نزع کی ہچکی۔۔محمد وقاص رشید

غربت نے اس کے کاندھے سے بستہ اتار کر مزدوری کا بوجھ لاد دیا بھوک نے ہاتھوں سے قلم چھین کر اوزار تھما دیے اور یوں شعور کو احتیاج نے آنکھ کھلنے سے پہلے ہی گلا گھونٹ کر مار دیا۔بھوکی رعایا میں شعور اس امرا ء کے ریاستی نظام میں ایک لا ولد بچے ہی کی طرح ہے جس کے اسقاط ِ حمل کے لیے یہ ہمہ وقت و ہمہ جہت کامیابی سے کوشاں رہتا ہے۔ شعور فکر کو جنم دیتا ہے ،فکر خوابوں کو کوکھ فراہم کرتی ہے ،خواب جستجو کی آبیاری کرتے ہیں اور جستجو راستہ بناتی ہے اور راستہ منزل تک لے ہی جاتا ہے، جیسا بھی ہو۔۔  سو منزل سے دور رکھنے کے لیے کارواں میں شعور ہی کو نہ پنپنے دینا ہی اس نظام کا نصب العین ہے ۔

وہ بھی جگہ جگہ اور لمحہ بہ لمحہ خلیفہ ِخدا کی اس ذلت کے ساتھ پروان چڑھا۔جس شعور کو تعلیم و تربیت نے پیدا کر کے اسے انسانیت کے رتبے پر فائز کرنا تھا وہ اس سے نا بلد اپنے جیسے کروڑوں کی طرح اس مقام پر پہنچ گیا جہاں جنسِ مخالف کی ایک ایسے ہی ماضی کی پیداوار ،ایک عورت نے اپنی بے بسی کا خراج اپنی جنس کے ذریعے دینا تھا۔  جسے یہاں شادی خانہ آبادی کہا جاتا ہے۔ خانہ کتنا آباد ہونا چاہیے ، کتنا نہیں۔ انکی ضروریاتِ زندگی ،انکی دیکھ بھال ،ہر بچے کو انفرادی توجہ اور وقت سے لے کر تعلیم ،خوراک ،لباس اور بچپن کے خوابوں کا رختِ سفر فراہم کرنے جیسی “فضولیات” نہ انکے والدین نے سوچیں نہ اس نے۔۔اور یوں اسکی شادی ہو گئی۔ جو اپنی زندگی کا بوجھ برداشت کرنے سے قاصر ہے اسکی حیات کی ناؤ میں اب ایک اور نام نہاد جیتی جاگتی روح کا اضافہ ہو گیا تھا لیکن وہ فقط ایک جسم تھی ایک جنسِ مخالف کا پیکر جس پر اپنے مجازی خدا کے فطری تقاضوں کو پورا کرنا فرض تھا کیونکہ روح اور روحانیت کا تعلق یہاں مذہب سے ہے اور روایتی مذہبی طرزِ فکر خدا کے رازق ہونے کی من پسند اور اختراع کردہ تفہیم کی قائل ہے ،اس لئے کسی منصوبہ بندی کے بنا شادیاں کرنا اور بچے پیدا کرنا ایک مذہبی مسئلہ ہے۔ ایک ایسا توکل جو اس وقت انسانیت اور انسانی فہم و فراست کا منہ چڑاتا ہے جب اللہ کے رازق و رزاق ہونے کی ملائیت کے نتیجے میں پیدا ہونے والے بچے اپنے ماں باپ کو ملاں صاحب کے دیے گئے توکل کا خراج اپنے بچپن ہی میں محنت مزدوری اور معصومیت کی ارزاں بولیاں لگوا کردینے لگتے ہیں۔ جسے چائلڈ لیبر کہا جاتا ہے۔

آٹھ سال کی اس شادی میں پہلے نادیہ پیدا ہوئی ، گھر میں رحمت آ گئی ، ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ اس رحمت کو پنپنے کا وقت دیا جاتا اس رحمت کی قدر کی جاتی اس کی بنیادی ضروریات کا خیال رکھا جاتا لیکن ڈیڑھ سال کے بعد زین کو دنیا میں لایا گیا۔اسکے بعد ہی کاش یہ ہوتا کہ رحمت بھی مل گئی نعمت بھی عطا ہوئی تو محدود وسائل کی بنیاد پر محسنِ انسانیت ص ہی کے ارشاد کے مطابق چادر دیکھ کر پاؤں پھیلائے جاتے مگر پھر اپنے کیے کا خدا کو الزام نما کریڈیٹ دینے کا راستہ جو ہے ہمارے پاس۔پھر اسکے بعد فائزہ ،تاشہ اور پھر محمد احمد۔۔خانہ آبادی کا سلسلہ خانہ بربادی تک پہنچ گیا۔ بستر کی شکنیں ،روحوں کی دراڑیں بن کر زندگی کے گھاؤ کیسے بنتی ہیں اس کہانی کے اذیت ناک ترین انجام سے واضح ہے۔

خانہ آبادی ہو چکنے کے بعد جب آباد کاروں کی پیٹ بھرنے تن ڈھانپنے اور زندہ رہنے کی بنیادی انسانی ضروریات نے سر اٹھایا تو توکل اور ملاّں جی کی تفہیمِ دین نے اپنا راستہ لیا۔انسانی شعور کی عدم دستیابی کے ثمرات نے جب حسرتوں کے کچوکے لگانے شروع کیے تو گھر میں بھوک ،افلاس ،ننگ اور احتیاج نے ڈیرے ڈال لیے ۔ایسے میں وہ خدا بھی ان سے نمٹنے اس گھر میں نہیں آیا جس پر ان معصوم روحوں کو اس جوڑے پر مسلط کرنے کا الزام ہے۔۔مبارک ہو انکو جنہوں نے شعور کے اسقاط سے یہاں تقدیر و تدبیر کا بنیادی فرق ہی واضح نہیں ہونے دیا۔یہاں خودی کو صرف خطہ زمین حاصل کرنے کے لیے استعمال کیا گیا اسکی اس درجہ بلندی کہ خدا خود اپنے خلیفہ سے پوچھے کہ بتا تیری رضا کیا ہے کا تصور ہی نہیں یہاں تو اپنا کیا دھرا “جو رب کی رضا” کے “کھوہ کھاتے” میں ڈال دیا جاتا ہے۔ جبکہ خدا “لیس للانسان الا ما سعی ” کہہ کر اپنا عدل و انصاف کا خاموش ترازو تھامے ہوئے بے نیازی سے سب کچھ دیکھتا ہے۔۔

کل اسکی بیوی اس سے غربت اور بیروزگاری کے ہاتھوں تھک ہار کر لڑ کر گئی۔کاش وہ ان بچوں کو پیدا کرتے وقت اس سے لڑتی جھگڑتی ،آنے والے وقت میں انکی ضروریات کو سوچ کر انکار کر دیتی روٹھ کر چلی جاتی مگرافسوس۔۔۔

باپ نے آٹھ سال میں خدا کی مرضی اور اپنے توکل سے اکٹھی کی گئی پانچ عددرحمتوں اور نعمتوں کے فرشتوں کو ساتھ لیا سب بچے خوش ہوئے ہونگے کہ ہم سیر کو جا رہے ہیں جیسے وہ جاتے ہیں جو خدا کی رضا اور انسانی توکل کے نتیجے میں پیدا نہیں ہوتے ہم بھی کسی پارک باغ میں جھولے لیں گے اور وہ کچھ کھائیں گے جو وہ بچے کھاتے ہیں جنکا رازق خدا ہماری طرح نہیں کسی اور طرح ہوتا ہے یا پھر انہوں نے اپنی طوطلی زبانوں میں خوشی سے شکر کا کلمہ پڑھا ہو گا کہ ہمارے ماں باپ کے درمیان لڑائی جھگڑے ختم اور وہ محبت و پیار اور حسن سلوک کا رشتہ قائم ہو گیا جو انکے درمیان ہوتا ہے جہاں شعور خریدنے کی استطاعت موجود ہوتی ہے جہاں انسانیت اوپر تلے زچگیوں میں احساس کی بنیادی سہولیات کے فقدان کی وجہ سے مر نہیں جاتی۔۔جہاں ماں باپ اور ریاستی و مذہبی نظام کے جرم کی پاداش میں بچے اپنا حقوق گروی نہیں رکھواتے اور جہاں ماں نے ایک بے بس تابعدار بیوی اور باپ نے فیس بک پر ایک ملاں صاحب سے “مرد کا بچہ” نہیں کہلوانا ہوتا ۔نا سمجھ بچے یہ سوچ رہے ہونگے کہ وہ اپنی اس جنت میں جا رہے ہیں جو ماں کے پیروں تلے ہے لیکن ابن آدم و بنت حوا یہ نہیں جانتے تھے کہ وہ تو وہاں واپس آسمانوں کی بہشت میں جا رہے ہیں جو ان سے چھن گئی تھی۔۔

باپ انہیں نہر پر لے گیا۔کنارے پر لا کھڑا کیا۔ پہلے رحمت کو دھکا دیا ،پھر نعمت کو دھکیلا ، پھر توکل کو لہروں کی نظر کیا ،پھر خدا کے رازق ہونے کے مُلّائی تصور و تفہیم کو بھنور میں پھینکا اور آخر پر اس ریاستی نظام کے نتیجے میں پیدا ہونے والی بے شعوری اور جہالت کو غوطے دلائے۔ زمین کانپ گئی ہو گی۔اپنے خلیفہ بنی نوع انسان کی حیوانیت پر خدا کا عرش لرز گیا ہو گا۔ پانی میں ڈوبتے بچوں نے اپنے باپ کو جب دیکھا ہو گا تو ڈوبتی سانسوں کے ساتھ آخری دفعہ یہ ضرور سوچا ہو گا کہ ہمارے رزق کا ذمہ تو خدا نے خود لے رکھا تھا پھر ہمیں رزق کی تنگی کی وجہ سے کیوں زندہ در گور کر دیا گیا۔ ہم تو اس عظیم ترین پیغمبرص کی امت کی تعداد بڑھانے کے لیے لائے گئے تھے تا کہ انہیں فخر ہو وہی پیغمبر جن کو جب کسی نے اپنی بیٹی کو زندہ درگور کرنے کا واقعہ سنایا تھا ریشِ مبارک آنسوؤں سے تر ہو گئی تھی اسی طرح تر جس طرح ان ڈوبتے ننھے فرشتوں کے ظاہر و باطن تر ہوئے جن کا اس پوری سر زمین سے اس پر مذہبی تسلط قائم کرتی ملائیت سے اسکے سفاک ریاستی نظام سے اور اپنے ماں باپ سے یہ نزع کی ہچکیوں اور سسکیوں میں آخری سوال ہے کہ۔۔

Advertisements
julia rana solicitors london

“کھلا نہیں سکتے تو پیدا کیوں کرتے ہو اور اگر خدا پیدا کرنے اور کھلانے والا ہے تو ہمیں بھوکے پیٹوں کیوں مارا”۔

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply