• صفحہ اول
  • /
  • کالم
  • /
  • پی آئی سی واقعہ،ذمہ داروںکا تعین اور سزالازم ہے

پی آئی سی واقعہ،ذمہ داروںکا تعین اور سزالازم ہے

ہر سماج کے کچھ رحجانات ہوتے ہیں اور ان ہی رحجانات کے تحت اس سماج یا معاشرے کا تجزیہ کیا جاتا ہے۔بارہا لکھا کہ ہم جس سماج کے باشندے ہیں، بدقسمتی سے یہ معاشرہ ہیجان انگیزی کا دلدادہ ہے،اس سماج کے نام نہاد پڑھے لکھوں کواپنے “جتھوں” پر حد سے زیادہ اعتماد ہے۔بلکہ اب تو معاشرہ مختلف نوع کے جتھوں کے رحم و کرم ہے۔ انھیں لٹھ بردار انتہا پسند کہیں ،یا مافیاز،سیاستدانوں کے پے رول غنڈہ گرد کہیں یا نیم پاگل سماج کے قد آور پاگل،ایک عرصہ سےہم یہی تماشا دیکھ رہے ہیں۔یہ فکری مغالطہ بری طرح فروغ پایا کہ ہر وکیل علامہ محمد اقبال اور قائد اعظم محمد علی جناح کا پیروکار ہے۔کیونکہ وکلا اپنےہر متشدد جلسہ جلوس کو یہ کہہ کر تحفظ دیتے آ رہے ہیں کہ پاکستان کا خواب بھی ایک وکیل نے دیکھا تھا، اور اس کی تکمیل بھی ایک وکیل نے کی تھی۔ لیکن کیا خواب دیکھنے اور پاکستان کی تکمیل کرنے والے دونوں وکلا کا فکری رویہ ایسا ہی تھا ؟کیا دونوں نے کبھی بھی کسی متشدد جلسہ، جلوس کی حمایت کی؟ یا اپنے حقوق کے لیے آئینی راستے کے بجائے تشدد اور طاقت کا راستہ اپنایا؟
وکالت ایک قابل احترام پیشہ ہے،بالکل اسی طرح جیسے صحافت، جیسے مسیحائی،لیکن تینوں شعبہ ہائے جات اپنے اندر چھپی کالی بھیڑوں کی وجہ سے بدنام ہو چکے ہیں۔ اول الذکر دونوں تو عشروں سے بدنام ہیں، حتیٰ کہ کوئی بینک کسی وکیل یا صحافی کو “لون” نہیں دیتا۔اس کا مطلب یہ ہوا کہ اس شعبے کی قد آور اور قابل تعظیم شخصیات نے اپنے شعبے میں گراں قدر خدمات تو انجام دیں، مگر اپنے پیچھے لائق، پیشہ ورانہ دیانت سے لگائو رکھنے والےاور سماجی اخلاقیات کی تعظیم کرنے والے شاگرد نہ چھوڑے۔ ڈاکٹرز اگرچہ اول الذکر سے قدرے کم بدنام سہی، لیکن اب ان کی نئی “کھیپ” نے بھی پر پرزے نکال لیے ہیں۔آئے روز ہڑتالیں،او پی ڈی کی بندش،پیشہ ورانہ بد دیانتی کی مثال ہے۔ بالکل اسی طرح وکلا بھی کرتے ہیں، آئے روز کسی نہ کسی معاملے کو لے کر، عدالتی بائیکاٹ اورہڑتالیں کر کے سائلین کے ساتھ ایک طرح کا سماجی ظلم روا رکھتے ہیں۔ ینگ ڈاکٹرز کے یقیناً کچھ مسائل ہیں جنھیں نظر انداز نہیں کیا جا سکتا،مگر جو راستہ مسیحائوں نے اختیار کر لیا ہے،اس سے سماجی حیات پر انتہائی منفی اثرات پڑیں گے۔11دسمبر کو پنجاب انسٹیٹیوٹ آف کارڈیالوجی میں جو ہوا، وہ کسی بھی طور سماج کے درد مند افراد کے لیے قابل قبول نہیں ہے۔

واقعہ کے محرکات و جزئیات.ہر چیز سے ایک تلخ حقیقت تسلیم کرنا پڑتی ہے،کہ ہم انتہا پسند،اور غیر مہذب سماج کے افراد ہیں ۔ وکلا جنھیں دلیل سے بات کرنا چاہیے وہ جتھے کی شکل میں بدمعاشی کرتے ہیں.اور ڈاکٹرز جنھیں مسیحائی کرنی چاہیے وہ زخم گری کے نئے نئے ہنر آزما رہے ہیں۔جو قانون کی پاسداری نہ کر سکے اسے قانون دان کہلانے کا حق نہیں،اور جو مریضوں کو تڑپتا چھوڑ دے،یا فارماسسٹ کمپنیوں کا کمیشن ایجنٹ بن جائے اسے ڈاکٹری کے بجائے دلالی کرنی چاہیے۔
میں نے ڈاکٹر عدنان کی وائرل ویڈیو دیکھی اور سنی،میرے خیال میں انھیں بحثیت ایک داکٹر کے ایسی تقریر بالکل نہیں کرنی چاہیے تھی۔ان کی تقریر نے معاملے کو بگاڑ دیا۔اسی طرح وکلا جو کسی ایک وکیل کی والدہ صاحبہ کو چند دن پہلے چیک اپ کے لیے لے گئے تھے، انھیں بھی اپنی ” انا” اور “وکیلانہ جاہ و جلال” دکھانے کے بجائے مریضہ کو دکھانا چاہیے تھا۔یہ کیسے ہو سکتا ہے کہ قطار میں کھڑے ہونے سے کسی شہری کی شان میں فرق آ جائے؟اوبامہ دو بار امریکی صدر منتخب ہوئے،اپنی ریٹائرمنٹ کے بعد انھیں ایک یوٹیلیٹی سٹور میں اپنی بیگم کے ساتھ عام افراد کی طرح خریداری کرتے اور قطار میں لگ کر بل ادا کرتے ہوئے دیکھا گیا۔ صدر پنجاب بار عاصم چیمہ نے ایک غیر ملکی میڈیا سے بات کرتے ہوئے کہا کہ” ‘پہلے جو معاملہ ہوا تھا اس میں ڈاکٹروں اور پیرا میڈیکل سٹاف نے وکلا کو کمرے میں بند کر کے مارا۔ اس کے بعد ایف آئی آر درج ہوئی لیکن کوئی کارروائی نہیں کی گئی۔ ڈاکٹر عدنان نے اچھا قدم اٹھاتے ہوئے کہا کہ ہم معافی مانگتے ہیں وکلا سے لیکن اس کے بعد انھوں نے ویڈیو بنا کر وائرل کر دی اور اس ویڈیو کی وجہ سے وکلا کی ہتک ہوئی جو ہمارے نوجوان وکلا کو بالکل اچھا نہیں لگا۔ گیارہ دسمبر کی صبح ہم نے ہاؤس کا اجلاس کیا اور اجلاس ختم ہو گیا لیکن نوجوان وکلا کا غصہ بہت زیادہ تھا اس لیے انھوں نے کہا کہ ہم نے پی آئی سی جانا ہے۔”

یاد رہے کہ پی آئی سی میں ہونے والی توڑ پھوڑ، تشدد اور ہنگامہ آرائی کے بعد پولیس نے 52 کے قریب وکلا کو گرفتار کر لیا تھا، جنھیں لاہور کی انسداد دہشت گردی عدالت نے ملزم وکلا میں سے 46 کو جوڈیشل ریمانڈ پر جیل بھیج دیا۔پولیس کی جانب سے گرفتار کیے گئے 52 وکلا میں سے 46 کو انسداد دہشت گردی کی خصوصی عدالت کے جج عبدالقیوم کے روبرو پیش کیا گیا، جہاں وکلا کے چہروں پر نقاب پہنائے گئے تھے۔پولیس نے ملزمان سے تفتیش کے لیے ان کے 15 روزہ جسمانی ریمانڈ دینے کی استدعا کی۔تاہم ملزمان کے وکلا نے جسمانی ریمانڈ کی مخالفت کی اور کہا کہ پولیس نے وکلا کو تشدد کا نشانہ بنایا ہے، لہٰذا تمام وکلا کا میڈیکل کرایا جائے۔عدالت نے دلائل مکمل ہونے کے بعد پولیس کی جسمانی ریمانڈ کی درخواست مسترد کرتے ہوئے ملزمان کو 14 روزہ جوڈیشل ریمانڈ پر جیل بھیج دیا۔پنجاب انسٹی ٹیوٹ آف کارڈیالوجی میں ڈاکٹروں اور عملے کو تشدد کا نشانہ بنانے، ہسپتال کی املاک اور پولیس کی گاڑیوں کو نقصان پہنچانے پر 250 سے زائد وکلا کے خلاف 2 ایف آئی آر درج کی گئی تھیں، جبکہ وکلا کے خلاف کارروائی کے لیے سپریم کورٹ میں درخواست بھی دائر کردی گئی۔ ”
وکلا کی جانب سے یہ انتہائی اقدام تھا۔جنگی حالات میں بھی دشمن کے جہاز ہسپتالوں،ہلال احمر کے دفاتر اور دیگر عالمی و انسانی حقوق کے اداروں کو نشانہ نہیں بناتے۔اگر دشمن ملک ،جنگ کے دوران کسی ہسپتال کو نشانہ بنائے تو اسے جنگی جرم تصور کیا جاتا ہے۔ یقیناً گزشتہ سے پیوستہ روز پی آئی سی میں جو ہوا، وہ اس سے بھی سِوا تھا۔میری دانست میں وکلا اور ینگ ڈاکٹرز اپنی اپنی “انائوں” کے ہاتھوں مجبور ہوئے، مگر انتظامیہ کو کیا تھا؟ کہ اس نے بر وقت حملہ آوروں کو نہیں روکا؟جس کے باعث دل کے ہسپتال میں آنسو گیس کی شیلنگ کی گئی، اور انتہائی نگہداشت یونٹ میں بر وقت طبی امداد نہ ملنے کے سبب 6 مریض خالقِ حقیقی سے جا ملے،ان اموات کا ذمہ دار کون ہے؟ان ملزموں کا تعین کون کرے گا؟

Advertisements
julia rana solicitors

میری دانست میں عدالت عظمیٰ،اور پارلیمان ایسے واقعات سے بچنے کے لیے اس حوالے سے گائیڈ لائن دیں۔ سینئیر ترین وکلا کو اپنے شعبے کی آبرو بچانے کے لیے اپنے شاگردوں کو اخلاقیات اور قانون دان کی ذمہ دارویوں پر لیکچرز کرنے چاہئیں۔اس حقیقت کو مگر کیسے فراموش کیا جائے کہ ہم آئے روز یہ سنتے اور دیکھتے ہیں کہ وکلا نے کبھی کسی جج کو کرسی دے ماری، تو کبھی کسی خاتون جج کے چیمبر کو تالا لگا دیا؟یہ قانون کی بالادستی کے امین ہیں یا اپنی اپنی انائوں کے اسیر؟ سماجی حیات کی ان تلخ ترین حقیقتوں کا سامنا کیے بغیر معاشرے کے سدھار کی امیدیں کبھی پوری نہیں ہوں گی۔ حکومت نے اگر اب کی بار بھی لچک دکھائی اور کسی غیر اعلانیہ”جرگہ” کے تحت معاملے کو ٹھپ کر دیا گیا تو ایسے واقعات روز کا معمول بن جائیں گے۔

Facebook Comments

طاہر یاسین طاہر
صحافی،کالم نگار،تجزیہ نگار،شاعر،اسلام آباد سے تعلق

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply