شہباز شریف کو نئی دلہن مبارک ہو/ناصر شیرازی

مسلم لیگ ن کے سربراہ جناب نواز شریف جب بھی وزیر اعظم پاکستان بنے، انہوں نے اعلان کیا کہ وہ اس منصب کی تنخواہ نہیں لیں گے۔ کچھ دوستوں کا کہنا ہے کہ انہوں نے بانی پاکستان کے نقش قدم پر چلتے ہوئے صرف ایک روپیہ تنخواہ لی تاکہ جذبہ خیر سگالی کو نقصان نہ پہنچے اور ملک و قوم پر بھی کوئی احسان نہ ہو۔ ان کے برادر خورد جناب شہباز شریف کی طرف سے بھی اعلان آ چکا کہ وہ اپنے منصب کی کوئی تنخواہ نہیں لیں گے۔ انہوں نے واضح کر دیا کہ وہ ایک روپیہ یعنی علامتی تنخواہ بھی نہیں لیں گے اور نہ ہی مراعات لیں گے۔ صدر پاکستان کا انتخاب انکے بعد ہوا ہے، انہوں نے بھی اعلان کر دیا کہ وہ اپنے منصب کی تنخواہ نہیں لیں گے۔ قومی سطح کے لیڈروں کا یہ جذبہ قابل قدر ہے کہ وہ چوبیس گھنٹے کے ملازم ہونے کے باوجود بلا تنخواہ کام کرنے پر راضی ہیں، انکی جتنی بھی تعریف کی جائے کم ہے۔ گزشتہ روز وفاقی کابینہ نے فیصلہ کیا کہ کابینہ کا کوئی رکن تنخواہ اور مراعات نہیں لے گا اور پروٹوکول بھی نہیں لیا جائے گا۔

آپ چاہیں تو اسے سیاسی مغالطہ کہہ لیں لیکن حقیقت یہی ہے کہ ہیر کے ابا حضور کو بھی یہی معلوم تھا کہ رانجھا بغیر تنخواہ کے کام کر رہا ہے اور مفت میں بھینسیں چرا رہا ہے وہ تو راز اس وقت کھلا جب وہ سب کچھ چر چکا تھا۔ ہیر کی امی حضور نے دیکھا کہ ہیر کچھ دنوں سے گم سم رہنے لگی ہے۔ بیٹی کی پہلی اور آخری دوست بلکہ مخلص ترین دوست اسکی ماں ہوتی ہے، اسی دوستی کے ناتے ماں نے بیٹی سے کچھ سوال جواب کیے جس کے بعد معلوم ہوا کہ ہیر کو تیسرا مہینہ چڑھ چکا ہے۔ امی حضور نے یہ بات نہایت رازداری سے ہیر کے ابا حضور کے گوش گزار کی تو انکے ہاتھوں کے طوطے اسی طرح اُڑ گئے جس طرح ہمارے جنرل الیکشن میں حکومت بنانے والوں کے ہاتھوں کے طوطے اُڑے ہیں، وہ بے حد پریشان ہوئے اور انہیں احساس ہوا کہ انہوں نے اپنی لاڈلی بیٹی ہیر کو ہر معاملے میں کھلی چھٹی دے کر اچھا نہیں کیا۔ اس کھلی چھٹی کا انجام ان کے سامنے آ چکا تھا، انکی سمجھ میں نہ آ رہا تھا کہ اب کیا کریں۔ لاکھ سوچ بچار کے بعد انہوں نے اپنے چھوٹے بھائی کیدو کو طلب کیا، انہیں تمام بات بتائی جسے سن کر ان کے ہاتھوں کے طوطے اور بٹیر سبھی اُڑ گئے۔ انہوں نے پہلے تو بھائی تو بے نقط سنائیں، بڑے بھائی سر جھکائے سب کچھ سنتے رہے پھر انہوں نے رندھی ہوئی آواز میں پوچھا کہ برادر عزیز میں نے آپ کو شریکوں کا کردار ادا کرنے کیلئے نہیں بلایا، اس مسئلے سے نکلنے کا حل ڈھونڈے کیلئے بلایا ہے لہٰذا اب اپنی افلاطونیاں اپنے پاس رکھیں اور اس مسئلے کا حل بتائیں۔ ہیر کے انکل کیدو نے بھائی کو بتایا کہ وہ عحب مشکل میں ہیں انہوں نے تو کھیڑوں سے وعدہ کر لیا تھا کہ ہیر اگر دلہن بنے گی تو صرف انہی کی دلہن بنے گی ورنہ کسی اور کی نہیں لیکن وہ پریشان ہیں کہ ہیر نے کسی کو منہ دکھانے کے قابل نہیں چھوڑا۔ وہ کھیڑوں کو منہ دکھانے کے قابل نہیں رہے، پھر انہوں نے مشورہ دیا کہ اب رانجھے کے رشتہ داروں کو پیغام بھیج دیں کہ وہ فلاں تاریخ کو بارات لے کر آ جائیں۔ انکل کیدو یہ مشورہ دے کر گھر آ گئے اور تمام رات بستر پر کروٹیں بدلتے رہے اور سوچتے رہے کہ کھیڑے انکے بارے میں کیا سوچتے ہونگے۔ پس انہوں نے کھیڑوں سے رابطہ کیا اور انکے ساتھ جھوٹ بولا کہ وہ تو کھیڑوں میں رشتہ کرنے کے حق میں تھے لیکن ہیر کے ابا حضور نہیں مانتے اور انہوں نے رانجھے کے حق میں فیصلہ دے دیا ہے۔ کھیڑوں کو یہ بات معلوم ہوئی تو وہ غصے میں آ گئے کہ ہیر تو انکی منگ تھی، رانجھا اسے کیسے بیاہ سکتا ہے۔ انکل کیدو نے انہیں اعتماد میں لیتے ہوئے کہا کہ میں تو یہی چاہتا ہوں۔ رانجھا جس روز بارات لے کر آئے آپ لوگ رانجھے کو نامعلوم افراد کی مدد سے اغوا کر لیں، اسکی اتنی پھینٹی لگائیں کہ وہ کسی جوگا بھی نہ رہے۔ ہیر کو اٹھا کر لے جائیں اور اسکے ساتھ وہ سب کچھ کر لیں جو صحافتی اصولوں کو مد نظر رکھتے ہوئے تحریر نہیں کیا جا سکتا۔ کھیڑوں نے ہیر کو بتائے ہوئے طریقے کے مطابق اغوا کیا اور اسے اپنے ڈیرے پر لے گئے وہاں انہوں نے اسکے ساتھ زبردستی کیا کیا یہ اب تک راز ہے۔ کیونکہ ہیر کو اسکے موکلوں نے بتا دیا تھا کہ اسکے ساتھ کچھ انہونی ہو سکتی ہے لہٰذا ہیر نے ڈولی چڑھنے سے پہلے اپنے ساتھ گندم میں رکھنے والی زہریلی گولیاں رکھ لی تھیں جو چوہوں سے بچاؤ کیلئے رکھی جاتی ہیں۔ تاریخ بتاتی ہے کہ ہیر نے وہ زہریلی گولیاں کھا کر خود کشی کر لی لیکن یہ راز آج بھی راز ہے کہ اس نے کھیڑوں کے ڈیرے پہ رات گزارنے کے بعد خودکشی کی یا وہاں پہنچنے سے قبل ہی گولیاں نگل لیں۔ بعض مورخین کا کہنا ہے کہ ہیر نے ولیمے کی صبح خودکشی کی کیونکہ شب عروسی تو اسے معلوم ہی نہ تھا کہ اسکا گھونگھٹ رانجھا اٹھائے گا یا کھیڑا۔ پس سنگینوں کے سائے میں رات بسر کرنے کے بعد اسے موقع ملا تو اس کے زہر پھانک لیا، صبح ایک طرف ولیمے کی تیاریاں ہو رہی تھیں، دوسری طرف محبت کا جنازہ تیار ہو رہا تھا۔ نیا جنازہ کب اٹھتا ہے، اس کا فیصلہ بجٹ کے بعد ہو گا۔

ہیر رانجھا تاریخ کے کردار تھے یا ہیر صرف پیر وارث شاہ کی تخلیق تھی، یہ بھی آج تک راز ہے لیکن یہ کہانی آج بھی مختلف صورتوں میں ہمارے معاشرے میں ملتی ہے۔ ہیر محبت رانجھے کی ہوتی ہے اسے کھیڑے اٹھا لے جاتے ہیں۔ ایک گروپ کا کہنا ہے کہ ہیر کو جناب نواز شریف کی دلہن بننا تھا حقیقت کچھ بھی ہو، اقتدار کی ہیر جناب شہباز شریف کی دلہن بن گئی۔ شہباز شریف کو نئی دلہن مبارک ہو۔ وہ کتنے روز، کتنے مہینے، کتنے برس شہباز شریف کے عقد میں رہتی ہے یہ فیصلہ جناب شہباز شریف نے نہیں ہیر نے کرنا ہے۔

Advertisements
julia rana solicitors

بشکریہ نئی بات

Facebook Comments

مہمان تحریر
وہ تحاریر جو ہمیں نا بھیجی جائیں مگر اچھی ہوں، مہمان تحریر کے طور پہ لگائی جاتی ہیں

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply