سفر جاری رہنا چاہیے

گزشتہ روز ایک کام کے سلسلے میں اسلام آباد جانا تھا۔ آفس سے گاڑی نکالی تو انجن کی آواز کچھ غیر مانوس سی محسوس ہوئی۔ کولیگ جو ڈرائیو کر رہا تھا، اس سے پوچھا کہ انجن کی آواز ٹھیک نہیں، گاڑی میں کوئی مسئلہ ہے کیا؟
کہنے لگا، نہیں سر کچھ خاص نہیں، بے فکر رہیے، کچھ دور جا کر بہتر ہوجائے گی۔
موٹر وے پر چڑھنے لگے تو انجن کی آواز میں نمایاں فرق سنائی دینے لگا۔ پھر اس سے کہا کہ گاڑی چیک کرا لیتے ہیں ورنہ راستے میں مشکل ہوگی۔
اس نے پھر وہی جواب دیا کہ کوئی خاص مسئلہ نہیں۔ آپ بے فکر رہیے۔
موٹر وے پر گاڑی نے مزید خوار کرنا شروع کیا۔ بجائے کہ سپیڈ سو سے ایک سو بیس کے درمیان ہوتی، مشکل سے ستر اسی کی رفتار سے چلاتے ہوئے اسے کالا شاہ کاکو انٹرچینج سے باہر نکالا۔
جی ٹی روڈ پر آکر کولیگ سے کہا کہ تم ہمیشہ گاڑی چیک کر کے لاتے ہو، آج کیا آفت آئی تھی کہ خراب گاڑی لے آئے ہو۔
اس نے پھر اطمینان سے جواب دیا کہ سر، آپ ناحق واویلا مچا رہے ہیں، گاڑی میں جو دو چار پرابلم ہیں، وہ گجرات پہنچنے تک خود بخود درست ہو جائیں گے۔
اب تو میں نے حیرت سے اس کی صورت تکنا شروع کر دی۔
“میں تو سمجھا تھا کہ ایک آدھ مسئلہ ہے لیکن تم کہہ رہے ہو کہ دو چار پرابلم ہیں ہیں۔ اس کا مطلب ہے کہ تمہیں معلوم تھا کہ گاڑی میں مسئلے ہیں لیکن تم نے بجائے انہیں درست کرانے کے، سفر شروع کر دیا؟”
اس نے نہایت سکون سے کہا، “مسئلے تو ہوتے رہتے ہیں لیکن اہم یہ ہے کہ سفر جاری رکھا جائے۔”
ابھی اس بات سے حیرت دور نہیں ہوئی تھی کہ انجن ہیٹ کی سوئی اوپر چڑھتی نظر آئی۔ میں نے چلا کر کہا، “الو کے چرخے! ہیٹ گیج دیکھو، تم انجن سیز کراؤ گے۔”
لیکن اس نے پروا نہ کی اور گاڑی کو آہستہ آہستہ گوجرانوالا تک لے آیا۔ یہ الگ بات ہے کہ راستے میں کئی بار انجن نے ہچکولے کھائے اور گاڑی بیچ سڑک کے رکی۔ پیچھے سے آنے والی گاڑیوں کے مسافروں نے ہمیں گالیاں بھی دیں لیکن کولیگ کے کان پر جوں تک نہیں رینگی۔
گوجرانوالا پنڈی بائی پاس سے آگے نکلے تو گاڑی نے چلنے سے انکار دیا۔ یہاں تک بمشکل ڈیڑھ گھنٹے کا راستہ تھا جو ساڑھے تین گھنٹوں میں طے ہوا۔ ناچار گاڑی کو ایک کنارے کھڑا کیا۔ راہوالی کینٹ میں ایک دوست کو فون کرکے ساری صورتحال بتائی۔ وہ اپنی فور وہیل گاڑی لے کر آئے اور ہماری گاڑی کو ٹو کر کے ایک ورکشاپ تک پہنچایا۔
جب گاڑی مکینک کے سپرد ہوگئی تو میں کولیگ سے کہا، “سچ سچ بتاؤ، تمہیں کیا مسئلہ ہے؟ کیا گھر میں کوئی پرابلم ہے؟ بھابھی سے جھگڑا ہوا ہے؟ یا کوئی اور بات ہے؟ مجھے تمہاری ذہنی حالت درست نہیں لگ رہی۔ ایک بچہ بھی سمجھتا ہے کہ جس گاڑی کو لانگ ڈرائیو پر لے جانا ہو، اسے ہر طرح سے درست حالت میں ہونا چاہیے لیکن تم ایسی گاڑی لے کر آگئے، اسے پہلے ٹھیک کیوں نہیں کرایا؟ اب دیکھو، ہم نہ لاہور میں اور نہ ہی اسلام آباد پہنچے ہیں۔
کمبخت نے برا سا منہ بنا کر جواب دیا: “اس میں میرا کیا قصور ہے؟ سارے دانشور یہی کہتے ہیں۔”
“کیا؟ دانشور کیا کہتے ہیں؟” میں نے حیرت سے پوچھا۔
“وہ کہتے ہیں کہ جمہوریت کو خامیاں دور کیے بغیر بیس پچیس سال چلنے دیا جائے تو خرابیاں خود بخود دور ہوجائیں گی۔ میں نے سوچا کہ جب چل چل کر جمہوریت خود بخود ٹھیک ہو سکتی ہے تو یہ معمولی سی گاڑی کیوں نہیں؟”

Facebook Comments

ژاں سارتر
ہر شخص کے کہے یا لکھے گئے الفاظ ہی اس کا بہترین تعارف ہوتے ہیں۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

براہ راست 2 تبصرے برائے تحریر ”سفر جاری رہنا چاہیے

  1. جے جمہوریت دی گڈی ٹھیک کراکے پٹڑی تے لیانڑی جے تے پھر ناں ہی سمجھئے

Leave a Reply