دستک ۔۔۔ صبغت وائیں

بشکریہ مارکسسٹ ڈاٹ پی کے

انسانی سماج کا محرک بالآخر معاش ہی ہے۔“ سگمنڈ فرائیڈ
۔۔۔

ستر کی دہائی کے شروع میں راجندر سنگھ بیدیؔ نے ایک فلم بنائی تھی ”دستک“ جس کی کہانی بھی بیدیؔ نے خود ہی لکھی تھی۔ اس فلم میں دکھایا گیا تھا کہ وہ غریب جو کہ اپنی خودی اور خود داری کی زندگی جینا چاہتا ہے، اور اپنی زندگی کو اپنی اخلاقی قدروں کے مطابق گزارنا چاہتا ہے، اس کی زندگی میں ہیجان اور طوفان برپا کرنے اور اس کی گھریلو زندگی اور معاشرتی وجود کو اپنی حرص و ہوا کے مطابق کرنے کے لیے سماج میں موجود طاقتوروں اور دولتمندوں کے نمائندے کس طرح سے بار بار دستک دیتے ہیں۔ اسی طرح کا ایک افسانہ غلام عباسؔ نے ”کن رس“ لکھا تھا جس میں بھی یہی دکھایا گیا تھا کہ کس طرح سے غریب آدمی کو اپنی خودی، خود داری اور جسم بیچنے کی خاطر ارد گرد کی قوتیں کار فرما رہتی ہیں اور ہر روز اس کے دروازے پر ان چاہی دستکیں دیتی ہیں۔

دولتمند کی جانب سے دی گئی یہ دستک غریب کو مجبور کرتی ہے کہ وہ اپنی قوتِ محنت کے ساتھ ساتھ اپنے جسم کو اور اپنی روح کو بھی فروخت کر دے، خودی اور خود داری تو کہیں رہ گئی۔ اس طرح یہ عنوان ”دستک“ اس فلم کے تناظر میں ان لوگوں کے ذہن میں ایک ہولناک اور کریہہ قسم کی یادیں جگاتا ہے جو اس فلم کو دیکھ چکے ہیں۔

میرے ذہن میں بھی ”دستک“ کے نام سے کچھ ایسا ہی تاثر تھا۔ چند دن پہلے ایک دوست نے ”دستک“ نامی کسی گھی کے ایک اشتہار کا ویڈیو کلپ بھیجا اور مجھ سے اس پر رائے دینے کو کہا۔ ساتھ یہ بھی کہا کہ تم لوگ جو جدوجہد کرتے ہو، اگر ”ایسا“ ہو جائے تو سوچو ہمارے کتنے قومی مسئلے حل ہو جاتے ہیں۔
لیکن مجھے یہ دستک، اسی طرح کی دستک لگی جیسی کہ فلم میں تھی۔ جیسے موبائل فون پر آنے والے ان چاہے اشتہارات۔ ان چاہی کالیں۔ سرمایہ داروں کی پراڈکٹس بیچنے والے سیلز مینوں کی دستکیں۔ کبھی پروموشن کے نام پر کبھی سستی پراڈکٹ کے نام پر اور کبھی محض سروے کرنے کے بہانے فون نمبر وغیرہ لے جانا (یہ کمپنیاں ہمارے نام اور نمبر ایک دوسرے کو بیچتی بھی ہیں۔ یہ الگ استحصال ہے)، اور دستک شروع۔

اشتہار کا مقصد عوام کو اس بات پر مائل کرنا تھا کہ وہ دیگر گھی اور خوردنی تیل وغیرہ کو چھوڑ چھاڑ کر اس دستک نامی گھی کو گھر لے آئیں۔ اور اس کے لیے انہوں نے انسان کی دُکھتی رگ پر ہاتھ رکھنا بہتر سمجھا۔ یعنی حس کی بجائے تخیل، شعور کی بجائے لاشعور، منطق کی بجائے جذبات اور دیگر ایسی مصنوعات کے اشتہارات کے فیشن سے روگردانی کرتے ہوئے فزیالوجی کی بجائے سائیکالوجی کو اپنے اس مقصد کو حاصل کرنے کے لیے برتا۔

کرداریت پسند، نو کرداریت پسند اور صارفین کی نفسیات

علمِ نفسیات پر سرمایہ کاری کرنے والوں کی سب سے بڑی خواہش انسان کو نفسیاتی الجھنوں سے یا بیماریوں سے نجات دلانا، یا پھر انسان کے ذہن کو سمجھنا نہیں رہا، بلکہ ان کا مقصد انسان کے ذہن کو کنٹرول کرنا اور اس کو اس طرح سے سوچنے پر مجبور کرنا رہا ہے جیسے کہ حکمران طبقے کے یہ سرمایہ کار چاہتے ہیں۔ جو کہ ان کے طبقے کے مفاد میں ہے، یعنی انسان یا عوام الناس کے خود کے مفاد کے برخلاف۔
حوالے کے لیے بعض نفسیات دانوں کے اپنے الفاظ دیے جا سکتے ہیں۔

مثلاً کرداریت پسند نفسیات کے بانی تھارن ڈائیک کے اپنے الفاظ ہیں: انسانی فطرت کا مطالعہ کرنے کا اس وقت تک کوئی جواز نہیں جب تک کہ ہم اس علم کے ذریعے انسان کے اعمال کو کنٹرول نہ کر سکیں۔
واٹسن کا دعویٰ تھا کہ اس کو عام بچے دے دیے جائیں تو وہ ان کو کرداریت کے اصولوں کے ذریعے جو چاہے بنا دے گا۔ اس نے یہ بھی دعویٰ کیا کہ تشریط(Conditioning) کے ذریعے سماجی کنٹرول بھی قائم کیا جا سکتا ہے۔

سکِنر کا کہنا ہے کہ ”ہم انفرادی وجود کے کردار کی پیشین گوئی کرنا اور اسے کنٹرول کرنا چاہتے ہیں“۔
لیکن یہاں ہم ایک خاص تجربے کے متعلق بات کر کے اپنا جائزہ لینے کا عمل شروع کریں گے۔

میں نے نفسیات کے ایک تجربے کے متعلق کہیں پڑھا تھا جس میں بہت سے لوگوں کو جمع کر کے ان کو ایک اشتہاری فلم دکھائی گئی۔ اس عام سی فلم میں ایک ٹرین تیزی سے گزرتی دکھائی گئی تھی، جس کی کوئی بھی بوگی واضح نظر نہ آئی۔ لیکن اشتہار بنانے والوں نے اس کے ایک ڈبے پر کسی مشروب کا پینٹ کر رکھا تھا، جس کو ہم یہاں فرض کر لیتے ہیں کہ وہ پینٹ فانٹا کا تھا۔ اس پانچ سات منٹ کے اشتہار کو دکھانے کے بعد انہوں نے وقفہ کیا اور حاضرین کو ہال سے باہر جانے دیا۔ باہر سٹال پر مختلف ڈرنکس رکھے گئے تھے۔ تجربہ کرنے والوں نے نوٹ کیا کہ سب سے زیادہ لوگوں نے پینے کے لیے فانٹا کی بوتل اٹھائی۔ انہوں نے اسی طرح کے تجربات کو بدل بدل کر لیکن بار بار کیا۔ نتیجہ ان کی توقعات کے مطابق ہی آتا رہا۔

ایسا کیوں ہوا؟ اس پر انہوں نے کچھ اس طرح کی بات کی تھی کہ لوگوں نے ٹرین کے اس ڈبے کو ہرگز نہیں دیکھا تھا، ٹرین اتنی تیز رفتار سے گزاری گئی تھی کہ بوگی پر لکھا ہوا کچھ بھی نظر نہ آ سکے۔ لیکن ہماری حسیات کے ذریعے جو ڈاٹا ہمارے ذہن میں محفوظ ہوا اس میں سپیڈ سے گزری اس ٹرین کے ڈبے کا عکس بھی تھا، لیکن اس عکس کو کسی نے بھی شعوری طور پر نہیں دیکھا تھا۔ لہٰذا جب سب لوگ باہر آئے اور انہوں نے پیاس محسوس کی اور سامنے فانٹا کا ڈرنک دیگر ڈرنکس میں پڑا ہوا پایا تو ذہن نے کچھ یاد کرنے کی کوشش کی ہو گی۔ شاید فانٹا پر رکا ہو گا۔ تو لاشعور کی اس کشمکش کو یہ سمجھا گیا کہ ”شاید فانٹا پینے کو میرا دل چاہ رہا ہے“، تو فلم دیکھ کر آنے والے نے فانٹا کی بوتل اٹھا لی ہو گی۔

ہم بچپن میں سسپنس ڈائجسٹ میں فرہاد علی تیمور کی کہانی ”دیوتا“ پڑھا کرتے تھے، جس میں فرہاد علی تیمور خیال خوانی (ٹیلی پیتھی) کا ماہر تھا۔ اس کہانی میں ایک بات ایسی تھی جو کہ یہاں بات کو سمجھنے کے لیے دی جا سکتی ہے۔

فرہاد علی تیمور جو کہ کسی بھی شخص سے اپنی مرضی کا کام کروا سکتا تھا، اس کو صرف اس شخص کا لہجہ سننا ہوتا تھا۔ پھر وہ اس کے ذہن میں پہنچ جاتا اور وہاں جا کر اسی کے لہجے میں متکلم کے صیغے میں سوچتا۔ یعنی اگر فرہاد چاہے کہ وہ شخص چائے پیئے، تو وہ اس کے دماغ میں جا کر بولتا کہ چائے پینے کو دل چاہ رہا ہے، چلو چل کے چائے پیتے ہیں، تو وہ شخص اٹھ کر چائے پینے کو چل پڑتا۔

کرداریت پسند نفسیات بھی انسان پر ایسا ہی اختیار چاہتی ہے۔ کہ وہ جو چاہیں، ان کے سبجیکٹ انسان ویسا ہی کریں، کرنے لگیں۔

زیادہ غور سے دیکھیں تو مطلب یہ ہوا کہ سرمایہ کاری کرنے والے جس کام کے لیے سرمایہ کاری کریں وہی ہو جائے، نفسیات والے اس پر جوش و جذبے سے کام کر رہے ہیں۔

اس بات کو ہم یوں بھی سمجھ سکتے ہیں کہ جب یہ لوگ سیون اپ یا سپرائٹ کا اشتہار دیتے ہیں تو کڑاہی گوشت، کباب، نہاری، غرض ہر طرح کے مرچ مصالحے والے کھانے دکھانے پر زور زیادہ رکھتے ہیں، لیکن ساتھ سپرائٹ وغیرہ دکھا دیتے ہیں۔

اب ہوتا یہ ہے کہ لوگ جب بھی کھانا کھاتے ہیں، خاص طور پر مرچ مصالحے والا تو ان کے اندر لاشعور طور پر ”سافٹ ڈرنک“ کی طلب پیدا ہو جاتی ہے، جس کی تشریط(Conditioning) اشتہار میں کر دی گئی تھی۔

اسی طرح: ”خوبصورت“؎۱ فِٹ اور سمارٹ لڑکے، لڑکیاں پیپسی کی دو دو لٹر کی بوتلیں پیتے دکھائے جاتے ہیں، جن کو دیکھ کر ہمارے کالج یونیورسٹیوں کے لڑکے لڑکیاں دھڑا دھڑ بوتلیں پیتے ہیں، کہ شاید وہ لڑکے پیپسی پیتے ہوئے، ان ماڈل لڑکے لڑکیوں کی طرح کے ”خوبصورت“ اور سمارٹ نظر آ رہے ہیں، نتیجے میں خود پر مزید چربی کی تہیں چڑھاتے ہیں اور معدے میں تیزاب اتارتے اور ہڈیوں کا ناش کرتے ہیں۔
یہ سب لاشعوری طور پر ہوتا ہے۔

اس گھی کا اشتہار دیکھ کر اپنا پڑھا ہوا یہ تجربہ میرے ذہن میں تازہ ہو گیا۔ لیکن ایسا بھی فوراً نہیں ہوا، اسی گھی کے اشتہار پر سوچتے سوچتے مختلف مسائل ذہن میں آتے گئے تو غور کرنے کے دوران کہیں پڑھا ہوا یہ تجربہ یاد آ گیا۔ جانے کہاں سے پڑھا تھا۔ ایک بات تو پکی تھی کہ یہ تجربہ میں نے شعوری طور پر پڑھا تھا جو کہ اس طرح کے حالات ملنے پر ذہن میں تازہ ہو گیا۔

شعور، تحت الشعور اور لاشعور

حسیات جو کچھ شعوری طور پر، سوچتے سمجھتے، توجہ دینے سے، تعقل کے استعمال سے، بیرونی دنیا کی چیزیں، مظاہر اور واقعات کو ہمارے ذہن کا حصہ بناتی ہیں، شعور ہے؛ بھول جائے تو یاد آ سکتا ہے، زیادہ سے زیادہ بھی بھول جائے تو بھی یہ کچھ لاشعور نہیں ہوتا بلکہ تحت الشعور یا Sub-Conscious ہوتا ہے۔
لاشعور وہ ہے جس میں بیرونی دنیا سے حسیات کے ذریعے سے حاصل شدہ مال میں ہماری

موضوعیت(شعوری): تعقل، توجہ یا شعوری عمل کا دخل نہیں ہوتا۔ مثلاً ارد گرد کے ایسے واقعات جن پر ہم نے غور نہیں کیا ہوتا لیکن وہ رونما ہوئے ہوتے ہیں۔ حسیات کے نرغے میں آئے ہوتے ہیں لیکن تعقل کی دسترس میں پہنچے بغیر کہیں کھو چکے ہوتے ہیں، وغیرہ۔۔۔ یا پھر بہت پرانے واقعات جو کہ شعور اور تحت الشعور سے نکل کر لاشعور کا حصہ بن گئے ہوتے ہیں اور یا پھر بہت ہی ابتدائی بچپن کے واقعات یا سانحات جو کہ غیر شعوری انداز میں جزوِ لاشعور بنے ہوتے ہیں۔

کیا ہماری سوچ آزاد ہے؟

سارترؔ نے ایک جگہ لکھا ہے کہ ”ہم سب سے زیادہ آزاد تب تھے جب ہم جرمن قید میں تھے“۔ وہ کہتا ہے کہ جرمن چاہتے تھے کہ ہم (فرانسیسی) لوگ جرمنوں کو اور ان کی کاروائیوں کو درست مانیں۔ لیکن سارترؔ کا کہنا ہے کہ ہم یہ سوچنے میں آزاد تھے کہ جرمن لوگ غاصب ہیں اور غلط ہیں۔

سارترؔ ہی کی طرح کے بہت سے لوگوں اور فلسفیوں کا بھی یہی دعویٰ رہا ہے کہ انسان اپنی سوچ میں آزاد ہے۔ اس مضمون کو پڑھنے والوں میں سے شاید ہی کوئی ہو گا جس نے ژاں ژاک رُوسوؔ کے یہ الفاظ سنے یا پڑھے نہ ہوں گے، ”انسان آزاد پیدا ہوا ہے“۔

اب یہ بات کہ انسان آزاد پیدا ہوا ہے یا نہیں کا فیصلہ تو انسان کو سمجھے بنا کرنا محال ہے۔ ظاہر ہے کہ انسان تو ”سوچنے والی ہستی“ بھی ہے، اگرچہ، ہیگلؔ کی کہی یہ بات انسان کی ایک جامع تعریف کرنے سے قاصر ہے مگر انسان بہرحال سوچتا تو ہے۔ تو کیا وہ آزادانہ سوچنے کے قابل ہے؟

’آزادی‘ اور ’آزاد ارادہ‘ یا ’آزاد مرضی‘ پر لمبی بحث نہ کرتے ہوئے کسی کا اتنا کہا دوہرا دیتا ہوں کہ، ”انسان اپنی مرضی میں اتنا ہی آزاد ہے جیسے گھڑی کی سوئی کہے کہ وہ اپنی آزاد مرضی سے گول گول گھومتی ہے۔“ ویسے روسو نے ”معاہدہئ عمرانی“ میں جہاں انسان کو آزاد لکھا ہے، اسی کے آگے یہ بھی لکھا تھا کہ ”لیکن جہاں دیکھو انسان پابہ زنجیر ہے“ یعنی بندھا ہوا ہے۔ جس کا حل رُوسو کے نزدیک یہ تھا کہ اگر حکومتِ وقت فرد کی مرضی کی پاسداری نہیں کرتی تو فرد کو اپنا معاہدہئ عمرانی توڑ دینا چاہیے اور جنگلوں کی جانب نکل جانا چاہیے اور فطرت کے مطابق زندگی گزارنا چاہیے۔ جو کہ اس کے مطابق آزادی تھی۔ لیکن جب ہم غور سے دیکھتے ہیں، تو جنگل کے باسی، پنکھ پکھیرو، چڑیاں، طوطے اور یہاں تک کہ سمندر کی مچھلیاں بھی آزاد نہیں ہیں، بلکہ اپنے اپنے نظر نہ آنے والے پنجروں میں قید ہیں 2؎۔

ہم ویسے بھی اپنے وجود کے تجربات سے آگے سوچنے سے قاصر ہیں۔ انسان انفرادی وجود نہیں ہے۔ یہ سماجی وجود ہے۔ ہم جو بھی سوچیں گے، دوسرے کے بارے سوچیں گے۔ یہاں تک کہ اپنے بارے سوچ بھی، دوسرے کے ساتھ نتھی ہو گی۔ سارتر کا کہنا کہ ”جہنم دوسرے لوگ ہیں“ شاید اسی وجہ سے تھا، کہ دوسروں کے ہونے کی لازمیت کی وجہ سے اس کا ذاتی فلسفہ نادرست نتیجے دیتا تھا۔ یعنی یہ کہ ”میں ہوں، اس لیے میں سوچتا ہوں“ پر ایک بچہ بھی غور کرنے لگے تو وہ اس نتیجے پر جا پہنچے گا کہ ”میں“ ہی نہیں یہاں اور بھی ان گنت وجود ہیں۔ اور مزید سوچیں تو سامنے آتا ہے کہ میں تو ”ہوں“، لیکن ”یہ“ بھی تو ”ہیں“، اور میں ان کے ”نہ ہونے“ کی صورت میں کوئی بھی سوچ رکھنے سے معذور ہوں، اور دوسری جانب بے شمار دیگر چیزیں ”ہیں“ تو۔۔۔ لیکن وہ سوچتی نہیں ہیں۔ تو سوچنے کے لیے ”ہونا“ کافی نہ ہوا، اگرچہ ”ہونے“ کے بغیر سوچنا ناممکن ہے۔ آسان الفاظ میں اگر کہا جائے کہ ”ہم ہیں (یعنی ہمارے ارد گرد کی چیزیں اور ”سماج“ جو کہ بہت سے ”میں“ کے ملنے سے بنتا ہے، یعنی ”ہم“ کا لفظ استعمال کرنے کے لیے خود شعوری کا اور سماج کا ایک ساتھ ہونا ضروری ہے جو کہ علیحدہ علیحدہ ممکن نہیں ہیں) اس لیے میں سوچتا ہوں“، تو بات درست ہوتی۔ انفرادیت، یا دوسرے سے صرف نظر کرنا شاعرانہ یا فلسفیانہ طور پر شاید خوبصورت خیال ہو سکتے ہیں، لیکن حقیقت کے ساتھ یہ اتنے ہی بُعد میں ہیں، جتنا کہ اس طرح کے باقی موضوعی عینیت پرست فلسفے؛ جن کا انجام ”ہمہ انانیت“ 3؎ کی جہالت کے اندھیرے میں ڈوبی بند گلی میں ہوتا ہے۔

کیا سوچ کردار کی تشکیل کرتی ہے؟

ہم اپنے ارد گرد بہت سی نصیحتیں سنتے ہیں کہ اچھا سوچا کرو۔ اچھا سوچیں تو اس کے اچھے نتائج ملیں گے۔ مثبت سوچ سے خود میں (مثبت) تبدیلی لائی جا سکتی ہے۔ اس لیے کچھ بھی ہو ہمیں مثبت سوچنا چاہیے 4؎ وغیرہ۔

ہمیں یہ دیکھنا ہو گا کہ کیا سوچ فرد کے کردار کو بناتی ہے؟

یا یہ کردار ہے جو کہ خود کے مطابق سوچوں کو جنم دیتا ہے؟

اور یہ کہ اگر کردار سوچ کو جنم دیتا ہے تو پھر کردار کو کون سی چیز بناتی ہے؟

معلمِ اول ارسطوؔ نے اخلاقیات کی پہلی دو کتابوں میں اسی بات کو بیان کیا ہے کہ کردار اپنے اندر کچھ نہیں ہوتا۔ اصل چیز عمل ہے۔ عمل کی تکرار ہی عادت بنتی ہے، اور پھر عادت آگے جا کر انسان کے کردار کی تشکیل کرتی ہے۔ یعنی ایکشن ہمارے کردار کی بنیاد ہے۔ وہ کہتا ہے کہ ہم اپنے کردار میں اچھے یا برے نہیں ہوتے حالاں کہ یہ ہماری دیگر قدرتی صلاحیتوں کے مقابلے میں بالکل برعکس بات ہے۔ جیسے کہ ہمارے پیدا ہوتے ہی ہمیں دیکھنے اور سننے کی صلاحیتیں فطرت کی جانب سے ملی ہوتی ہیں۔ اس سے پہلے کہ ہم کچھ بھی دیکھیں، دیکھنے کی صلاحیت، اور اس سے پہلے کہ ہم کچھ سُن پائیں، سننے کی صلاحیت کے حامل ہوتے ہیں۔ ہمیں یہ صلاحیتیں دیکھ کر اور سُن کر حاصل نہیں ہوتیں۔ اسی طرح ہمیں ایکشن کرنے کی صلاحیت بھی فطرتاً ملتی ہے، جو کہ اپنے آپ میں اخلاقی لحاظ سے اچھی یا بری ہرگز نہیں ہوتی، یہ بس ”ہوتی ہے“، اور نیوٹرل ہونے کی وجہ سے کردار کی حامل نہیں ہوتی۔

لیکن اچھائی یا برائی کو دیکھنے کے لیے یہ دیکھنا پڑے گا کہ ہم اچھے اعمال کرتے ہیں یا بُرے۔ ہم اچھا ہونا یا برا ہونا اچھے اور برے اعمال کر کے سیکھتے ہیں۔ جیسے ایک بنانے والا(بلڈر۔ معمار) بناتے ہوئے بنانا سیکھتا ہے۔ بہت سے اعمال کی تکرارکردار کو ایک رجحان فراہم کرتی ہے۔ اس طرح سے کردار کے خاصے گذشتہ اعمال کی وراثت ہوتے ہیں۔

سوچ کے کردار کے ساتھ تعلق کو جاننے کے لیے ارسطو کی اس بات کو دیکھنا ہو گا جہاں وہ کہتا ہے کہ ”ہم اچھے یا برے اس لیے نہیں ہوتے کہ ہم اچھائی یا برائی کو جانتے ہیں۔“ بلکہ ہمیں اچھا یا برا عمل، اچھا یا برا بناتا ہے۔ یہاں وہ اپنی ”مابعد الطبیعات“ کی اصطلاحات پوٹینشلٹی اور ایکچوئلٹی کی مدد سے بتاتا ہے، کہ محض ایک اچھا کام کرنے کا پوٹینشل ہونا کردار کے اچھا ہونے کے لیے کافی نہیں ہے بلکہ اس کو اچھا عمل کر کے اس پوٹینشل کو ایکچوئلائز یا ریئلائز کرنا پڑے گا۔

مختصر یہ کہ ارسطو کے نزدیک ہمارے کسی بھی اخلاقی عمل کے پیچھے لازماً خواہش(سوچ) ہوتی ہے، اس خواہش کے پیچھے مقصد ہوتا ہے، مقصد یقیناً مسرت کا حصول ہوتا ہے، وہ خواہش ہمیں تحریک دیتے ہوئے حرکت پر، ایکشن پر آمادہ کرتی ہے، اور ہم مقصد یعنی مسرت کے حصول کے لیے ایکشن کرتے ہیں، اور یہ مسرت بجائے خود ایک مخصوص قسم کے ایکشنز ہوتے ہیں، نہ کہ مخصوص معیار کی چیز کا حصول۔ مثال کے طور پر بہترین کھانا حاصل کر لینا، یا خوبصورت ترین عورت یا مرد سے شادی کر لینا مخصوص فعالیت کا تقاضہ کرتا ہے، نہ کہ معیار کا حصول فی نفسہٖ کافی متصور ہو گا۔

اسی بات کو ہم معلمِ آخر یعنی مارکس(اور لازمی طور پر اینگلس) کے نقطہ نظر سے دیکھتے ہیں تو ہمیں معلوم ہوتا ہے کہ ہمارے ایکشنز نے ہی، جسے یہ استاد محنت کہتے ہیں، ہماری سوچ کی اور ہماری زبان کی تشکیل کی ہے۔ یعنی انسان نے مادے پر کام کرتے ہوئے سوچ کی تشکیل کی ہے، اور آج بھی انسان مادے کے علاوہ کسی اور چیز کے بارے سوچنے سے لاچار ہے۔ یہاں تک کہ کسی ”غیر مادی“ ہیولے کے بارے بھی سوچے گا، تو بھی اس کی مادی تجسیم کر کے ہی سوچے گا۔

سوچ پر اتنا کافی ہے کہ ہماری سوچ نہ کبھی آزاد تھی اور نہ ہی اب ایسی آزاد ہے، کہ وہ خود سے کچھ بھی سوچ سکے، وہ لگی بندھی باتیں ہی سوچ سکتی ہے۔ اس بارے ارسطو سے لے کر مارکس تک سبھی متفق ہیں۔ باقی رہ جاتے ہیں عینیت پرست لوگ جو کہتے ہیں کہ مادہ تو ہے ہی نہیں۔

مادے سے انکار کرنا ان کی مجبوری ہے۔ کیوں کہ تمام کے تمام طبعی علوم (نیچرل سائنسز) یہ مان کر اپنا آغاز کرتے ہیں کہ ہماری سوچ سے باہر ایک مادی دنیا موجود ہے۔ اور ہمارے تجربات کا مرکز و محور اگرچہ نظریاتی طور پر انسان اور انسان کی فلاح ہے، لیکن ہمارا مفعول مادہ ہے۔ لیکن مادے کو تسلیم کر لینے کی صورت میں ان لوگوں کو ان کا حق دینا منطقی قرار پائے گا جو کہ مادے پر براہ راست عمل کر کے اس کی شکل کو اس طرح سے تبدیل کرتے ہیں کہ وہ دیگر انسانوں کی ضرورت پوری کرے، جو کہ انسان دشمن فلسفوں کو منظور نہیں۔ لہٰذا آسان حل یہ گھڑا گیا ہے کہ یا تو مادے کا اور مادی دنیا کا سائنس کے مکھوٹے پہن کر انکار کر دیا جائے، اور یا پھر سوچ کو مادے پر اولیت و فوقیت دے دی جائے، کہ مادہ تو بس مفعول ہے، عمل اس پر سوچ کرتی ہے، اور سوچ جو کہ چند ہزار سال پہلے پیدا ہوتی نظر آتی ہے، اس کو مادے کی تخلیق کا سزا وار ٹھہرا دیا جائے۔

سوچ کو مادے پر مقدم کرنے کے لیے بے پناہ سوچا گیا ہے، اور اس طرح کی سوچ کو تعلیمی اداروں اور یونیورسٹیوں کے ذریعے، درسی کتب کے ذریعے، سطحی اور مابعدالطبیعاتی فکر کے حامل اساتذہ کے ذریعے اور سرمایہ دار کے غلام میڈیا کے تنخواہ دار دانشوروں کے ذریعے عوام میں پھیلایا جاتا ہے۔ غرض اپنی اس انسان دشمن سوچ کو انسان کے استحصال کے لیے، انسانوں کی سوچ کو خاطر خواہ (اپنی مرضی کے مطابق) طور پر تبدیل کرنے کے لیے جن وسائل کا استعمال کیا جا رہا ہے، تمام کے تمام اپنی بنیاد میں مادی ہیں، یہاں تک کہ ان پر ہونے والا تمام خرچہ بھی مادی ہے۔

انسان دشمن اقوال

ایک دو مثالیں پیش کرنے کی اجازت چاہوں گا۔ ہمارے ارد گرد عقل و دانش کی پوشاک میں ملبوس ایسی ہزارہا باتیں روز ہمارے سامنے سے گزرتی ہیں۔ جن کو دیکھ کر صرفِ نظر کرنا ہماری عادت بن گئی ہے۔ لیکن پھر بھی انسان دشمن ”اقوالِ زریں“ اپنا اصل چھپا نہیں پاتے۔ چند مثالیں حاضر ہیں:

”آج کا انسان اپنے دکھ سے دکھی نہیں ہے، دوسروں کے سکھ سے دکھی ہے“

صاف ظاہر ہے کہ یہ کسی سرمایہ دارانہ ذہن کی عکاسی کرتی بات ہے۔ کہ اپنے سے کمتر کو دیکھو، اور جو تمہارے خون کو چوس کر عیاشی کر رہے ہیں، جن کے بچے اپنی گاڑیوں میں تمہارے بچے بچیوں کو کچل کر گزر جاتے ہیں، ان کے سُکھ سے ہم لوگ دُکھی نہ ہوں۔

ہم کیسے اس قول کو درست مان سکتے ہیں؟ اس کو سونے کی تاروں سے لکھ کر ہیروں کے فریم میں جَڑ دیں پھر بھی اس کی بدصورتی نہیں چھپے گی۔ اس میں چھپے مغالطے کو سمجھنے کے لیے مارکس کی ایک اولین تحریر کی مثال لیتا ہوں۔ فرض کریں کہ ہم سبھی ایک ایسی جگہ رہتے ہیں جو باہر کی دنیا سے کٹی ہوئی ہے۔ ہمیں ایک سے مکان ملے ہیں اور ایک سی خوراک ملتی ہے، اور ہمیں کسی بھی دیگر مکان کا، یا خوراک کا علم بھی نہیں ہے، تو ہماری سوچ کیسی ہو گی؟ ہم سب کیسے اور کیسا سوچیں گے؟ نہ ہمارے پاس ٹی وی ہو اور نہ ہی ہمارے ارد گر کوئی اشتہاری نیون سائنز یا فلیکس بورڈ ہوں، جو کہ ہمیں بتاتے ہیں کہ اصل میں ہماری یہ، یہ اور یہ ضرورتیں ہیں۔۔۔ اور ہمارے درمیان ایک دم سے آ کر ایک محل کھڑا کر دے یا محض پکا مکان ہی بنا ڈالے؟ کیا ہو گا؟ باقی سارے مکان ایک ہی دن میں چھوٹے ہو جائیں گے۔ افریقہ کے کئی قبیلے سارا سال صرف شکرقند پر اور کئی صرف کیلے پر گزارا کرتے ہیں۔ انڈونیشیا وغیرہ کے کئی قبائل صرف ناریل پر گزارا کرتے رہے ہیں۔ ہم بھی انہی حالات میں ہوں تو ایسا کر لیں گے۔ لیکن۔۔۔ اگر کوئی آئے، اور آ کر ہمارے دسترخوان پر انواع و اقسام کی نعمتیں لا کر اکیلا کھانے لگے تو؟ ایک دم سے ہماری پسندیدہ خوراک گھٹیا ہو جائے گی۔

کوئی مجھے کہہ سکتا ہے کہ ہم انسانوں کی بات کر رہے ہیں، جانور روز ایک ہی خوراک کھا سکتے ہیں، لیکن انسان تنوع پسند ہے۔۔۔ وغیرہ۔ لیکن ایسا نہیں ہے۔ انسان بھی کچھ کھائے بغیر لمبے عرصے تک زندہ رہ سکتا ہے۔ اور انسان ہی ہے، جو کہ بوفے کے تین سو کھانوں میں اپنی پسند کی چیز تلاش نہیں کر سکتا، لیکن جب یہ جیل وغیرہ میں ہوتا ہے تو روز ایک ہی طرح کے گھٹیا سے کھانے کا وقت ہوتے ہی اشتہا جاگ اٹھتی ہے، اور وہ اسی ایک غذا کو رغبت سے کھاتا ہے۔ لیکن یہ اسی صورت میں ممکن ہے، جب ارد گرد کے سب لوگ ویسے ہی رہ رہے ہوں اور ویسی ہی غذا کھا رہے ہوں۔ ورنہ انسان کا دِل اُسی بیمار کی طرح دکھتا ہے، جس کو مرچ مصالحے اور عام غذا منع کر کے صرف ساگو دانہ اور کھچڑی کی اجازت دی گئی ہو۔ اسی طرح کے چند اور قول دیکھیں جیسے حسن نثار کی بات بار بار جیو ٹی وی پر دوہرائی جاتی ہے کہ ”ہمارا مسئلہ معاشی نہیں ہے بلکہ اخلاقی ہے“۔ اور یہ کہ ”خوش نصیب وہ ہے جو اپنے نصیب پہ خوش ہے۔“، یا بابے کی یہ بات کہ ”پریشانی حالات سے نہیں خیالات سے پیدا ہوتی ہے۔“، یا یہ کہ ”پازیٹیو 4 ؎سوچا کریں ہر بات میں positive سوچیں“۔ ان تمام باتوں میں کوئی بھی تصوف یا فلسفیانہ مسئلہ ہو سکتا ہے، لیکن ان کی جِلی حروف میں تشہیر کا ایک ہی مقصد ہے، وہ یہ کہ عوام اپنے آپ میں مگن رہیں اور خود پر ہونے والے جبر اور استحصال کو اپنا مقدر مان کر جدوجہد کی سوچ کو خود سے دور رکھیں۔

عوام کی ذہن سازی کرنے کے لیے اس طرح کے ہزاروں اقوال اور اقتباسات میڈیا پر، درسی کتب میں اور سوشل میڈیا پر گھُمائے جا رہے ہیں۔ ان میں سے بعض ایسے بھی ہیں جو کہ پہلی نظر میں سوشلسٹ قسم کے لگتے ہیں۔ جیسے یہ بات دیکھیں ”مجھے بہت جستجو تھی کہ عشقِ حقیقی اور عشقِ مجازی کا فرق جان سکوں، ایک دن ابا جی نے بتایا کہ۔۔۔ اشفاق اپنی انا کو کسی ایک شخص کے سامنے ختم کرنے کا نام عشق مجازی ہے، اور اپنی انا کو سب کے سامنے ختم کرنے کا نام عشقِ حقیقی ہے۔“ اس کو پڑھ کر بڑا اطمینان ہوتا ہے۔ جیسے کسی بھی ملک کا ایک شہید ہونے والا سپاہی مطمئن ہوتا ہے کہ وہ اپنے ملک یا اپنی قوم کی خاطر جان دے رہا ہے، اس کو یہ معلوم ہو کہ وہ سرمایہ دار کے منافعے بڑھانے یا بچانے کے لیے جان دے رہا ہے تو وہ کبھی نہ دے۔ آج انسان جہاں تک پہنچا ہے، وہاں انفرادیت کو یکسر طور پر رد کر دینے کا یہ افلاطونی نظریہ بری طرح پِٹ چکا ہے۔ بعض لوگ اس کو سوشلزم بھی کہتے ہیں، لیکن یہ سوشلزم نہیں ہے۔ سوشلزم میں انفرادیت کو رد نہیں کیا جاتا۔ بلکہ کُلیت، قوم یا عوام کی بات کرنے کا مقصد ہی یہ ہے کہ کوئی ایک بھی فرد ایسا نہ ہو جس کو اپنی انا قربان کرنی پڑے۔

اس کی صرف ایک مثال دیتے ہیں۔ ہماری سرکار علاج معالجے کی اور تعلیم کی وہ سہولت، جو کہ عوام ہی سے لیے گئے ٹیکسوں سے عوام کو دی گئی تھی، چھین رہی ہے۔ ساتھ میں وظیفے، لنگر اور صحت کارڈ دینے کا بتا رہی ہے۔ ہم اس کی مخالفت اس لیے کر رہے ہیں کہ عوامی سکول اور ہسپتال عوام کی عزتِ نفس کو مجروح نہیں کرتے، اور اس میں سارے عوام کو برابر کی سہولت ہوتی ہے۔

لیکن یہاں عوام کو پہلے ثابت کرنا پڑے گا کہ وہ بھیک لینے کے لیے اور مُفتا لگانے کے لیے آیا ہے۔ اور یہ کہ وہ حکمران طبقے کا یہ والا مقصد پورا کرے گا کہ وہ ذلیل ہو کر، مانگ کر اور خود کو نیچا دکھا کر اپنا وہی حق لے، جو کہ اسی کے دیے گئے ٹیکس میں سے کچھ بطور احسان کے، اور بطور بھیک کے حکمران طبقے کی جانب سے لوٹایا جا رہا ہے۔

”دستک“ گھی کا اشتہار

اشتہار جس کا ذکر کیا گیا ہے اس میں ایک چپڑاسی دکھایا گیا ہے جس کو ایک غلیظ اور لالچی کردار کے طور پر پیش کیا گیا ہے، یہ ندیدا دوسروں کے کھانے کو تاکتا رہتا ہے، اور اس چسکورے کو اپنے پیاز روٹی یا اچار روٹی کے بجائے نت نئے کھانے کھانے کی عادت پڑ چکی ہے، یہ ہر روز دوسروں کی تھالیوں کی جھوٹن چاٹتا ہے، ابھی اس کے دفتر کے دیگر لوگ، جو کہ سب اسی کی طرح کے نوکر ہیں، لیکن رتبے میں اس سے بڑے دکھائے گئے ہیں، ان کے کھانا ختم کرتے ہی آن دھمکتا ہے کہ برتن اٹھا لوں۔ پھر اپنے کیبن میں جا کر ان سب کی پلیٹیں صاف کرتا ہے۔ ظاہر ہے، بھانت بھانت کے کھانے کھا کر بندہ چٹورا ہو جاتا ہے، اس کو اپنا ایک کھانا کہاں پسند آئے گا؟

کافی عرصہ پہلے ایک ڈرامہ ”کرائم پٹرول“ سیریز میں دیکھا تھا جس میں بچی کو گھر میں خرید کر رکھا گیا تھا، انہوں نے کچن میں بھی کیمرے لگوا رکھے تھے۔ برتن دھوتے وقت اس بچی نے پھینکنے والے سینڈوچ کا ٹکڑا منہ میں ڈال لیا تھا۔ اس بات پر مالکان نے اس کو دو دن تک بھوکا رکھا، اس کو مارا گیا اور یہ کہا گیا کہ اس نے چوری کی ہے۔ اس کی وجہ یہ تھی کہ اس طرح اس کو اعلیٰ خوراک کی عادت پڑ جاتی۔ آپ دیکھیں کہ ان بچیوں کے کپڑے، ان کے بال اور ان کی جوتی سے لازمی ظاہر کروایا جاتا ہے، کہ یہ بچیاں کام کرنے والی ہیں۔ میں نے تو لنڈے میں بھی آئی بیگمات کے ساتھ ایسی بچیاں دیکھی ہیں، ان کو لنڈے سے بھی اچھے کپڑے نہیں لے کر دیے جاتے۔ اس کی بھی اسی طرح کی وجوہات ہیں کہ وہ بچیوں کو صاف کپڑے اور جوتے پہنا سکنے کی طاقت رکھنے کے باوجود ”کہیں یہ لوگ اپنی اوقات سے باہر نہ آ جائیں“ کے ڈر سے ایسا نہیں کرتے۔

اس طرح امیر آدمی کی منطق کے مطابق غریب آدمی کو اعلیٰ خوراک نہیں کھانی چاہیے۔ اور اگر اس کو ملے بھی، تو بھی وہ کوڑے میں سے اٹھا کر کھائے۔ یا مانگ کر کھائے۔ لیکن اس اشتہار میں دو طرح کے فریب دیے گئے ہیں؛ ایک تو کرسی میز پر بیٹھے محنت کش طبقے ہی کے لوگوں کو یہ سہانا سپنا دکھایا گیا ہے کہ وہ شاید چپڑاسی سے کچھ برتر مخلوق ہیں، جو کہ کھانا کھا کر پھر اسی چاکری کے جوئے میں کولہو کے بیل یا ریڑھی کے گدھے کی طرح جُت جائیں گے، جس کو گھاس کھانے یا پانی پینے کا وقت دیا گیا تھا۔ اور ایک چپڑاسی ایسا دکھایا گیا ہے، جو کہ نیچ ہے، ذلیل ہے، اور ان کے درجے سے بھی کم تر ہے۔ دوسرے یہ کہ اس طرح سے ان کا کھانا چھوڑ دینا چپڑاسی کا یا بڑے پیمانے پر دیکھا جائے تو غربت کا مسئلہ، غریب محنت کش دفتری کلرکوں وغیرہ ہی کے ذریعے حل ہو جائے گا، حکمران طبقہ صرف دونوں ہاتھوں سے مال سمیٹے، ان کو اس مسئلے سے کسی قسم کے احساسِ گناہ میں مبتلا ہونے کی ضرورت نہیں۔ اگر غریب لوگ غریبوں کی مدد نہیں کرتے تو غریب کام کرنے والے ہی لالچی اور ظالم ٹھہرتے ہیں۔

لیکن ہم اسی اشتہار پر مزید غور کرتے ہیں۔ ہمیں بحیثیت قوم کے، یا بحیثیت ایک مڈل کلاس کے مخاطب کیا جا رہا ہے اور اس ”انسانیت“ اور اس نام نہاد اخلاقیات کے واسطے سے سمجھانے کی کوشش کی جا رہی ہے، جس کا دائرہ اختیار اسی مڈل کلاس تک محدود ہو چکا ہے، اس اخلاقیات کو بالا حکمران طبقہ مانتا ہے، اور نہ ہی غربت میں پستا ہوا انسان اخلاقی اصولوں کے بارے سوچ سکتا ہے، کہ ہم اس چپڑاسی کے مسئلے کو بطور ایک اہم قومی مسئلے کے لیں اور اس کو ایک قومی فریضہ سمجھ کر سرانجام دیں جس سے غربت کی دلدل میں ناک تک ڈوبی قوم کو ایک نجات کی راہ مل جائے گی۔ وہ والی مڈل کلاس جو کہ حکمران طبقے کی نقل مارتے ہوئے طرح طرح کی غیرصحت بخش خوراکیں، جیسے کہ فاسٹ فوڈز وغیرہ کی عادی ہوتی جا رہی ہے، اپنا بچا ہوا کھانا صاف صفائی سے بچا کر کسی بے شرم مفت خورے کے لیے رکھ دیں۔ مگر اس سے ہو گا کیا؟ سوچ کر دیکھیں۔

ہماری اخلاقیات، نام نہاد ہی سہی، کیا یہ اسی طرح سے ہے؟ ہمارے سماج کی اکائی کیا ہے؟ کیا فرد ہمارے معاشرے کی اکائی ہے؟ کیسے؟

اگرچہ سرمایہ داری، اور اس کے طبلچی و ہمنوا لبرلز وغیرہ ساری دنیا میں تنہائی کا، اکلاپے کا، انفرادیت کا، فرد کا طبلہ پیٹتے پھر رہے ہیں، لیکن اس سے کیا حقیقت تبدیل ہو جائے گی؟ کیسے؟

معاشرے کی اکائی کیا ہے؟ فرد ہے، یا خاندان؟

ہیگل جو بھی تھا روسو سے بہرحال زمانی اعتبار سے بعد کا فلسفی تھا۔ اس کو فرد کے مسئلے کا اچھی طرح سے علم تھا۔ پھر بھی اس نے ”فلسفہئ حق“ میں سماج کی اکائی فرد کی بجائے خاندان بتایا۔ اس نے سماج کو تین حصوں میں بانٹا تھا۔ ریاست، اور اس کے نیچے سول سوسائٹی (سماج میں لوگ اپنے مقاصد کے حصول کے لیے دوسرے لوگوں سے تعلقات بناتے ہیں، ان تعلقات کے مجموعے کو سول سوسائٹی کہا جاتا ہے)، اور اس کے نیچے خاندان۔ اور بس۔

انسان کبھی بھی اکیلے نہیں رہ سکتا۔ اس کو اپنی معاشی، جسمانی، سماجی، نفسیاتی اور جذباتی زندگی گزارنے کے لیے دوسرے فریق کی اور دوسرے انسانوں کی ضرورت پڑتی ہے۔ ہمارے سماج میں خاندان کی ایسی اکائی موجود ہے جس سے باہر جا کر سرمایہ داری کے اصولوں کے تحت فرد مقابلے میں آ جاتا ہے، اور اس خود غرضانہ مقابلے میں جو کچھ حاصل کر لیتا ہے، اسے گھر لے کر آتا ہے۔ اور گھر میں یعنی خاندان میں آتے ہی وہ بے لوثی کا مظاہرہ کرتا ہے۔ وہ اپنے خاندان میں مقابلہ اور خودغرضی نہیں دکھاتا۔ یعنی اس سرمایہ داری میں بھی اس کی بقا کا یہی راستہ ہے کہ وہ باہر خود غرضی سے کام لے، اور خاندان کے اندر بے غرضی سے، اور اس وقت تک یہی ضروری ہے جب تک ساری ریاست ایک سوشلسٹ نظام کے کنٹرول میں نہ آ جائے، جہاں تمام انسان ایک بڑے اور مشترکہ خاندان کی طرح رہیں، جہاں کوئی مقابلہ نہ ہو، کیوں کہ دوسرے کے پاس کچھ ایسا ہو گا ہی نہیں، جس کا حصول پہلے کے لیے ناممکن ہو گیا ہو۔

میں یہاں مشترکہ خاندان کی بات نہیں کر رہا۔ کم سے کم افراد پر مشتمل اس ضروری خاندان کی بات کر رہا ہوں، جس میں مرد اور عورت اور ان کا ایک یا دو بچے آتے ہیں۔ اور یہی ہمارے آج تک کے سماج کی انفرادی اکائی ہے۔ جس پر دھول اڑا کر اس کو کبھی وجودیت کے اور کبھی مابعدی فلسفوں سے غائب کرنے کی کوشش کی جاتی ہے، کہ ”انسان تو تنہا ہے“، لیکن کہاں ہے وہ تنہا انسان جس پر افسانے اور ناول لکھے جا رہے ہیں، اور نت نئے فلسفے گھڑے جا رہے ہیں؟

اس اشتہار میں بھی یہی ہاتھ کی صفائی دکھائی گئی ہے۔ اس چپڑاسی کو بطور ”فرد“ کے پیش کیا گیا ہے۔ جس کے کوئی بیوی بچے نہیں ہیں، جس کا کوئی خاندان نہیں ہے۔ ہمارے معاشرے میں تو ابھی مشترکہ خاندان بھی ٹھیک سے ٹوٹ نہیں پایا۔ ہو سکتا ہے کہ اس چپڑاسی کی ابھی ماں یا باپ، یا دونوں بھی زندہ ہوں۔ لیکن ان لال بجھکڑوں کو اس سے کیا؟ یہ یہاں سرمایہ داری کا کوئی بھی مثبت پھل پہنچائے بغیر اس کا خاندان توڑنا بتا رہے ہیں۔

قارئین خود سوچیں کہ اگر اشتہار والوں کی بات مان لی جائے تو کیا ہو گا؟ یہ چپڑاسی خود تو کبھی دم پخت، کبھی بریانی، کبھی چانپ، کبھی ملائی بوٹی، گولہ کباب یا سیخ کباب اڑائے گا، ڈکار لے کر ہاتھ اوپر کر کے خدا کا شکر ادا کر دے گا، لیکن اس کی بیوی؟ اس کے بچے؟ اور اگر اس کے گھر میں کوئی اور بھی رہتا ہے۔۔۔ تو؟

کیا یہ ہمارا کلچر ہے؟

اتنی تعریفیں گھی والوں کے بُوجھ بجھکڑ بٹور کر لے گئے وہ بھی حلوائی کی دوکان پر نانے جی کی فاتحہ کروا کے، یعنی چپڑاسیوں وغیرہ کو کھانا کھلائے عوام اور دعائیں جائیں گھی کمپنی کے موٹے سیٹھ کو۔ چلیں جہاں اتنی داد وصول کی کچھ ہماری طرف سے اب لعنت بھی وصول کر لے۔

یہ اس علاقے کے محنت کشوں کا کلچر نہیں ہے، جہاں کھانا کھانے سے پہلے اجنبیوں کو بھی صلح ماری جاتی ہے۔ اصل میں یہ ”جدید“ سوچ سرمایہ دارانہ امریکہ سے برآمد کی گئی ہے۔ جس میں دوسرے کے سامنے بیٹھ کر بغیر کسی شرم حیا کے اپنا سینڈوچ نکال کر کھانا شروع کر دیا جاتا ہے۔

یہاں بھی بڑے شہروں میں یہ والی جدید سوچ آ چکی ہے، کئی بار ایسی تصاویر دیکھی گئی ہیں۔ ایک تصویر میں ایک مولوی اپنی فیملی کے ساتھ کسی ریستوران میں بیٹھا ہے۔ ساتھ میں کام والی کو دوسری طرف منہ کر کے بٹھایا ہوا ہے اور ہیپی فیملی کھانا نوش فرما رہی ہے۔

ہم مانتے ہیں کہ غربت اور بھوک ایک خاص طرح کی بے حسی پیدا کرتی ہے۔ جو کہ انسان کو انسان ہونے کے درجے سے گرا دیتی ہے۔ جس کا مظہر ہم انتہائی یونیورسل شکل میں پریم چند کے ”کفن“ اور گورکیؔ کے ”پاتال“ میں دیکھتے ہیں۔ اور مسلسل بھوک اور قلت سے پیدا ہونے والی لالچ۔۔۔ جس کو پریم چندؔ کے افسانے ”بوڑھی کاکی“ میں دیکھا جا سکتا ہے، یا پھر جس کو واقعی لالچ کہا جا سکتا ہے، ہمیں چارلس ڈکنزؔ کے ”آلیور ٹوئسٹ“ کی بوڑھی غریب عورتیں دیکھ کر اندازہ ہوتا ہے۔ اسی مظہر کو ”زورباؔ دی گریک“ کی طوائف کی موت سے پہلے والے سین میں دیکھا جا سکتا ہے، جس میں بوڑھی طوائف لمبی سانس لے کر آنکھیں بند کرتی ہے، اس کے پاس بیٹھی بڈھی ایک چیخ مارتی ہے، جس کو سنتے ہی لوگ اس کا مال لوٹنا شروع کر دیتے ہیں، کوئی پردے اتار رہا ہے، کوئی کرسی اٹھا رہا ہے، اور کوئی اس کی مُرغیاں بھاگ کر پکڑ رہا ہے۔ لیکن کیا عام برسر روزگار محنت کش ایسا ہوتا ہے؟ اور اگلی بات تو یہ ہے، کہ بتایا جا رہا ہے، کہ اس کو ایسا ہونا چاہیے، اس کو ایسا بناؤ۔ ”کفن“ کے گھیسوؔ اور مادھوؔ، باپ بیٹا ہونے کے باوجود چوری کے آلو بھونتے ہوئے ایک دوسرے پر نظر رکھے تھے کہ دوسرا زیادہ نہ کھا جائے، لیکن وہ مسلسل بھوک اور مسلسل بے عزتی کی وجہ سے اس بے حسی پر اتر آئے تھے جہاں ایک عورت کی زندگی ایک آلو کی نسبت ارزاں ہو چکی تھی۔ لیکن یہاں ایسا نہیں ہے، چپڑاسی بہرحال برسر روزگار ہے۔

بھیک کی حوصلہ افزائی

ہم مسلسل دیکھ رہے ہیں کہ خاص طور پر ان دنوں غریب کو منگتا بنانے کی کوشش اور اس کو غریب کی بجائے منگتا بتانے کا فیشن چل پڑا ہے۔ یا شاید یہ آج کا ”بیانیہ“ 5؎ گھڑ کر اتارا گیا ہے۔ یہ اشتہار ہماری اپنی سرکار کی ”آفیشل سوچ“ کا مظہر ہے۔ کئی دوستوں سے بات ہو رہی ہوتی ہے تو وہ لنگر خانوں وغیرہ کو ”غریب کی خدمت“ بتا رہے ہوتے ہیں۔ حالاں کہ مانگ کر کھانے اور غریب ہونے میں واضح فرق ہے۔

ہماری سرکار اگر واقعی غریب کے لیے کسی درد کا احساس رکھتی ہے، تو پھر وہ صحت کارڈ، اور خیراتی وظائف کی بجائے سرکار کی جانب سے دی جانے والی تعلیم کو مسلسل مہنگا کیوں کرتی جا رہی ہے؟ سرکاری ہسپتال جو کہ عوام کے ٹیکس کے پیسے سے چلتے تھے، ان کو موٹے سیٹھوں کو منافعے کمانے کے لیے کیوں بیچ رہی ہے؟ سرکاری سکولوں کو کیوں بیچا جا رہا ہے؟ آپ سے اگر یہ سکول نہیں چل پا رہے، تو سرکار کیسے چلا رہے ہیں؟ سرکاری یونیورسٹیوں کی تعلیم ایک دم سے اتنی مہنگی کیوں کر دی گئی ہے کہ کوئی بھی عام نوکری پیشہ وہاں اپنے بچے نہ پڑھا پائے؟ اگر ہماری سرکار کو غربت کی یا غریب کی واقعی فکر ہوتی تو نوکریوں پر پابندی کیوں لگا رکھی ہے؟ اور نوکریوں پر پابندی تو اپنی جگہ، لکھوکھا لوگوں کو بے روزگار کیوں کر دیا گیا ہے؟ ہماری سرکار نے ریکارڈ قرضے حاصل کیے ہیں، اور ریکارڈ ٹیکس بٹورے ہیں، اگر اس کو عوام کی واقعی فکر ہے تو لنگر خانوں، اور صحت کارڈوں کی بجائے سستی تعلیم کو کیوں چھین رہی ہے؟ تعلیم کا بجٹ کیوں آدھے سے بھی کم کر دیا گیا ہے؟ کیا تعلیم حاصل کر کے عوام باعزت روزگار حاصل نہیں کریں گے؟ کیا اس خوف سے تعلیم کو عوام کی پہنچ سے دور کر دیا گیا ہے، کہ تعلیم یافتہ عوام کہیں نوکریاں نہ مانگ بیٹھیں، جن کو پہلے سرکار کے وزیر سائنس اور اس کے بعد وزیرِ خزانہ، جو بیک وقت کئی قسم کی نوکریوں کی اکیلے تنخواہ لے رہے ہیں، کہہ چکے ہیں، کہ سرکار کا کام نوکریاں دینا نہیں ہے، اور نہ ہی عوام سرکار سے نوکریوں کی امید رکھیں۔

سرکار خود عوام کے سامنے سب سے بڑے دشمن کے روپ میں کھڑی ہے۔ ایسا دشمن جو ہر ماہ پٹرول، بجلی، گیس وغیرہ مہنگی کر کے اور مختلف ٹیکس لگا کر عوام کی زندگی کی ڈور قائم رکھنے کی چیزوں کو عوام کی پہنچ سے دور کرتا جا رہا ہے، اور دوسری جانب سے وہ چیزیں جو کہ عوام کی ملکیت تھیں، عوام کے قبضے سے چھین کر اس کے دشمن سرمایہ داروں کو بھینٹ کرتا نظر آ رہا ہے۔
اس کا ہر اقدام دشمن کے حق میں ہے۔ یہ عوام دشمن بیورو کریٹس اور ممبر اسمبلیوں کی تنخواہیں تین تین سو فیصد بڑھاتا ہے، جو کہ پہلے ہی عام عوام کے ایک ایک ہزار بندے کے برابر تنخواہ اور مراعات لے رہے ہیں۔

آپ عوام سے سب کچھ چھین کر یہ چاہتے ہیں کہ وہ صرف آپ سے مانگ کر کھائے؟ آپ اس کے ان داتا بننا چاہتے ہیں؟ آپ چاہتے ہیں کہ ہم عوام ایک ایک لقمے کے لیے آپ کے سامنے سجدے کریں؟ اس اشتہار میں آپ کی سوچ جھلکتی ہے، آپ کا ”بیانیہ“ ہے، کہ آپ مانگ کر ہماری جھوٹن کھاؤ۔ ہم اس طرح تم کو کھانا دیں گے۔ آپ ملک کو، قوم کو اس جگہ لے کر جانا چاہتے ہیں، جہاں انقلابِ فرانس سے پہلے فرانس تھا؟ جہاں وکٹر ہیوگوؔ کے مطابق عوام سے مراد صرف ”چور اور منگتے“ تھے، جو چالاک تھے چور تھے، جو سادہ لوح تھے، منگتے۔ لیکن افلاطونؔ ”ریاست“ میں ایک بات ایسی کرتا ہے، جس پر غور کرنا ضروری ہے، وہ کہتا ہے کہ جہاں غربت ہو گی، منگتے نظر آئیں گے، غور سے دیکھو تو انہی کے ارد گرد آپ کو چور اور ڈاکو بھی نظر پڑیں گے۔ اور ظاہر ہے، یہ ان بے مایہ لوگوں کی انفرادی سوچ کا اظہار ہے۔ یہی سوچ جب اجتماعی اظہار کرتی ہے، تو اس کی مادی شکل چوری یا ڈاکے کی شکل میں نہیں، بلکہ انقلابات کی شکل میں سامنے آتی ہے، وہ انقلابات، انقلابِ فرانس کی طرح کے خونی بھی ہو سکتے ہیں، جہاں لوگوں نے آٹھ دن تک حکمران طبقے کی گردنیں اتاری تھیں۔ اور انقلابِ روس کی طرح کے پُرامن بھی، جہاں سارے انقلاب میں ایک آدمی بھی موت کا شکار نہیں ہوا تھا۔ لیکن فرانس کے انقلاب سے پہلے عوام مرے ہوئے چوہے بھی خرید کر کھانے کو مجبور ہو گئے تھے۔ سارا پیسہ، ساری زمینیں ہر چیز حکمران طبقہ ہتھیا گیا تھا۔ تو عوام کیا کرتے؟
غریب لوگوں کو ان کھانوں کی عادت تو ایک طرف ان کا وہ والا ”ٹیسٹ بھی ڈیویلپ“ نہیں ہوا، جو آپ حکمران طبقے کے لوگ کھاتے ہیں۔ آپ اس گھٹیا کام سے باز آ جائیں اور ان کے منہ کو وہ والا خون اور گوشت نہ لگائیں جو آپ لوگ کھاتے ہیں۔ ورنہ جس قدر بے روزگاری، بھوک اور ذلت آپ دے رہے ہیں، ایسا نہ ہو کل کو یہ آپ کی ہڈیاں توڑ کر ان کا گودا بھی نکال کر کھا جائیں۔

نوٹس

خوبصورتی کوئی آفاقی چیز نہیں ہے، جو کہ ہر دور اور ہر جگہ ایک جیسی ہو۔ اس کا تصور عام طور پر وہی لیا جاتا ہے جو کہ حکمران طبقہ ہمارے ذہنوں میں ڈالتا ہے۔

انسان بڑا کیسے بنا۔ پہلا باب۔

ہمہ انانیت (Solipsism) ایسا عقل دشمن یا عدم تعقلی فلسفہ ہے، جس میں سوچنے والا یہی سمجھتا ہے کہ ساری دنیا میں صرف وہی واحد ہستی ہے، باقی دنیا اس کی اپنی سوچ کا نتیجہ ہے، خواب ہے یا واہمہ ہے۔ ہر عقل دشمن یا عینیت پرست فلسفے کا انجام اسی احمقانہ بند گلی میں ہوتا ہے، جیسے بھی سوچ لیا جائے۔

جیسا کہ میڈیا کو حکم دیا گیا تھا کہ ملک میں کچھ بھی ہو جائے انہوں نے پازیٹیو رپورٹنگ ہی کرنی ہے۔ البتہ اس میں لطیفہ ہے جو ان کے چاہے بغیر بن گیا ہے، کہ مثبت کا لفظ خود ثبت سے نکلا ہے، جس کے معنی کسی بات کو جبراً تھوپنا ہی بنتے ہیں۔ انگریزی میں ”posit“کے معنی بھی یہی ہیں، جس سے لفظ ”positive“ تشکیل پایا ہے۔

Advertisements
julia rana solicitors london

بیانیہ کہیں ”اوپر سے“ یعنی حکمران طبقوں کی جانب سے آنے والا آرڈر، کہ ”آج کے بعد اس طرح سے سوچا جائے“۔

Facebook Comments

مکالمہ
مباحثوں، الزامات و دشنام، نفرت اور دوری کے اس ماحول میں ضرورت ہے کہ ہم ایک دوسرے سے بات کریں، ایک دوسرے کی سنیں، سمجھنے کی کوشش کریں، اختلاف کریں مگر احترام سے۔ بس اسی خواہش کا نام ”مکالمہ“ ہے۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply