔ روحیں کب مرتی ہیں؟ اس کے اندر جو پیار کی نشانی تھی اس کی کوئی واضح شکل تو نہیں تھی لیکن اس کی بھی روح تھی۔ شگفتہ کا جسد خاکی جوں جوں مٹی میں تبدیل ہوتا گیا اس کے شکم میں موجود بے ہیئت نشان بھی سڑ گل کر خاک میں تبدیل ہو گئے۔ اس کی قبر پر ہر سال موسم باراں کے ابتدائی دنوں میں کئی مور اپنے بچوں کے ساتھ آتے ہیں اور پروں کو پھیلا کر اس بے ہیئت روح کا جی بہلاتے ہیں جس نے قریب کے ایک پیڑ پر سکونت اختیار کر رکھی تھی۔ ممکن ہے مور اسے دیکھنے کی خدا داد صلاحیت رکھتے یوں۔ جہاں قبر ہے اس سے دس قدم پر ایک جنگلی پیڑ ہے جس پر مارچ میں ایک ہفتے تک روزانہ سرخ رنگ کے پھول کھلتے ہیں اور شام گئے تک جھڑ جاتے ہیں!”
صفحہ : 67 تا 69
ناول کی بنت سیکھنے کے لئے بھی اس ناول کو پڑھنا چاہیے، بے حد احترام
Facebook Comments
بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں