ایک عام آدمی کی آپ بیتی۔۔لیاقت علی ایڈووکیٹ

ادریس تبسم نے جب مجھے بتایا کہ وہ نہ صرف اپنی یادداشتیں لکھ رہا ہے بلکہ انھیں چھپوانے کا ارادہ بھی رکھتا ہے تو میں نے اسے ایسا کرنے سے منع کیا تھا کیونکہ یادداشتیں تو ہمیشہ نامور اور مشہور لوگ لکھتے ہیں جن کا دعوی ہوتا ہے کہ انھوں نے اپنی زندگی میں کارہائے نمایاں انجام دیئے ہیں ہم جیسے عامیوں کی زندگی ہی نہیں ہوتی توہماری یادداشتیں کیا ہوں گی۔میں نے تبسم سے کہا کہ تم نہ تو بڑے سیاست دان ہو،نہ تم کسی صوبے کے گورنر یا وزیراعلیٰ رہے ہو،نہ تو وطن کا دفاع کیا اور نہ تم نے کوئی کور کمانڈ کی اور نہ ہی کوئی ڈویژن۔ تم نے کسی ایک مارشل لا میں بھی کلیدی کرادار ادا نہیں کیا۔ تم نے ایسا کچھ نہیں کیا جس کو پڑھنے میں لوگوں کو دلچسپی ہو۔تمہارے پاس نہ تاشقند کے راز ہیں اور نہ ہی تم نے کسی جنگ میں بہادری کے جوہر دکھائے اور دشمن کے دانٹ کھٹے کئے ہیں حتی کہ ایٹمی دھماکے کرنے میں بھی تم نے کوئی رول ادا نہیں کیا۔ تم تو پاکستان کے کروڑوں انسانوں میں سے ایک ہو جو ا س فکر میں گھلے جاتے ہیں کہ رواں مہینے کا بل بجلی،بچوں کے سکول کی فیس اورمکان کا کرایہ کس طرح ادا ہوگا۔ عام انسان جو روزمرہ کی مشکلات اور مسائل کا حل ڈھونڈنے کی ناکام کوشش کرتے زندگی کے بہترین ماہ وسال گذار دیتے ہیں اور ایک دن پتہ چلتا ہے کہ کل رات اچانک انتقال ہوگیا تھا اور تدفین بھی کردی گئی ہے۔نہ کسی اخبار میں اشتہار چھپا اور نہ کسی ٹی وی چینل پر تعزیتی پروگرام ہوا۔فیض سے معذرت کے ساتھ، جسم خاک نشیناں تھا رزق خاک ہوا،لیکن اس نے میری ایک نہ سنی اور نہ صرف اپنی آپ بیتی لکھی بلکہ اسے چھپوایا بھی اور آج ہم سب کو اس نے یہاں اکٹھا کیا کہ ہم اس کی آپ بیتی کا کچا چٹھا کھولیں، خود بھی شرمندہ ہوں اور اسے بھی شرمندہ کریں۔
گذشتہ چند سالوں میں پاکستان میں بہت سی خود نوشت سوانح عمریا ں منظر عام پر آئی ہیں۔یہ سوانح عمریوں کی زیادہ تر اقتداری سیاست کے پروردہ سیاست دانوں، ریٹائرڈ جنرلز اور بیورو کریٹس ادیبوں کی لکھی ہوئی ہیں۔ان سوانح عمریوں کا مشترکہ نقطہ ایک ہی ہے کہ میں بہت بااصول تھا،میں نے ہر فیصلہ ملک و قوم کے مفاد میں کیا اور اگر کوئی ایسا فیصلہ ہوا جس عام طور پر درست خیال نہیں کیا جاتا تو وہ دراصل میرے کولیگز کی کوتاہی،کمزوری اور موقع پرستی کا نتیجہ تھاوگرنہ میرا اس میں قطعاً کوئی قصور اور کردارا نہیں تھا۔اظہار تفاخر، خو د ستایشی اور مخالفین کی کردار کشی ان سوانح عمریوں کا خاصا ہے۔یہ صاحبان ہمیں بتاتے ہیں کہ نہ صرف وہ خود بہت بااصول تھے بلکہ ان کے والدین بھی امانت ودیانت اور صداقت کے اعلیٰ مقام پر فائز تھے اور ان کی والدہ تو دن بھر کا زیادہ تر حصہ مصلےٰ پر ہی گذارا کرتی تھیں اور یہ انھی کی دعاوں کا نتیجہ تھا کہ وہ سیاست،فوج اور بیوروکریسی میں اعلیٰ مقام حاصل کرنے میں کامیاب ہوسکے تھے۔شکر ہے کہ ادریس تبسم کی آپ بیتی میں ایسا کچھ نہیں ہے کہ جسے دھوکہ اور فریب کہا جائے۔ اس نے سات دہائیوں پر محیط اپنی زندگی میں ایسا کچھ نہیں کیا جس کی پردہ پوشی کرنے کے لئے اسے جعلی پاکبازی کا ڈھونگ رچانا پڑتا۔ ویسے بھی عام آدمی کی زندگی میں ایسا ہوتا ہی کیا ہے جسے چھپانے کی اس کو ضرورت پڑئے۔ نہ حسیناوں کے خطوط اور نہ نہ تصویر بتاں۔ عشق ومحبت کی داستانیں رقم کرنے کے لئے درکار معاشی فراغت ادریس تبسم جیسے عامیوں کو میسر ہی کہاں ہوتی ہے۔
ادریس تبسم کے مطابق وہ قیام پاکستان سے ایک سال قبل علی گڑھ میں پیدا ہوا تھا لیکن اس نے اپنی خود نوشت میں کہیں یہ نہیں لکھا کہ وہ تحریک پاکستان کی اگلی صفوں میں شامل تھا اور بانی پاکستان محمد علی جناح اس کے مشوروں پر بطور خاص عمل کیا کرتے تھے حالانکہ یہاں تو ایسے لوگ بھی موجود رہے ہیں جو قیام پاکستان کے بعد پیدا ہوئے تھے لیکن ان کا نام باینان پاکستان کی فہرست میں شامل ہے۔ادریس تبسم نے اپنی آپ بیتی میں یہ دعویٰ بھی نہیں کیا کہ اس کے نانا کے نانا یوپی کے بہت بڑے تعلقہ دار تھے اور 1857کی جنگ آزادی میں انھوں نے بنفیس نفیس حصہ لیا تھا جس کی پاداش میں ان کی جاگیر انگریز سرکار نے ضبط کرلی تھی لیکن اس کے باوجود ان کی تعمیر کردہ بہت بڑی حویلی ان کے دور سے یادگار ابھی تک موجود تھی۔یوپی سے تعلق رکھنے والے کسی ادیب،شاعر،بیوروکریٹ اور سیاست دان کی خود نوشت پڑھ لین سب کے نانایا دادا یوپی کے کسی نہ کسی ضلع کے تعلقہ دار تھے اور ان کی ڈیوڑھی پر ہاتھی جھولا کرتے تھے۔ادریس تبسم کی مہربانی ہے کہ اس نے اپنے نانا یا ان کے نانا کو کسی ضلع کا تعلقہ دار نہیں بتایا۔ تبسم کے مطابق ان کے نانا درمیانے درجے کے زمین دار تھے جن کے ذمے ایک بڑے کنبے کی کفالت تھی۔
ادریس تبسم نے اوائل لڑکپن میں اپنے لئے کٹھن راہ کا انتخاب کیا تھا،ایسی راہ جو اس کے عہد کے نوجوانوں میں بہت مقبول تھی۔ وہ ایسی سماجی تبدیلی برپا کرنا چاہتے تھے جس میں عام آدمی کو زندگی کی تمام ضروریات فراہم ہوں۔ ادریس تبسم سٹوڈنٹس ایکٹوازم کی بدولت پرجا سوشلسٹ پارٹی سے متعارف ہوئے جو بھارت میں سماج واد اور جمہوریت کے تال میل سے ایک ہموار، روشن خیال اور جدید سماج کرنے کے لئے مصروف جدوجہد تھے۔ آپ بیتی کے مطالعہ سے معلوم ہوتا ہے کہ پرجا سوشلسٹ پارٹی سے وابستگی کے دوران تبسم رام منوہر لوہیا سے بھی ملا تھا جسے پاکستان میں بہت کم لوگ جانتے ہیں لیکن بھارت میں سماج واد کے حوالے سے ان کے نظریات کا بہت شہرہ ہے۔ جے۔پی(جے پرکاش نرائن) موومنٹ سے جڑے لوگ لوہیا کے نظریات سے متاثر ہیں۔
سماجی تبدیلی کی خواہش اور امن کا قیام باہم لازم وملزوم ہیں اور تبسم کی زندگی ان کے گرد گھومتی ہے۔وہ انسانوں کو اگر استحصال اور ناانصافی سے نجات دلانے کا خواہاں ہے تو وہ ملکوں کے مابین امن اوردوستی کے قیام کی جدوجہد میں بھی پیش پیش رہا ہے۔پاکستان انڈیا پیپلزفورم فار پیس اینڈ ڈیموکریسی اور ساوتھ ایشیا فریٹرنٹی کی سرگرمیوں میں اس نے رہنمایانہ کردار اد ا کیا ہے۔
ادریس تبسم نے آپ بیتی میں خود کو آوارہ گرد بتایا ہے لیکن کتاب پڑھ کر مایوسی ہوتی ہے کہ اس میں آوارہ گردی کے قصے سرے سے موجود ہی نہیں ہیں۔اگر رات گئے تک جاگنا او ر سڑکوں پر مٹر گشت کرنا آوارہ گردی کے زمرے میں آتا ہے تو اس بیان تفصیل سے موجود ہے۔ادریس تبسم سے مجھے گلہ ضرور ہے کہ اس نے آوارہ گردی کے وہ واقعات بیان کرنے سے احتراز کیا ہے جس میں اس کا بذات خود پارٹنر تھا۔ شائد وہ شرما گیا ہے۔
ادریس تبسم کی زندگی اپنے اہل خانہ کی معاشی بقا،سماجی تبدیلی کی خواہش اور قیام امن کی جدوجہد سے عبارت ہے۔آپ بیتی میں اس نے اپنی انہی خواہشات اور اور جدوجہد کو بیان کیا ہے۔ادریس تبسم کی آپ بیتی ہم سب کی آپ بیتی ہے۔ہم سب جو عام انسان ہیں جن کے پاس شہرت ہے نہ اقتدار۔ہمارا اثاثہ بس ایک چیز ہے اور وہ ہے مسلسل اور پیہم جدوجہد۔ ایک بہتر،خوشحال اور پرامن مستقبل کے لئے جدوجہد نہ صرف اپنے لئے بلکہ بلا لحاظ مذہب،نسل، عقیدہ اور رنگ سب انسانوں کے لئے۔ اس جدوجہد میں تبسم ہمارے ساتھ ہے اور ہم سب اس کے ساتھ ہیں۔٭٭
یہ تحریر کتاب کی تقریب پذیرائی منعقدہ کاسمو کلب لاہور میں پڑھی گئی

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply